Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Sadia Qureshi
  3. It Is Time To End In Afghanistan

It Is Time To End In Afghanistan

"It is time to end in Afghanistan"

شمالی افغانستان کے شہر مزار شریف سے چند منٹ کی ڈرائیو پر ضلع بلخ میں غیر ملکی نیوز ایجنسی کی ٹیم کو افغان طالبان حاجی حکمت نے سایہ دار درخت کے نیچے بچھے ہوئے سرخ افغانی قالین پر بٹھایا اور تواضع کے لیے قہوے کی پیالیاں پیش کیں۔

بیس برس کی مسلسل خانہ جنگی کے بعد جنگ سے ادھڑا ہوا افغانستان اور ناقابل شکست طالبان اس وقت پوری دنیا کے میڈیا کا محور ہیں کیونکہ امریکہ اعلان کر چکا ہے کہ وہ نائن الیون کی بیسویں برسی کہیں یا سالگرہ، پر افغانستان سے اپنے فوجی دستوں کا انخلا مکمل کرلے گا۔ افغانستان افغانیوں کے حوالے کردیا جائے گا۔ دنیا بھر کے وار ایکسپرٹ سپر پاور کی اس شکست پر حیران ہیں۔ اس سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ جنگی تاریخ کے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس سپر پاور کے مقابل فتح کا جشن منانے والے بے سروسامان طالبان ہیں۔

امریکی فوجی دستوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں بڑی تبدیلی آ رہی ہے۔ یہ تبدیلی اس خطے کی سیاست کو متاثر کرے گی۔ اس موقع پر دنیا بھر کا میڈیا افغان طالبان کے خیالات جاننا چاہتا ہے۔ اسی مقصد کے لیے غیر ملکی نیوز چینل کا نمائندہ حاجی حکمت سے ملاقات کرنے پہنچتا ہے۔

حاجی حکمت ایک تجربہ کار پر عزم افغان ہے جو 1990ء سے طالبان کے ہمراہ جہاد میں شریک ہے۔ حاجی حکمت اور نیوز ایجنسی کے نمائندے کے درمیان بات چیت مترجم کے ذریعے ہوتی ہے۔ نمائندہ انگریزی میں سوال کرتا ہے تو حاجی حکمت فارسی میں جواب دیتا ہے۔ شمالی افغانستان کے بیشتر علاقوں میں فارسی زبان بولی جاتی ہے۔ نیوز ایجنسی کا نمائندہ سوال کرتا ہے کہ دنیا طالبان کو افغانستان کے باغی گروپ کی صورت میں دیکھتی ہے، یہ بات کس حد تک درست ہے۔ حاجی حکمت قہوے کی چسکی لیتے ہوئے بڑی سہولت سے جواب دیتا ہے کہ ہم باغی نہیں بلکہ فاتح ہیں۔ امریکہ شکست کھا چکا ہے اور اب ہماری سرزمین چھوڑنے پر مجبور ہے۔ غیر ملکی نمائندہ سوال کرتا ہے کہ آپ امن قائم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ حاجی حکمت جواب دیتا ہے۔ ہم امن کے لیے بھی تیار ہیں اور جہاد کے لیے بھی تیار ہیں۔ جہاد ہماری عبادت ہے۔ ہم اس میں تھکتے نہیں بلکہ خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اس کا یہ جملہ بہادر افغان قوم کی نفسیات کو بیان کرتا ہے۔ ان کے ایمان کی جھلک اس میں واضح دکھائی دیتی ہے۔ صدیوں سے افغانستان نے غیر ملکی حملہ آوروں کو اپنی سرزمین پر شکست دی اور دنیا سے اپنی بہادری کی تعریف ان الفاظ میں سمیٹی۔

Graveyard of empires Afghanistan is.

