سفید پوش
سفید پوش اپنی زندگی دو دھاری تلوار پر چل کر گزارتا ہے زندگی سے جڑی ان گنت ضرورتیں۔ محدود آمدنی کا عذاب، سماج میں کم تر سماجی حیثیت کا جان لیوا ادراک، اور اس پر عزت نفس کی بھاری گھٹڑی اٹھائے، وہ تمام عمر اپنے آپ میں سلگتا رہتا ہے۔ شکر ہے یہاں کسی نے تو سفید پوش طبقے کا ذکر کیا۔ چیف جسٹس جسٹس مامون الرشید نے درست کہا کہ یہ طبقہ تو کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتا۔ لنگر نہیں کھاتا۔
معاشرے کا سب سے مظلوم، پسا ہوا اور اپنے آپ میں سلگتا ہوا طبقہ یہی ہے جسے ہم سفید پوش کہتے ہیں۔ اس کا المیہ یہ ہے کہ چار جماعتیں بھی پڑھ لی ہیں، شعور بھی آ گیا معاشرے کے آسودہ طبقات کو میسر جو آسائشیں اور سہولتیں ہیں اس کا ادراک بھی ہے۔ سو چپکے چپکے، اچھے دنوں کے خواب دیکھنے لگتا ہے۔ بس یہی اس طبقے کی سزا ہے۔ جیب ہلکی ہے مگر خوابوں اور خواہشوں کا بہت بوجھ ہے۔ جو وہ شب و روز ڈھونڈتا ہے۔ زندگی اس کے لئے جبر مسلسل کی ہوتی ہے۔ ہلکی جیب اور عزت نفس کا بھاری بوجھ اٹھائے اٹھائے وہ ہانپنے لگتا ہے۔ ضرورتیں کہتی ہیں کہ قرض مانگ لو۔ ہاتھ پھیلا لو۔ مگر انا اس کی اجازت کب دیتی ہے۔ مانگنا اپنا درد بتانا تو اسے گوارا ہی نہیں ہوتا۔ تابش دہلوی کی آواز آتی ہے ؎
چھوٹی پڑتی ہے انا کی چادر
پائوں ڈھکتا ہوں تو سر کھلتا ہے
لیکن وہ اپنی تمام تر مجبوریوں میں بھی انا کی چادر کی بکل مارے اپنا بھرم قائم رکھنے کی تنگ و دو کرتا رہتا ہے۔ سفید پوشی میں اپنا بھرم ہی تو رکھنا ہوتا ہے۔ اس طبقے کا المیہ یہی ہے کہ اس کو ادراک بھی ہے، شعور بھی اور دل میں خواہش بھی پنپتی ہے۔
اپنے بچوں کو پڑھانا چاہتا ہے۔ کسی انگلش میڈیم میں نہیں تو بس محلے کے کسی اچھے سے معقول سکول میں بچوں کی تعلیم دلانا چاہتا ہے۔ چاہتا ہے کہ اس کے بچے صاف ستھرا، بے داغ یونیفارم پہن کر سکول جائیں۔ ان کے بستے میں کاپیاں اور کتابیں پوری ہوں۔ اس کے بچے کی فیس بروقت سکول پہنچ جائے۔ اس کے ٹفن میں پراٹھا اور اچار ضرور ہو۔ بچہ بھوکا نہ رہے۔ پڑھائی دل لگا کر کرے۔ صرف اتنی سی بنیادی ضرورت اور خواہش پوری کرنے کو سفید پوش طبقے کے والدین نہ جانے مشکلات کی کتنی گھاٹیاں عبور کرتے ہیں۔
ماں اپنے حصے میں سے کھانا بچے کی پلیٹ میں ڈال دے گی، باپ پرانے کپڑوں اور ٹوٹی ہوئی جوتی میں گزارا کرتا رہے گا لیکن کسی سستے بازار سے اپنے بچوں کے لئے عید کے نئے کپڑے اور جوتے ضرور خریدے گا۔ عید پر نئے کپڑوں کا خواب سفید پوش طبقہ پورا سال دیکھتا ہے۔ عزت نفس اور انا اترن پہننے سے روکتی ہے۔ اس خواہش کی تکمیل میں باپ دو دو نوکریاں کرتا ہے۔ ماں کپڑے سلائی کرتی ہے۔ پھر بھی مہینے کے آخر میں جیب اتنی ہلکی ہو جاتی ہے کہ زندگی بھاری لگنے لگتی ہے۔
