ہم سب ایک طرح سے ڈاکٹر فاسٹس ہیں
صحرائے چولستان میں سبز نگینے کی طرح آباد، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا بغداد کیمپس، انگلش ڈیپارٹمنٹ کا لیکچر روم، دسمبر کی دھند آلود دوپہر میں اور ڈرامے کی کلاس میں گونجتی ہوئی، پروفیسر ایوب ججہ صاحب کی گھمبیر آواز۔ وہ ہمیں کرسٹوفر مارلو کا لازوال ڈرامہ ڈاکٹر فاسٹس پڑھا رہے ہیں۔ اتنے برسوں کی گرد، اتار کر، یاد کا یہ ٹکڑا اس طرح سے میرے سامنے مجسم تھا جیسے یہ کل کی بات ہو اور پھر اس کے ساتھ جڑی بہت سی خوب صورت یادیں، ماضی کی دھند سے نکل کر میرے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنے لگیں۔
الزبیتھین دور کا یہ عظیم لکھاری کرسٹوفر مارلو، 30مئی 1593کو اپنی لازوال تخلیقات دنیا والوں کے حوالے کر کے عدم کو روانہ ہوا۔ یہ تفصیل مجھے کہاں یاد تھی۔ بس انگریزی ادب کے حوالے سے کچھ ویب سائٹس انٹرنیٹ پر سبسکرائب کی ہوئی ہیں، جن میں آنے والے آرٹیکل زیر مطالعہ رہتے ہیں۔ بھلا ہوا ایسے ہی ایک مضمون کا جہاں سے مجھے پتہ چلا کہ کرسٹوفر مارلو کا یوم وفات 30مئی ہے۔
مارلو کا لازوال ڈرامہ ڈاکٹر فاسٹس اپنے موضوع اور اس کی ٹریٹمنٹ کے اعتبار سے میرا پسندیدہ ہے۔ عمر کا ایک دور ایسا ہوتا ہے، جب انسان خواہشوں اور خوابوں کے سر پرسوار دنیا کو ہرقیمت پر فتح کرنا چاہتا ہے۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ لامحدود خواہشوں کی تکمیل کے لیے بعض اوقات انسان کو اپنی روح، بھی گروی رکھنا پڑ جاتی ہے جو سراسر گھاٹے کا سودا ہے۔ اس ڈرامے کا آسان اور مختصر ورژن کالج کی سطح پر طالب علم کو پڑھانا چاہیے تا کہ انہیں اندازہ ہو کہ ambitiousہونا اس وقت خسارے میں ڈھل جاتا ہے جب آپ اس کی کوئی حد مقرر نہ کریں:
ڈاکٹر فاسٹس کی لائنیں آج بھی پڑھیں تو پروفیسر ایوب ججہ کی گھمبیر آواز کانوں سے ٹکراتی ہے جنہوں نے اس ڈرامے کو کمال انداز میں ہمیں پڑھایا تھا۔
لامحدود خواہشات کی غلامی میں اپنی روح کو فروخت کر دینے والے ڈاکٹر فاسٹس کا المناک انجام اس وقت تو شعور اور فہم کی سطح پر اس طرح پیوست نہ ہوا مگر بعد ازاں جب طالب علمی کے دور کے بعد عملی زندگی کا آغاز کیا تو یہ کھلا کہ زندگی کیٹس کی نظموں کی نرماہٹ سے بہت دور ایک اور ہی سفر ہے۔ یہاں خواہشوں اور خوابوں کی قیمت ہر حال میں چلانی پڑتی ہے مگر یاد رہے کہ خواہش کے رستے پر توازن کے دائرے میں رہنا ہی اصل کامیابی ہے۔ ڈاکٹر فاسٹس ایک جرمن سکالر ہے جو مذہب، قانون، میڈیسن، فلسفہ سمیت دنیا کے کئی علوم کا ماہر ہے مگر اس کے باوجود وہ مطمئن نہیں۔ وہ اور سے اور کی خواہش میں مبتلا ہے وہ Human Limitationsسے نالاں اور more than a manبننے کی خواہش میں مبتلا، عقل و خرد کھو چکا ہے۔ وہ ایک ماورائی طاقت بننا چاہتا ہے۔ اسے یقین ہو چلا ہے وہ ایک ماورائی طاقت بن جائے گا۔ اسی خواہش کی تکمیل میں وہ ایک شیطان، لوسی فر کے ساتھ معاہدہ سائن کرتا ہے اور شیطانی طاقتوں کو اپنی روح بیچ کر چوبیس سال کے لیے ماورائی طاقت حاصل کر لیتا ہے۔ طاقت کا یہ خمار اس کے اندر سپر ایگو کو جنم دیتا ہے۔ اس کے اندر سچ جھوٹ، اچھے برے، صحیح غلط کی تمیز یکسر ختم ہو جاتی ہے۔
اس دوران وقتاً فوقتاً نیکی کا فرشتہ آ کر اسے تنبیہ کر لیتا ہے کہ وہ واپس آ جائے۔ جو کچھ وہ کر رہا ہے وہ بدترین انجام سے دوچار ہو گا۔ عین اس وقت بدی کا فرشتہ نمودار ہو کر فاسٹس کو طاقت اور شہرت کے مزید سہانے خواب دکھاتا ہے۔ اسے یقین دلاتا ہے کہ اس کی طاقت اور شہرت کا سورج لازوال ہے۔
24سال کا آخری دن تیزی سے گزر رہا ہے۔ شیطانی طاقتوں کو اپنی روح بیچنے والا معاہدہ ختم ہونے والا ہے۔ وہ شدت سے آرزو مند ہے کہ گھڑی کی سوئیاں رک جائیں۔ اس کی طاقت کو کبھی زوال نہ آئے۔ ڈرامے کا آخری حصہ اینٹی کلائمکس کا شاہکار شدت جذبات سے گندھا ہوا ہے۔ فاسٹس سوچتا ہے کاش، گھڑی کی سوئیاں تھم جائیں، چاند، سورج کی گردش ٹھہر جائے۔ زمین کی گردش رک جائے لیکن فطرت اپنے قوانین کہاں بدلتی ہے۔ روح کو گروی رکھ کر طاقت دولت اور شہرت حاصل کرنے کا دورانیہ بالآخر ختم ہو جاتا ہے۔ ابدی المناکی کا لمحہ آن پہنچتا ہے۔ ایک لمحے کی تاخیر کے بغیر ڈاکٹر فاسٹس اپنے المناک انجام کو پہنچ جاتا ہے۔
زمانہ طالب علمی میں اس ڈرامے نے بہت انسپائر کیا مگر اصل حقیقتیں بعد میں سمجھ آئیں جب زندگی کے حقیقی کرداروں کو ڈاکٹر فاسٹس کے روپ میں دیکھا۔ کوئی اپنی لامحدود خواہشوں کا اسیر، کوئی حکومت اور طاقت کا تمنائی، کوئی دولت کی دیوی کے چرنوں میں اپنی روح گروی رکھتا ہوا، کوئی زیادہ شہرت کی خواہش کے غبار میں اٹا، اپنی اصل شناخت کو بے شکل کرتا ہوا، اپنے ہاتھوں اپنی عزت اور وقار کی دھجیاں اڑاتا ہوا۔ یہ سارے کردار ہمارے آس پاس موجود ہیں۔ اور تو اور اپنے اندر جھانک کر بھی دیکھیں تو چھوٹے موٹے ڈاکٹر فاسٹس کا عکس اپنے اندر بھی دکھائی دے گا۔
یہ زندگی خواہشوں کا میلہ ہے اور بہت سی خواہشوں کی تکمیل کے لیے ہمیں اپنی روح کو کہیں گروی رکھنا پڑتا ہے اور اس کے عوض خسارے اپنی جھولی میں ڈالنا پڑتے ہیں۔ طاقت اور حکومت کے نشے میں گم، نرگسیت کا شکار عقل کل کے دعویدار، حکمرانوں سے لے کر سڑک پر ہجوم میں چلتا ہوا عام آدمی بھی کسی نہ کسی سطح کا ڈاکٹر فاسٹس ہے۔ کبھی کبھی زندگی کے سمجھوتے بھی روح کو گروی رکھ کر خسارہ خریدنے جیسا عمل ہوتا ہے۔ پروین شاکر کی ایک نظم یاد آ رہی ہے اسی پر کالم ختم کرتی ہوں:
ہم سب ایک طرح سے
ڈاکٹر فاسٹس ہیں
کوئی اپنے شوق کی خاطر
اور کوئی کسی مجبوری سے بلیک میل ہو کر
اپنی روح کا سودا کر لیتا ہے
کوئی صرف آنکھیں رہہن رکھوا کر
خوابوں کی تجارت شروع کر دیتا ہے
کسی کو سارا ذہن ہی گروی رکھوانا پڑتا ہے
بس دیکھنا یہ ہے کہ سکہ رائج الوقت کیا ہے
سو زندگی کی Wall Street کا ایک جائزہ یہ کہتا ہے
کہ آجکل قوت خرید رکھنے والوں میں
عزتِ نفس بہت مقبول ہے!!