امریکی فوجی دستوں کی افغانستان میں موجودگی کے باوجود طالبان افغانستان کے کئی حصوں پر اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے۔۔ افغانستان میں صورت حال تیزی سے بدل رہی ہے۔ بیس برس پہلے افغان طالبان بھی اپنی سوچ میں کچھ لچک پیدا کر رہے ہیں۔ اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ بیس برس پہلے کے طالبان خواتین کی تعلیم کے حوالے سے ہارڈ لائنز تھے۔ اس دور میں انہوں نے بچیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کردی تھی اور تعلیم یافتہ افغان خواتین پر کام کرنے کی پابندی تھی۔

دنیا طالبان کو اس حوالے سے زیادہ جانتی ہے کہ وہ عورتوں کی تعلیم پر پابندی لگانے والے ہیں۔ اب مگر صورت حال بدل رہی ہے۔ افغان طالبان بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے کشادہ نظری کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ غیر ملکی میڈیا اس ایشو پر خصوصی کھوج لگانا چاہتا ہے کہ آیا آنے والے دور میں جب افغانستان افغان طالبان کے زیر اثر آئے گا تو کیا غیر ملکی فنڈز سے کھولے ہوئے بچیوں کے سکول ڈھا دیئے جائیں گے؟ اس طرح کے خدشات کا جواب ایک افغان طالبان کمانڈر یوں دیتا ہے کہ ہم طالبان لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں ہیں۔ شریعت کی پابندی کرتے ہوئے لڑکیاں تعلیم حاصل کرسکتی ہیں۔ اسی طرح اگر وہ ملازمت کرنا چاہیں تو انہیں ملازمت کی بھی اجازت ہوگی۔

وقت کے ساتھ اس ایشو پر کافی لچک پیدا ہو چکی ہے۔ غیر ملکی نیوز ایجنسی کا نمائندہ لڑکیوں کے ایک سکول کا دورہ کرتا ہے۔ اس سکول کا مالک ایک پشتو بولنے والا افغانی ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم پر طالبان اپنے موقف میں بہت لچک پیدا کر چکے ہیں۔ اس کے سکول میں طالبان کمانڈر، طالبان مجاہدین کی بیٹیاں، بھتیجیاں اور بہنیں زیر تعلیم ہیں اورانہیں علم کے حصول کے لیے اپنے گھر والوں کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔ افغانستان میں بدلتے ہوئے اس منظرنامے کو پوری دنیا دلچسپی اور حیرت اور تشویش کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ افغانستان میں تبدیلی پورے خطے کو متاثر کریگی۔ پاک افغان اورانڈیا افغان تعلقات کے لائحہ عمل نئے سرے سے ترتیب پائیں گے۔

دنیا کی نظریں بیس بلکہ چالیس برس کی مسلسل جنگ سے ادھڑے ہوئے افغانستان پر جمی ہیں۔ 11 ستمبر 2021ء تک امریکی فوجی دستوں کا انخلا مکمل ہو جائے گا مگر حتمی طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ امریکہ مکمل طور پر افغانستان سے نکل جائے گا۔ کم از کم مجھے ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ بیس سال میں ٹریلین ڈالر امریکہ نے افغانستان میں جنگ اور پھر نام نہاد نیشن بلڈنگ پر جھونکے ہیں۔ اگرچہ جوبائیڈن کہہ چکے ہیں:

"It is time to end in Afghanistan"

امریکہ کے سامنے اب نئے حریف اور نئے ایشوز موجود ہیں۔ دنیا میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو لگامیں ڈالنا اس وقت امریکہ کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ نئے محاذوں کے باوجود امریکہ ستمبر میں اپنی فوجوں کے انخلا کے بعد 650 امریکی دستے افغانستان میں ہی چھوڑنا چاہتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ اعلان ایک فیس سیونگ کی ضرورت کے تحت کیا گیا ہے۔

افغانستان ایشو ایک ہزار داستان کا نام ہے۔ ہر نئے دن کے ساتھ تیزی سے تبدیلی آ رہی ہے۔ پچاس فیصد سے زائدرقبے پر طالبان کنٹرول حاصل کر چکے ہیں اور وہ اس مقصد میں تیزی سے کامیابی حاصل کر رہے ہیں۔ دنیا بے سروسامان طالبان کے بڑھتے اور مضبوط ہوتے قدموں اور سپر پاور امریکہ کے انخلا کو ناقابل یقین حیرت سے دیکھ رہی ہے۔

Check Also

Maaf Kijye Ga Sab Acha To Nahi

By Haider Javed Syed