Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Sadia Qureshi
  3. Google Classroom Aur Bechari Maaen

Google Classroom Aur Bechari Maaen

گوگل کلاس روم اور بیچاری مائیں!

کورونا کے آنے سے زندگی کا ڈھب بدل کر رہ گیا ہے۔ یوں لگتا ہے پرانے فریم میں ایک نئی تصویر لگا دی گئی۔ ہم تو وہی ہیں لیکن ہماری زندگی کے رنگ ڈھنگ طور اطوار بدل چکے ہیں اور میرے ایسے لوگ جن کے اندر ابھی قدیم روحوں کا بسیرا ہے ان کے لئے ہی فائیو جی ٹیکنالوجی پر منتقل ہوتی زندگی کے کچھ رنگ آسانی سے قابل قبول نہیں ہیں۔

آن لائن سماجی رابطے، تو کچھ عرصہ سے ہماری زندگی کا صفحہ بن چکے ہیں اور اس میں بہت سے پہلو ایسے ہیں کہ جن کا مجموعی طور پر فائدہ ہوا ہے جیسے آپ ایک پلیٹ فارم پر ایک ہی وقت میں ان گنت لوگوں سے رابطے کر سکتے ہیں۔ انسانوں کے باہمی تعلقات میں سوشل میڈیا سے جو ربطِ سلسلہ بنا ہے، اس نے پہلے سے قائم رشتوں کے درمیان تعلق کے نئے زاویے بھی تخلیق کئے ہیں۔ کہیں کہیں تعلقات کو سطحی کر دیا اور کہیں باہم زیادہ جوڑ بھی دیا ہے۔ خیر یہ آن لائن سماجی رابطے تو ہمیں گوارا تھے مگر اب یہ کورونا کی وجہ سے تعلیمی نظام آن لائن ہوتا جا رہا ہے اس پر مجھے چند تحفظات ہیں۔ ان دنوں جب کہ تعلیمی ادارے بند ہیں اور نہ جانے ابھی کتنے عرصے تک بند رہیں گے، بچوں کے لئے آن لائن تعلیم کی سہولت ایک طرف آسانی ہے اور دوسری طرف اس سے منسلک بہت سے آزار اور رکاوٹیں بھی ہیں۔ جن کا تذکرہ اس کالم میں مقصود ہے۔ آن لائن تعلیم اور گوگل کلاس کے انعقاد سے بچے یقینا چھٹیوں میں اپنی پڑھائی سے جڑے رہتے ہیں۔ تاہم رکاوٹوں کا تعلق ان سماجی حقائق سے ہے جن کو نظرانداز کر کے تعلیمی اداروں نے فی الفور گوگل کلاسیں شروع کر دی ہیں۔ اپنے تئیں وہ کورس مکمل کروانے پر تلے ہیں۔ اسائنمنٹس پر اسائنمنٹس اپ لوڈ ہو رہی ہیں۔ اب ذرا دوسری طرف اس معاملے کو دیکھیے۔ میں چھوٹے بچوں اور ان کی مائوں کے حوالے سے لکھ رہی ہوں۔ اس کیس میں مائوں کو گوگل کلاس ہینڈل کرنا پڑتی ہے۔ آن لائن تعلیم کے لئے گھر میں وائی فائی کی سہولت ضروری ہے۔ ماں کو ٹیکنالوجی کا استعمال آتا ہو اور پھر آپ یہ حقیقت کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں کہ ہائوس میکر کی حیثیت سے مائوں پر گھروں کے کام کا بہت بوجھ ہوتا ہے۔ پھر وہ ایک مستند اور ماہر ٹیچر کی طرح بچے کو سارے مضمون بھی نہیں پڑھا سکتی۔ اگر ایک ماں ایف اے، بی اے یا چلیے ایم اے بھی ہو تو ضروری ہے کہ اسے بچے کا ریاضی، سائنس اور انگلش۔ سارے مضامین پر عبور اور پڑھا بھی سکتی ہو۔ یاد رہے کہ بیشتر مائیں بچوں کو ٹیوشن سنٹروں اور اکیڈمیوں میں بھیجتی ہیں جو کہ آج کل کورونا وائرس کی وجہ سے بند پڑے ہیں۔ سو جو ماں پہلے ہی اپنے بچوں کو خود نہیں پڑھا رہی تھی اب اچانک سے وہ کیسے اتنی عالم فاضل اور قابل ہو سکتی کہ اسے میتھ، سائنس، انگریزی پر بھی عبور ہے۔ ٹیکنالوجی کے استعمال میں بھی ماہر ہے اس پر یہ حقیقت بھی نظر انداز کر دی گئی ہے کہ ان دنوں مائوں پر گھروں کے کام کا اضافی بوجھ ہے۔ احتیاطی تدابیر اور سماجی دوری کا زمانہ ہے اور گھریلو ملازمائوں کو چھٹی دی ہوئی ہے۔ ایسے میں وہ مائیں جن کے چھوٹے بچوں کی گوگل کلاس ہو رہی ہے یوں سمجھیں کہ بچوں کی نہیں ماں کی کلاس ہے۔ اس نے نئی اسائنمنٹس دیکھی ہیں۔ مشکل موضوعات پر سر کھپانا ہے۔ گوگل کرنا ہے۔ پھر بچے کو سمجھانا ہے۔