سفید پوش طبقہ ہمہ وقت ڈرا ہوا، سہما ہوا سا رہتا ہے۔ مسلسل کم مائیگی کا احساس ان کے رگ و پے میں سرایت کر جاتا ہے۔ بڑی دکانوں، شاپنگ مالز پر کبھی نہیں گھٹتا، جانتا ہے کہ مہنگی چیزوں کی چکا چوند سے اس کی سفید پوشی چندھیا کر رہ جائے گی۔
کھلونوں کی دکان کے سامنے سے گزرنے سے ڈرتا ہے۔ مبادا کہ اس کا بچہ کسی کھلونے کی فرمائش نہ کر دے۔ ایک ڈرے ہوئے سفید پوش باپ کے دل کی ترجمانی اس شعر میں کس خوبی سے ہوئی:
کھلونے کی دکانوں راستہ دو۔ !
میرے بچے گزرنا چاہتے ہیں!
ہائے ہائے۔ سفید پوش والدین۔ اپنے بچوں سے اپنے غم چھپانا تو چاہتے ہیں۔ مگر چھپا نہیں پاتے۔ ان کے چہروں پر جمی عمر کی لکیروں میں ان کے خدشوں، وسوسوں، پریشانیوں اور تفکرات کی ساری کہانیاں تحریر ہوتی ہیں۔
سفید پوش بس ضرورتوں کی تکمیل میں اپنی زندگی گزارتا ہے۔ مگر پھر بھی کبھی کبھی کوئی ایسی خواہش اس کے اندر پنپنے لگتی ہے جو اس کی اوقات سے بڑی ہو۔ پھر شب و روز وہ خواہش اسے بے چین رکھتی ہے۔ وہ اٹھتے بیٹھتے، اس خواب کو دیکھتا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے غلام عباس کے شہرہ آفاق افسانے"کتبہ" کا کردار شریف حسین اپنے ذاتی گھر کا خواب دیکھتا ہے۔ درجہ دوم کا کلرک شریف حسین کباڑیے کی دکان سے سنگ مر مر کا ایک پتھر خرید کر اس پر اپنا نام کنندہ کرواتا ہے اور سوچتا ہے کہ اپنے نام کی یہ تختی وہ ایک دن اپنے ذاتی گھر کے باہر لگائے گا۔ درجہ دوم کے کلرک شریف حسین کی عمر بنیادی ضرورتوں کی تکمیل میں بیت جاتی ہے۔ گھر کہاں سے بنتا بس سفید پوشی کا بھرم قائم رہتا۔ خواب مگر اس کے وجود کا حصہ بن کر لہو میں دوڑتا رہتا ہے۔ بالآخر شریف اگلے جہان سدھارتا ہے اور اس کی اولاد اس کے نام کی تختی اس کی قبر پر کتبے کی صورت لگوا دیتی ہے۔ اطہر نفیس کا یہ شعر سفید پوش طبقے کی تشنہ خواہشوں کے نام ہے:
ہر کتبے پر من چاہی تعبیریں لکھتے
اطہر اپنے خواب اگر دفنائے جاتے
اہل اقتدار کی سماعتیں ہی کہاں ہیں کہ ان سے کہا جائے کہ اذیت میں زندگی گزرتے ہوئے اس طبقے کی بھی خبر لے۔ سماج میں سفید پوش طبقہ ہمہ وقت سہما ہوا سا رہتا ہے۔ ہلکی جیب اور بھاری ضرورتوں کا بوجھ۔ محدود آمدنی اور لامحدود عزت نفس کے ساتھ ایک مشکل زندگی گزارتا ہوا۔ منیرؔ نیازی نے جس کے لئے کہا تھا:
چاہتا ہوں میں منیر اس عمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو