نئے منظر کھلنے کو ہیں
عین موسم بہار میں حکومت کا سامنا موسم خزاں سے ہے۔ اس منظر کی خزاں رسیدگی کا اندازہ لگائیے، جب سینٹ کے الیکشن میں سب کی مرکز نگاہ سیٹ پر حکومت کے خلاف اپوزیشن اتحاد کے یوسف رضا گیلانی کامیاب ہوئے اور وزیراعظم کے منتخب کردہ امیدوار حفیظ شیخ یہ سیٹ ہار گئے حالانکہ حکومت کے نو رتن اعتماد سے کہہ رہے تھے کہ حفیظ شیخ کا جیتنا مسئلہ نہیں کیونکہ عمران خان جس کو بھی ٹکٹ دیں ووٹ عمران خان کو ہی پڑتے ہیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ عمران خان کو ووٹ نہیں پڑے اور حفیظ شیخ ہار گئے۔ اس دھچکے کے بعد وزیراعظم نے ازخود ایوان سے اعتماد کے ووٹ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس بہادری کو ضرور سراہنا چاہیے، کاش دوران اقتدار عوام سے بھی، اعتماد کا ووٹ لینے، کوئی طریقہ کار آئین میں درج ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام ہر اس کھیل سے باہر ہوتے ہیں جو اقتدار، طاقت اور اختیار کے گرد گھومتا ہے۔ سیاست، اختیار اور اقتدار کی کہانی میں عوام کا کردار اس وقت اہمیت اختیار کرتا ہے جب ملک میں جنرل الیکشن ہوتے اور سیاست دانوں کی تقریروں میں عوامی مسائل کا ذکر ہونے لگتا ہے وہ چاہتے نہ چاہتے عوام کی عدالت میں حاضری دیتے ہیں یہ مگرسینٹ کے الیکشن تھے جسے ایوان بالا بھی کہا جاتا ہے یعنی اعلی اور اونچے افراد کا ایوان۔ یا پھر اونچا ایوان۔ ا یسے کسی ایوان سے عوام کا کیا لینا دیناکہاں مہنگائی کا رونا روتے عوام اور کہاں اس اونچے ایوان کے الیکشن جس کی ایک ایک سیٹ کی بولیاں کروڑوں میں لگتی ہیں اور اربوں روپے چند سیٹوں کی نذر ہوجاتے ہیں، جس کی ایک سیٹ حاصل کرنے کے لیے بریف کیسوں میں پیسے بھر کر مخالف جماعتوں کے اراکین کو رام کیا جاتا ہے جبکہ عوام کا حال تو یہ ہے کہ ضرورت کی چیز کریانہ سٹور سے خریدنے جائیں تو جیب میں پڑے ہوئے پیسے کم پڑ جاتے ہیں۔ وہ خفت اور خجالت کے مارے اپنے ہونے پہ شرمندہ۔۔ جائیں تو کہاں جائیں؟
اربوں روپے لگا کر کیوں سینٹ کی سیٹیں حاصل کی جاتی ہیں؟ سینٹر بننے والے عوام کی کون سی خدمت کرتے ہیں؟ سینٹ کے ایک سیشن پر قومی خزانے سے کروڑوں روپے خرچ ہو جاتے ہیں اس کا عوام کو کیا فائدہ ہوتا ہے؟ یہ تمام سوالات لوگوں کے ذہنوں میں ضرور پیدا ہوتے ہیں پاکستان میں اقتدار کا تاج محل اصولوں اور ضوابط کی قبر پر تعمیر کیا جاتا ہے۔ سیاست اخلاقیات، اقدار اصول اور ضمیر سے عاری، اقتدار کے حصول کی جنگ ہے اور اس جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔ سینٹ الیکشن کی مرکز نگاہ سے پر جیتنے والے یوسف رضا گیلانی حکومت کے خلاف بننے والے اتحاد کے مشترکہ امیدوار تھے اس لئے ان کی جیت خوشی میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں۔ زرداری صاحب شہباز شریف کو مبارکباد دیتے ہیں اور ان کا حال احوال پوچھتے ہیں اور انہیں کہتے ہیں کہ وہ جلد جیل سے باہر آئیں گے۔ یہ وہی شہباز شریف ہیں۔ جو پچھلے موسموں میں آصف علی زرداری کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے پرجوش اور بلندوبانگ دعوے کرتے ہوئے ہوئے مائیک گرا دیا کرتے تھے۔ یہ وہی یوسف رضا گیلانی ہیں جن کیخلاف نااہلی کیس میں نواز شریف کالا کوٹ پہن کر عدالت میں گئے تھے اور ان کی نااہلی پر نون لیگ نے مٹھائیاں تقسیم کی تھیں۔ ان کی کرپشن کے قصے سب کی زبانوں پر ہوتے تھے اور آج ا ن کی جیت کی خوشی میں ن لیگ میں مٹھائیاں تقسیم کی جارہی ہیں۔
سیاستدان تضاد اور مفادات کا کھیل ہے اور اس کھیل میں وہی سکندر ہے جسے حالات کو اپنے مفاد کے حق میں موڑنے کا ہنر آگیا۔ یہ وہ ہنر ہے جس میں مفاد کے لیے سیاسی دشمنوں کو گلے لگایا جاتا ہے۔ یہ وہ شہر ہے جہاں ہم مفاہمت کا سکہ چلتا ہے خالص پاکستانی مارکہ سیاست کے اس ہنر میں چوہدری برادران اور آصف علی زرداری سکہ بند سیاستدان ہیں۔ اگرچہ بڑے چوہدری صاحب بوجوہ نا سازیٔ طبع عملی سیاست میں اس طرح ایکٹو تو نہیں مگر ان کی مفاہمت بھری سیاسی دانش چھوٹے چوہدری صاحب کے تمام سیاسی فیصلوں میں جھلکتی ہے جس میں وہ اپنی سیا سی جماعت کے کم عددی حیثیت کے باوجود ہر سیاسی بحران میں win win سیچوایشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس بار تو ان کی سیاسی دانش نے پنجاب میں حیرت انگیز کمال دکھایا کہ وہ سینٹ میں بھی پنجاب سے ایک سیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے جبکہ آصف علی زرداری تو ہیں ہی مفاہمت کی سیاست کے بادشاہ جو اپنی سیاسی کارگری سے گیلانی کو میدان میں لاکر کھیل کا پانسہ پلٹ چکے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کی یوسف رضا گیلانی کی شخصیت پرایک طرف تو نااہلی کرپشن اور نیکلس چوری جیسے الزامات کی گرد تھی مگر دوسری طرف ان کی شخصیت میں جنوبی پنجاب کے خاص مزاج کا رنگ ہے کہ جھک کے ملتے ہیں، دوستوں کے دوست ہیں اور سب سے بنا کر رکھتے ہیں، پھر پنجاب سندھ اور بلوچستان تک میں رشتہ داریوں کے سلسلے پھیلے ہوئے ہیں یہاں تک حالیہ مقابلے میں ان کے حریف حفیظ شیخ سے بھی انکی رشتہ داری ہے۔ نااہلی اور کرپشن کے الزامات کے باوجود یوسف رضاگیلانی کی جیت ثابت کرتی ہے کہ عملی سیاست کے میدان میں کرپشن سے پاک سیاست کا خاتمہ محض ایک نعرہ ہے۔ سیاست کا منظرنامہ بدل چکا ہے اور آنے والے دنوں میں وزیراعظم عمران خان ایوان سے اعتماد کا ووٹ لیں گے۔ آنے والے دنوں میں دیکھیے کے حالات کا رخ کس جانب مڑتا ہوتا ہے۔ سیاست کے لانگ پلے میں بہت سے نئے سنسنی خیز منظر کھلنے کو ہیں۔