سماجی ڈھانچے کو کوئی خطرہ نہیں
گزشتہ چند ہفتوں سے میں یتیم بچیوں کے استحصال کے حوالے سے کاشانہ سکینڈل پر کام کر رہی تھی، اس موضوع پر کالم بھی لکھے، بہت کچھ ایسا ہے جو ضبط تحریر میں نہیں آ سکا۔ میرے خیال کی رو میں ابھی یہی ایشو موجود ہے۔
سو آج جب عورتوں کا عالمی دن منانے کے لئے سب اپنے اپنے نعروں کے ساتھ میدان میں موجود ہیں تو میرا نعرہ آج کے دن یہ ہے کہ سرکاری یتیم خانوں میں یتیم بچیوں کے ساتھ ہونے والی جنسی اور جسمانی استحصال کو روکا جائے۔ اس سکینڈل کی شفاف تحقیقات کروائی جائیں۔ عورتوں کے عالمی دن پر میرا نعرہ یہ ہے کہ لاوارث بچیوں کے معاملے کو بہادری سے سب کے سامنے لانے والی زیر عتاب سپرنٹنڈنٹ محترمہ افشاں لطیف کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ابھی میرے خیال کی رو اسی ایک مسئلے میں گرفتار ہے۔ سو بات جب خواتین کے عالمی دن کی ہو۔ خواتین کے حقوق اور ان کے احترام کی ہو، تو پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ اس معاشرے کے سب سے کمزور اور بے کس طبقے کی خواتین کی بات نہ ہو۔
باقی جو گرد خلیل الرحمن قمر اور ماروی سرمد کی توں توں میں میں سے اٹھی ہے اور ابھی تلک تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ اس پر یہی کہوں گی کہ ماروی تو ایک ایجنڈے پر تھیں اور وہ اس میں کامیاب ہو گئی۔ اس کو کامیاب بنانے میں کس نے کیا کردار ادا کیا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔
خلیل الرحمن قمر نے ماروی کے ردعمل میں بدزبانی کی۔ اس کی مذمت ہر طرح سے کرنی چاہیے لیکن یقین کریں اگر وہ ماروی کے Provok کرنے پر بھی سینیٹر مولانا فیض محمد کی طرح خاموش اور cool رہتے تو ماروی سرمد بدمزہ ہو جاتی۔ متنازعہ ہونے کا اس کا ایجنڈا پورا نہ ہوتا۔ جن کا موٹو ہی بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا۔ ہو۔ انہیں اپنے سروائیول اور مغرب سے حاصل ہونے والی وظیفہ خوری کو justified کرنا ہی تھا اور وہ اس میں کامیاب ہوئے۔ پھر ماروی صاحبہ آتی ہیں۔ جو ہمیشہ اپنی متنازعہ گفتگو سے پروگراموں اور چینلز کی گرتی ہوئی ریٹنگ کو سہارا دینے میں مددگار ہوتی ہیں۔ نسخہ بہت سیدھا سادا ہے۔ بس ماروی سرمد کے ساتھ کسی عالم دین کسی دائیں بازو کے نظریات رکھنے والے کو پروگرام میں بلا لیں، پھر دیکھیں کیا ہنگامہ برپا ہوتا ہے۔ کیسی ریٹنگ چڑھتی ہے۔ کیسی گرد اڑتی ہے!