سکول نے تو آرام سے کہہ دیا کہ آپ ان ورک شیٹس کے پرنٹ لے کر اس پر کام کریں۔ کوئی پوچھے کہ پرنٹ کہاں سے لینے ہیں۔؟ بازار بند ہیں۔ دکانیں نہیں کھلی ہوئی۔ بیشتر مائوں کو اضافی یہ کام کرنا پڑتا ہے کہ ہاتھ سے پہلے ساری ورک شیٹس کاغذ پر اتارنی ہوتی ہیں اور پھر پڑھانا بھی خود ہے۔ سکول اگر آن لائن کلاس پڑھانے کی زحمت نہیں اٹھا رہے تو کم از کم نئے موضوعات کو سمجھانے کی ویڈیوز ٹیچر خود بنا کر بھیجیں۔ تاکہ بچوں کو بھی احساس ہو کہ ان کی ٹیچر سمجھا رہی ہیں۔ ایک ہی نقطے کو سمجھانے کے کئی طریقے ہوتے ہیں بچے اپنی ٹیچر کے انداز سے مانوس ہوتے ہیں اور خوب سمجھتے ہیں۔ یہاں یہ ہو رہا ہے کہ اسائنمنٹس کے ساتھ کوئی لنک بھیج دیا جاتا ہے حالانکہ یہ ایسے ہزاروں لنکس یوٹیوب پر موجود ہے۔ جو ماں پڑھانے سے پہلے ٹاپک گوگل کر کے سمجھتی ہے وہ انہی لنکس کو استعمال کرتی ہے۔ اس لئے سکول یہ زحمت بھی کرے تو فرق نہیں پڑتا۔ پرنٹر کے بغیر ورک شیٹس ہاتھ سے بنا کر، گوگل پر سر کھپا کر جب مائیں بچوں کو پڑھانے کے لئے بیٹھتی ہیں تو صرف ورک شیٹس کو بھرنے کا عمل ہوتا ہے۔ اس عمل کو کسی بھی طرح لرننگ پراسیس نہیں کہہ سکتے۔ چھوٹے بچوں کی بنیاد ابھی بن رہی ہوتی ہے۔ ان کے سیکھنے کا عمل زیادہ توجہ اور زیادہ وقت کا متقاضی ہوتا ہے۔ یا تو سکول یہ طے کر لیں کہ گوگل کلاس روم کا مقصد بچوں کو کچھ سکھانا بھی ہے یا صرف سرکاری دفتروں کی فائلوں کی طرح، یہاں بھی مقصد ورک شیٹس کی بھرتی ہے۔؟ بطور ماں میرا مشورہ یہ ہے کہ یہ قیمتی وقت خالی خولی بھرتیوں میں ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اپنے بچے کی ان کمزوریوں پر توجہ دیں جو سکول میں نظر انداز ہوتی ہیں۔ اس کو فوکس کر کے انہیں خود پڑھائیں۔ مثلاً اردو پڑھنے اور اردو کی لکھائی پر فوکس کر رہی ہوں اگر صرف ورک شیٹس کی بھرتیوں پر لگی رہوں تو بچے کچھ بھی نہیں سیکھے گا۔ اب الحمد اللہ صرف ایک ماہ میں میرا بیٹا اردو کہانیاں پڑھنے لگا ہے۔ تعلیم و تربیت اور صحابی رسولؓ کی 12کتابوں کی ایک سیریز بھی مکمل ہونے والی ہے۔ ذرا سی مدد سے رواں پڑھنے لگا ہے۔ اردو کی لکھائی پر یہ انگریزی سکول قطعاً توجہ نہیں دیتے۔ اب اردو کی لکھائی بھی بہتر ہو رہی ہے۔ مائیں بچوں کو پڑھاتے وقت سیکھنے کے عمل کو فوکس کریں بچہ کیا سیکھ رہا ہے۔ خالی خولی ہوم ورک مکمل کرنا مقصد ہو تو سیکھنے کا عمل نظر انداز ہو جاتا ہے۔

گوگل کلاس روم کا مسئلہ یہی ہے کہ صرف بھرتی پر کام ہو رہا ہے اور زمینی حقائق یکسر نظر انداز کر دیے گئے ہیں۔ ایک ماں جو کورونا کی حالات میں گھر کی خاکروب ہے۔ باورچن ہے، دھوبن ہے، ڈاکٹر ہے، نرس ہے، ہمہ وقت فضا کو جراثیم کش بنانے کے لئے طرح طرح کی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ اس سے توقع باندھ لی گئی ہے کہ ریاضی اور سائنس کی ماہر ہو۔ انگریزی گرائمر اسے فرفر ازبر ہو۔ لٹریچر اور پر بھی عبور اور ساتھ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی میں بھی مہارت رکھتی ہو۔ ساتھ ہی صبر اور برداشت میں بھی یکتا ہو کہ اپنے ہر عمر کے بچے کی آن لائن تعلیمی سرگرمیوں پر تن تنہا نگاہ رکھے۔ اف یہ گوگل کلاس اور بے چاری مائیں۔

Check Also

Kahani Aik Dadi Ki

By Khateeb Ahmad