’’سچ آکھاں تے بھانبھڑ مچ دا اے‘‘
کچھ کالم محض کالم نہیں، ایک فرض کی طرح ہوتے ہیں۔ جن کا ادا کرنا بہرحال ضروری ہوتا ہے اور یہ فرض ادا نہ کیا جائے تو لکھاری کو اپنے ضمیر پر بوجھ کا احساس ہوتا ہے۔
جانتی ہوں کہ یہ سماج سچ کوہضم نہیں کر سکتا۔ اس لئے کہ سماج کا تانا بانا طاقتور کی سہولت کے لئے بنا گیا ہے۔ اس سماج کے سارے ضابطے طاقتور کے خدمت گزار ہیں۔ یہاں جو اختیار، رسوخ، طاقت، سٹیٹس، سے عاری ہو وہ روندا جاتا ہے۔ سچ کڑوا ہوتا ہے۔ سچ بولنا مشکل ہے۔ سچ بولنے والے سولی پر چڑھتے ہیں۔ سچ بولنے والے مشکلات سے گزرتے ہیں۔ انہیں سچ بولنے کی پاداش میں ننگے پائوں صحرا عبور کرنے پڑتے ہیں۔ سچ اگر طاقتور کے خلاف بولا جائے تو سمجھو کہ سچ بولنے والے نے اپنے لئے خود مشکل راستوں کا انتخاب کیا ہے لیکن یہی اس کے اپنے صاحب کردار ہونے کی دلیل ہے۔ اس نے اہل اختیار و اہل اقتدار کے ساتھ جھوٹ سے لتھڑی ہوئی مفاہمت اور سمجھوتے سے انکار کر کے اپنے سچ پر ڈٹ جانے کو ترجیح دی اور اب صورت حال اس کے لئے سنگین سے سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ ایک طرف کورونا وائرس کے ہنگام میں، بہت سی خبریں میڈیا کی توجہ سے محروم رہ جاتی ہیں اور دوسری طرف کورونا وائرس کی آڑ میں بہت کچھ ایسا بھی ہو رہا ہے جو پراسرار ہے۔ جس کی خبر میڈیا پر نہیں آتی۔
کورونا وائرس کے پھیلائو کے حوالے سے پنجاب میں حفاظتی تدابیر۔ مارچ کے وسط میں شروع کی گئیں اور ان حفاظتی تدابیر کی آڑ میں کاشانہ کو تمام یتیم بچیوں سے خالی کروا دیا گیا۔ نہ صرف کاشنہ بلکہ، عافیت، جہاں بزرگ لاوارث شہری رہتے ہے وہ بھی خالی ہے۔ دارالامان جہاں بے آسرا عورتیں، جن پر کسی نہ کسی حوالے سے پولیس کیس ہوتا ہے۔ وہ بھی اس وقت خالی ہے۔ چند روز ہوئے ایک خاتون رپورٹر دوست سے میں نے ذکر کیا تو مجھے حیرت ہوئی کہ ان کے علم میں بھی نہ تھا حالانکہ تمام اخبارات کی لیڈی رپورٹرز دارالامان کور کرتی ہیں۔ وہاں سے پریس ریلیزیں آنا بھی ایک معمول ہے۔ بہرحال انہوں نے اگلے روز پوچھا تو بتایا گیا کہ صرف 12 خواتین ہیں۔ وہ خاتون رپورٹر بھی میری طرح حیران تھیں کہ آخر دارالامان والی عورتیں کہاں چلی گئیں ہیں جبکہ یہاں آتی ہی وہ عورتیں جن پر پولیس کیس ہو۔ انہیں اپنی جان کا خطرہ ہو۔ ایسی عورتوں کو کسی کے علم میں لائے بغیر کہاں بھیج دیا گیا۔؟
اسی طرح کاشانہمیں رہنے والی یتیم بچیاں ہیں جن کی عمریں 5 سے 18 سال کے درمیان ہیں۔ غریب سے غریب والدین بھی اپنی اولاد کو سینے سے لگا کر رکھتے ہیں۔ سرکاری یتیم خانے میں پرورش پانے والی یہ لڑکیاں عموماً لاوارث ہوتی ہیں۔ یہ بھی ہوتا ہے، ماں ہے تو باپ نہیں۔ باپ مر گیا تو ماں نے دوسری شادی کر کے ان سے لاتعلقی اختیار کر لی۔ ایسی لاوارث بچیاں ہی سرکار کے یتیم خانے میں پناہ لئے ہوئے تھیں بعض کیس ایسے بھی تھے کہ ماں گھروں میں کام کرتی ہے مگر غربت اتنی زیادہ ہے کہ بچوں کو کھلا پلا نہیں سکتی۔ اس صورت میں بھی وہ اپنی اولاد یتیم خانے میں پرورش کے لئے بھیج دیتی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ 14مارچ 2020ء کو کورونا وائرس کی آڑ میں یتیم بچیوں سے کاشانہ خالی کرا لیا گیا۔ یہ سارا عمل پراسرار انداز میں ہوا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ یہ یقینا انسانی حقوق کا معاملہ ہے۔ اس پر بہت سنگین سوال اٹھتے ہیں کہ بچیاں کہاں ہیں۔؟ جو پہلے ہی لاوارث تھیں۔ انہیں کس کے رحم و کرم پر اور کہاں چھوڑا گیا ہے۔؟ ان کے کمروں سے سامان لے جانے والے مسلح افراد کون ہیں؟ جو رات کے اندھیرے میں کاشانہ ویلفیئر کا سامان وہاں سے کہیں اور منتقل کرتے رہے ہیں۔
ایک طرف غریب کے نام پر امداد اکٹھی کی جا رہی ہے۔ غریب کے دکھ درد دور کرنے کے دعوے کئے جا رہے ہیں اور دوسری طرف سرکار کی سرپرستی میں یتیم لڑکیوں کے ساتھ ہونے والا وہ ظلم جس پر افشاں لطیف مسلسل آواز اٹھا رہی ہیں، اس پر بھی انصاف نہیں ملا اور اب تازہ ترین واقعہ کہ آخر یتیم لڑکیاں کہاں بھیج دی گئیں؟ انہیں وہاں رکھ کر بھی حفاظتی تدابیر پر عمل ہو سکتا تھا۔
کاشانہ کی سابق سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف جس نے اپنی زندگی دائو پر لگا کر یتیم لڑکیوں کے ساتھ جنسی استحصال بے نقاب کیا۔ اب وہ سچ بولنے کی پاداش میں۔ گزشتہ 16روز سے گیس اور پانی کے کنکشن کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ سرکار کے معیار بھی دہرے ہیں۔ ایک طرف کورونا وائرس کی پہلی اور بنیادی حفاظتی تدبیر کے طور پر شہر میں جگہ جگہ ہاتھ دھونے کے لئے پانی کا اہتمام کیا گیا ہے کہیں ٹینکر کھڑے کئے ہیں تو کہیں چھوٹے حمام رکھے ہیں کہ ہاتھ دھو کر وبا سے محفوظ رہا جائے۔ اور دوسری طرف سرکار کے حکم نامے پر اسلامی جمہوریہ پاکستان کی معزز شہری محترمہ افشاں لطیف کے گھر کے پانی کے کنکشن کو کاٹ دیا گیا ہے۔ پانی کے ساتھ ساتھ گیس کا کنکشن بھی منقطع کر دیا گیا ہے اور اس پر دھمکی دی گئی کہ اگر آپ اب بھی مفاہمت اور سمجھوتا نہیں کریں گی تو پھر آپ کے گھر کی بجلی بھی کاٹ دی جائے گی۔
چند گھنٹے گیس اور پانی بند ہو جائے تو زندگی کیسے رک جاتی ہے۔ ایک افشاں لطیف ہے جس کے گھر میں گزشتہ 16، 17روز سے کربلا کا منظر ہے۔ گھر میں چھوٹے بچے ہے جو سوال کرتے ہیں کہ سارے شہر میں گیس بجلی پانی آ رہا ہے تو ہمارے گھر کا آدھے مہینے سے بند کیوں ہے؟ سیکرٹری ویلفیئر سے جب افشاں لطیف نے درخواست کی کہ میرے گھر کے کنکشن بحال کئے جائیں تو انہوں نے راز داری کے انداز میں تنبیہ کی آپ کا پانی اور گیس کنکشن پنجاب کی انتہائی اہم حکومتی شخصیت کے حکم پر کاٹا گیا ہے اور ان کا یہ حکم لے کر ایک صوبائی وزیر ان کے پاس آئے تھے۔ ماشاء اللہ عوام کی آسودگی اور سہولت کے لئے حکومتی شخصیات ہمہ وقت مصروف ہیں۔
سچ آکھاں تے بھانبھڑ مچ دا اے