بس یہی فارمولا ابھی بھی استعمال کیا گیا۔ ایجنڈے پر کام کرنے والی ماروی، گالیاں کھا کر بھی بے مزا نہ ہوئی۔ اب تو پروگرام کے کچھ ایسے کلپس بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں، جس میں موصوفہ لکھاری کی اس قدر دشنام طرازی کے بعد فاتحانہ قہقہے لگا رہی ہیں اور ادھر ہم جیسے تہذیب اخلاقیات اور اقدار کے مارے ہوئے لوگوں کا کڑھ کڑھ کر برا حال ہے۔ بھئی وہ کس لئے بدمزہ ہوتیں کہ اس کا ایجنڈا
میرا مشاہدہ یہ ہے کہ این جی اوز کے ایجنڈے پر کام کرنے والی خواتین کے گھروں میں وہی طور طریقے رائج ہوتے ہیں جو ہمارے سماج کا قابل قبول حصہ ہیں یا جس پر معاشرے کی ایک عام عورت اور اس کا خاندان عمل پیرا ہے۔ مثلاً ماروی سرمد کو لے لیں۔ نوید ان کو برسوں سے جانتے ہیں، سرمد منظور سے دوستی کا تعلق ہے۔ مخدوش مالی حالات کے دنوں میں ہی ان کے گھر آنا جانا رہا۔ ان دنوں بھی جب سرمد صاحب ٹانگ ٹوٹنے کی وجہ سے صاحب فراش تھے اور ماروی ایک خدمت گزار بیوی کی طرح ہر وقت خدمت پر مامور رہتی۔
میری ماروی سے ایک ہی ملاقات ہوئی۔ جب وہ اور سرمد بھائی آنٹی افضل توصیف کی وفات کا افسوس کرنے اسلام آباد سے آئے تھے۔ سرمد بھائی اس وقت بھی بیمار تھے۔ بمشکل ٹانگ گھسیٹ کر چلتے۔ لاٹھی کا سہارا لینا پڑتا اور ماروی کو میں نے ایک اچھی مددگار بیوی کے روپ میں دیکھا۔ جس نظریے کی ترویج وہ اس معاشرے میں کرتی پھرتی ہے۔ اس میں خاندانی نظام ایک فالتو چیز کی طرح لپیٹ دیا جاتا ہے۔ ماروی کی زندگی اور اس کے نظریے میں مجھے یہ تضاد دکھائی دیا۔ اب ایسا ہی تضاد میں نے ایک اور جگہ بھی دیکھا۔ ایک سینئر صحافی خاتون، جن کو مذاقاً کہا جاتا تھا کہ بس یہ تو این جی اوز کے اس ایجنڈے پر کام کرتی ہیں کہ عورت کو خاندان سے آزادی ملے جبکہ ان کی اپنی زندگی اس پرچار سے بالکل مختلف تھی۔ میں نے انہیں ایک فیملی وویمن کے طور پر قریب سے دیکھا۔
خاندان کو جوڑنے والی۔ ساس سسر تک کی خدمت گزار اور اپنے شوہر کی فرمانبردار۔ مجھے یہ تضاد اکثر محسوس ہوتا تھا۔ میں نے ایک بار سوال کیا کہ آپ نے ایک سروے شائع کیا ہے کہ بچیوں کی کم عمری میں شادیاں نہیں ہونی چاہیں۔ مگر آپ کے تو اپنے خاندان میں کم عمر بچیوں کی شادیاں ہو رہی ہیں حتیٰ کہ ان کی تعلیم بھی مکمل نہیں ہوتی۔ کیا آپ ان کے والدین کو نہیں کہتی کہ بچیوں کی تعلیم پہلے مکمل کریں پھر شادیاں کریں۔ اس سوال پر میری دوست صرف مسکراتیں۔
نظریات کے پرچار اور حقیقی زندگی کے درمیان اس کھلے تضاد کو میں نے محسوس کیا اور آج آپ سے شیئر کیا۔ فکر کی کوئی بات نہیں ہمارے خاندانی نظام اور سماجی ڈھانچے میں مروجہ روایات کی بنیادیں بہت مضبوط ہیں۔ یہاں تک کہ اس کا پرچار کرنے والے بھی حقیقی زندگیوں میں انہی روایات کے تابع زندگی گزارتے ہیں۔
پاکستان کی 70 فیصد خواتین میرا جسم میری مرضی والے ایجنڈے کو مسترد کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں عورت خاندان کو جوڑنے والی اور اس کو لے کر ہی آگے بڑھنے اور زندگی میں ترقی کرنے پر یقین رکھتی ہے۔ یہاں خاندانی نظام مضبوط ہے اور خاندانی نظام مضبوط تو سمجھ لیں ہماری روایات پر استوار سماجی ڈھانچے کو بھی کوئی خطرہ نہیں۔