موت زندگی کی سب سے بڑی محافظ
"انسانیت موت کے دروازے پر"مولانا ابوالکلام آزاد کی اس لازوال کتاب سے میری پہلی ملاقات اوائل عمری میں ہوئی جب میں سکول کی طالبہ تھی۔ کتاب میرے والد صاحب کی لائبریری میں موجود تھی۔ لائبریری کیا تھی کالے رنگ کا ایک بڑا سا صندوق تھا جس میں والد صاحب کی پسندیدہ کتابیں بھری ہوتیں۔ زندگی چونکہ شہر درشہر اور مکان در مکان سفر میں رہتی۔ تو کتابوں کا مستقل پتہ یہی کالا صندوق ہوتا۔ ہاں کسی نئے گھر میں یہ کتابیں جگہ ملنے پر الماری کے کسی شیلف میں عارضی طور پر منتقل ہو جاتیں۔ مگر شناختی کارڈ پر مستقل پتہ کالا صندوق ہی درج رہتا۔
تو یہ کتاب میں نے اسی صندوق لائبریری سے اٹھائی تھی۔ آٹھویں جماعت کی کم عمر طالبہ کے لئے۔ اس کتاب کا عنوان اور اس کے اندر موجود مواد اس کی زندگی کے تجربات اور سوچ کے زاویوں سے بہت بڑا تھا۔ انسانیت موت کے دروازے پر، عنوان پڑھ کر ایسا لگا جیسے میں اپنی عمر سے کسی بڑے دہشت ناک تجربے سے گزر گئی ہوں۔ کتاب کی ورق گردانی کی۔ کچھ مضمون نظر سے گزارے۔ تو ایسا لگا جیسے میں نے اس کتاب کے اوراق میں سے وہ تاریک ہیولا دیکھ لیا ہے جو ہر انسان کی گھات میں اور جسے موت کہتے ہیں۔
میں جو بچپن سے ہی کتابی کیڑا تھی اور پڑھنا میرے لئے پرلطف تجربہ ہوتا تھا۔ مگر اس کتاب کی ورق گردانی سے میرے اندر ایک خوف اتر گیا۔ سچی بات ہے، مجھے ڈر لگا۔ کہ میں نے موت کے اس تاریک ہیولے کو دیکھ لیا ہے۔ جو بالآخر ہر انسان کو اپنے ساتھ عدم کی وادی میں لے جاتا ہے۔ پڑھا تو اس کتاب کو بہت بعد میں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کوپڑھ کر آپ کئی روز تک اس کے اندر سے نہیں نکلتے۔ دنیا کے نامور، اکابر اور مشاہیر کو زندگی کے آخری لمحات میں موت سے ملاقات کرتے دیکھ کر، عارضی زندگی بارے میں بہت سے زاویے اور نظریات بدل جاتے ہیں۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے الہلال رسالے میں، اس نام سے ایک مستقل سلسلہ شروع کیا تھا۔ جسے بعد میں ایک کتاب کی صورت یکجا کر دیا گیا۔ سب سے پہلا مضمون حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں ہے۔ موت کے حوالے سے حضرت علیؓ کے اقوال ویسے بھی زبان زدعام رہتے ہیں۔ فرماتے ہیں موت ایک بے خبر ساتھی ہے۔ پھر فرمایا موت سے بڑھ کر سچی اور امید سے بڑھ کر جھوٹی کوئی چیز نہیں۔ ایک اور جگہ فرمایا کہ انسان سو رہے ہیں موت آئے گی تو نیند سے بیدار ہوں گے۔ کتاب کے آغاز میں مولانا ابوالکلام لکھتے ہیں کہ "ایک مرتبہ ہمیں خیال آیا کہ اگر دنیا کے اکابر و مشاہیر کے صرف وہ حالات جمع کئے جائیں، جن کا تعلق ان کی زندگی کی آخری گھڑیوں سے ہے تو یہ اخلاق، حکمت کا نہایت عبرت انگیز مجموعہ ہو گیا۔ یقینا اس کتاب کو پڑھنا عبرت انگیز ہے اور یہ بات بھی ہے کہ اسے پڑھ کر ڈیپریشن سا ہونے لگتا ہے کیونکہ ہم موت کا تذکرہ زندگی کی ایک حقیقت کے طور پر کبھی نہیں کرتے۔ ہم اندر سے ڈرے ہوئے اور زندگی خواہش میں مبتلا سوشل میڈیا پر تعزیتی پوسٹیں، موت کی اطلاعیں دینا بھی اب ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔ پھر ان تعزیتی پوسٹوں پر کمنٹس کے خانے میں انا للہ و انا الیہ راجعون اور دعائے مغفرت بھی ہم کاپی پیسٹ کر کے لکھتے چلے جاتے ہیں مگر زندگی کہ اس سب سے بڑی حقیقت کو ہم خود اپنی ذات کے تناظر میں دیکھنے کا اور سمجھنے کا حوصلہ نہیں رکھتے۔ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ موت ایک وقفہ ہے۔ ایک نئی اور ابدی زندگی کا۔ اس جہان سے جسم اوجھل ہو جاتا ہے مگر روحیں زندہ رہتی ہیں۔ سترہویں صدی کے انگریزی شاعر جان ڈن نے موت کو مخاطب کرتے ہوئے ایک نظم کہی جس کا عنوان ہے۔ Death be not proudجس کی آخری دو لائنیں وہی ہیں جو ایک مسلمان کا ایمان ہے۔ یعنی موت کے بعد ابدی زندگی کا تصور۔
one short sleep past' we wake eternally and death shall be no more death thou shalt die.
نیند کے مختصر سے وقفے کے بعد ہم ہمیشہ کے لئے جاگ جائیں گے پر موت کا وجود کہیں نہیں ہو گا۔ ہاں موت کو موت آ جائے گی۔ میر کے مشہور شعر میں بھی اسی خیال کی بازگشت ہے:
مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہےیعنی آگے چلیں گے دم لے کرغالب نے موت کے بارے میں جس طرح اظہار کیا اس سے غالب کی ناامیدی اور مایوسی صاف جھلکتی ہے۔ زندگی پر موت کے سائے کو غالب مرگ ناگہانی جیسی بلا کہتا ہے:
ہو چکیں غالب بلائیں سب تمام
ایک مرگ ناگہانی اور ہے
احمد ندیم قاسمی کی شاعری ہر حال میں امید اور جینے کا پیغام دیتی ہے۔ موت کو اس بڑے شاعر نے کسی منفرد انداز میں دیکھا ہے:
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جائوں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا
وہ موت کو زندگی ہی کا تسلسل سمجھتے تھے۔ سو مرنے کے بعد بھی تخلیق کا ہنر جاری رہنے کی خبر یوں دیتے ہیں:
میں مر بھی جائوں تو تخلیق سے نہ باز آئوں
بنیں گے نت نئے خاکے مرے غبار سے بھی
سنا ہے کہ یہی شعر ان کی آرام گاہ کے کتبے پر تحریر ہے۔ غالب ہی کا ایک مشہور شعر ہے کہ:
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر ہی مرا زرد تھا
جہاں وبا کے دنوں میں یہ شعر اپنی پوری معنویت کے ساتھ ہمارے سامنے ہے۔ وہیں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا یہ فرمان بے یقین اور خوف سے بھرے دلوں کو سہارا دیتا ہے کہ موت زندگی کی سب سے بڑی محافظ ہے۔