Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Sadia Qureshi/
  3. Hisse Jamaliat Par Bojh Bante Manazair

Hisse Jamaliat Par Bojh Bante Manazair

حسِ جمالیات پر بوجھ بنتے مناظر

اس موسم میں شہر کے پارکوں میں بہاراتری ہوئی ہے۔ ماہِ فروری کا اختتام ہے اور شب و روز سخت سردی کے بوجھ سے آزاد ہو کر ایک ٹھنڈے میٹے موسم سے ہم کنار ہو رہے ہیں۔ پارکوں میں بہار اتری ہوئی ہے۔ جو آنے جانے والوں کے حواسِ حمسہ کو شانت کرتی اور ان کی حسِ جمالیات کو طمانیت بخشتی ہے۔

لیکن اس حسین موسم میں جب آپ گلشن اقبال پارک جا نکلتے ہیں تو بہار کی رنگینی درختوں کی جاں بخش ہریاول اور سبز چادر کی طرح بچھے ہوئے میدانوں کے ساتھ آپ کی نگاہ آس پاس کی اوسوں، کیاریوں اور بنچوں کے قریب بکھرے ہوئے پھلوں کے چھلکوں، جوس اور چپس کے خالی پیکٹوں، ضائع کر دینے والے پلاسٹک کے عارضی برتنوں، پر بار بار پڑتی ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں سے گلشن اقبال پارک میں صبح کی سیر ایک معمول ہے۔ معمول جو گاہے، کچھ وقفوں کے تسلسل جاری رہے۔ ہم صرف ایسے ہی معمول کے قیدی بن سکتے ہیں جس میں مزاج اور موسم کے لحاظ سے وقفوں کی گنجائش موجود ہو۔

گلشن اقبال پارک، بلاشبہ، لینڈ اسکیپ کے اعتبار، شہر کا خوب صورت پارک ہے۔ دو جھیلیں، جھیلوں میں تیرتے ہوئے آبی پرندے، راج ہنس کی قطاریں، ایک سبز اور نیلے رنگ کے چمکدار پر پھیلا کر "مور ناچا کرتے" حسین موروں کے جوڑے، ذرا آگے چلیں، تو چوکڑیاں بھرتے ہرنوں کے غول کے غول۔ جن کا وسیع باڑہ ذرا سے نشیب میں بنایا گیا ہے۔ ہرنوں کے اوپر بیٹھے ہوئے کووّں کے جھنڈ، جو ان کی کھال میں پھنسے کیڑوں کو چن چن کر نکالتے اور اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ یہ منظر، قدرت کے عظیم الشان ایکوسسٹم(Ecosystem) کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا۔ پھر نشیب میں واقعہ خاکستری ہرنوں کے اس باڑے کے دائیں جانب بچوں کے لیے کھیلنے کا میدان، جس کے طرف جالیاں اور اندر نیٹ لگے ہوئے ہیں، باہر بیٹھنے کے لیے بنچ دھرے ہیں۔ جن کی حالت اب ابتر ہو چکی ہے۔ اس کے ساتھ ایک وسیع باغ جس پر روز گارڈن کا بورڈ آویزاں ہے۔ گلشن پارک کی ایک خوبی جس کی وجہ سے چھٹی کے روز یہاں آنے والوں کا رش بہت بڑھ جاتا ہے، وہ یہاں کے رنگا رنگ جھولے ہیں، کئی اقسام کے، بھوت بنگلہ ڈاجنگ کار، جمپنگ کاسل کا اہتمام الگ سے۔ سوویک اینڈ پر یہاں ایک میلے کا سماں ہوتا ہے کہ شہر کے دور دراز علاقوں سے والدین اپنے بچوں کے ساتھ اس پارک کا رخ کرتے ہیں کہ آج کل کے مہنگائی کے دور میں یہ بچوں کے پیسوں میں بہترین تفریح ہے۔ چھوٹے چھوٹے گھروں میں رہنے والے لوگ جہاں گھروں میں تازہ ہوا کا گزر نہیں ہوتا، کھلی فضا میں، درختوں کے سائے تلے پھولوں اور ہریاول کی رفاقت میں کچھ وقت گزارنے یہاں چلے آتے ہیں۔ یہ صحیح معنوں میں ایک عوامی پارک ہے۔ جہاں چھٹی کے روز بسیں اور ویگنیں بھر بھر کر لوگ آتے اور پکنک مناتے ہیں۔ سو آپ یہ سوچیں کہ یہ ایک ایسی جگہ جہاں پر بیٹھنے کے اختتام پر، عید تہوار پر سینکڑوں افراد تفریح کرنے آتے ہیں اور ایک میلہ لگتا ہے۔ یہ سینکڑوں لوگ کھاتے پیتے بھی ہیں اور پھر جہاں بھی گئے داستان چھوڑ آئے والی صورت حال کہ اپنی تفریح کی باقیات چھلکوں، ڈبوں اور گندگی کی صورت پارک میں چھوڑ آتے ہیں۔ پارک کی انتظامیہ اس میں قطعاً دلچسپی نہیں کہ پارک صاف رہے۔ اگر ان کی دلچسپی ہوتی تو وہ اس پارک میں جگہ جگہ کوڑا دان رکھواتے۔ ہم نے کئی بار انتظامیہ کے گوش گزار کیا لوگ جوس کے خالی ڈبے کیاریوں میں نہ پھینکیں تو کیا کریں کہ یہاں تا حد نظر آپ کو ڈسٹ بن دکھائی نہیں دیتی۔

جس نوعیت کا ہجوم ہر ہفتے پارک میں ہوتا ہے اس کے لیے تو یہاں خصوصی انتظامات کروائے جائیں۔ ایک طرف تو جگہ جگہ ڈسٹ بن رکھے جائیں۔ پھر صفائی کے حوالے سے لوگوں کی تربیت کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ افسوسناک امر ہے کہ لوگوں میں صفائی کا رجحان نہیں ہے۔ جو قوم گھر کا کوڑا اٹھا کر گلی میں پھینک دے اور یہ سمجھے کہ اس نے صفائی نصف ایمان کا اہتمام کر لیا ہے۔ اس سے آپ کیا امید لگائیں گے۔ ایسے لوگوں کو لکھے ہوئے بورڈ اور بینر بھی دکھائی نہیں دیتے کہ کوڑا کوڑے دان میں ڈالیں۔ اس قسم کی مخلوق کا واحد حل یہ ہے کہ پہلے تو پارک میں جگہ جگہ کوڑے دان رکھے جائیں پھر ٹیمیں بنائی جائیں تو لوگوں کو تنبیہہ کریں کہ کوڑا دان استعمال کریں اور نہ کرنے کی صورت میں جرمانہ کیا جائے۔

ویک اینڈ پر جو تفریح کرنے والوں کا ہجوم آتا ہے، ان دو دنوں میں باقاعدہ وقفے وقفے سے اعلان ہونا چاہئے کہ کھانے پینے کی باقیات کو ادھر ادھر نہ پھینکیں، ڈسٹ بن میں ڈالیں اور جو نہ ڈالے اسے جرمانہ ہو۔ آہستہ آہستہ لوگ سیکھ جائیں گے۔ اعلانوں اور جرمانوں کے یہ بھوت، فقط باتوں سے کہاں مانتے ہیں۔

گلشن کی سوئی ہوئی انتظامیہ مگر پہلے ڈسٹ بن رکھوانے کا فوری اہتمام کرے۔ بنچوں کی بھی یہاں شدید ترین کمی ہے۔ اس کمی کا سدباب بھی کریں۔ اس پارک سے باہر نکلیں تو سامنے ایک نالہ دکھائی دیتا ہے جو اقبال ٹائون کے بیچوں بیچ بہتا چلا جاتا ہے۔ تبدیلی سرکار سے پہلے اس کی ہمیشہ صفائی ہوتے دیکھی لیکن اب یہ کوڑے کے ڈھیر میں بدل چکا ہے۔ اس کے سامنے جو سڑک چلتی ہے گلشن اقبال پار ک کے بالکل سامنے تو چند فرلانگ پر یہاں پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر محمود الرشید کا بنگلہ موجود ہے۔ ہم جیسے بے اختیار لوگ مسائل میں ہمیشہ اہل اقتدار و اہل اختیار کی طرف دیکھتے ہیں۔ ہمارا خیال محمود الرشید کی طرف جانا ایک فطری بات ہے۔ گاہے حیرت ہوتی ہے کہ پہلے جہاں صفائی ستھرائی روز کا معمول تھا، صفائی کا عملہ مستعدی سے کوڑا اٹھاتا نظر آتا تھا، اب وہی جگہ کوڑے کے ڈھیر میں بدلتی جا رہی ہے اور وزیر موصوف کی حس جمالیات پر کیا روز افزوں بڑھتے گندگی کے یہ مناظر گراں نہیں گزرتے۔ اس لیے بھی کہ محمود الرشید خود اسی پارک میں صبح کی سیر کے لیے روزانہ پائے جاتے ہیں۔ اہل اختیار اگر حس جمالیات سے بھی عاری ہوں اور ان کے اندر احساس اور انسانیت کا خانہ بھی خالی ہو تو پھر ان سے ڈرنا ہی چاہیے۔

Check Also

Babo

By Sanober Nazir