Friday, 10 January 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Anwar Ahmad
  4. Nazish Partap Gadhi, Aik Munfarid Lehjay Ka Shair

Nazish Partap Gadhi, Aik Munfarid Lehjay Ka Shair

نازش پرتاب گڈھی، ایک منفرد لہجے کا شاعر

مجھ کو نازش قتل کردے گا یہ کرب آگہی
میری محفل میں مجھے پہچانتا کوئی نہیں

نامور شاعر جناب نازش پرتاب گڈھی میری والدہ کے چھوٹے بھائی اور میرے حقیقی ماموں تھے۔ ان کے والد اور نانا شیخ محمد اصغر مرحوم ایک متقی اور پرہیزگار شخص تھے۔ وہ تعلق دار تھے اور رئیس پرتاب گڑھ کہلاتے تھے لیکن ان میں سے رئیسوں والی خو بو بالکل نہیں تھی۔ نانا ایک متقی اور پرہیز گار بزرگ تھے جائیداد اور زمینوں کے امور سے بھی انہیں کوئی خاص رغبت نہیں تھی۔ ان سارے معاملات کی نگرانی ان کے بڑے بھائی کرتے جو راجہ صاحب کہلاتے تھے۔

نانا کی سات بیٹیاں تھیں لیکن وہ اولاد نرینہ سے محروم تھے۔ لوگوں نے کہا بھی کہ جائیداد کا وارث کوئی نہیں وہ دوسری شادی کر لیں۔ لیکن نانا مرحوم نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا اگر قسمت میں بیٹا ہوا تو ان ہی سے ہو جائے گا اور پھر اللہ نے انہیں چار بیٹے بھی دیے۔ پہلے بیٹے کی پیدائش پر بہت خوشیاں منائی گئیں اس موقع پر نانا نے پرتاب گڑھ میں ایک مدرسہ اور مسجد بنوائی تھی اور اپنے خرچ پر برادری کے متعدد کو ساتھ حج پر لے گئے اس زمانے میں آج کی سہولیات تو تھیں نہیں بمبئی سے بحری جہاز اور پھر حجاز مقدس تک کا سفر قافلوں کی صورت میں کیا جاتا تھا اور واپس گھر پہنچنے میں کئی ماہ لگ جاتے تھے۔

جناب نازش پرتاب گڈھی جن کا اصل نام محمد احمد تھا بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھے۔ ان کی پیدائش قصبہ پرتاب گڑھ میں جولائی انیس چوبیس میں ہوئی۔ اماں بتاتی تھیں کہ چھٹن (نازش پرتاب گڈھی کا گھر کا نام) بچپن ہی سے کچھ الگ تھلگ اور اپنی ہی دنیا میں رہتے تھے۔

نازش ماموں کو نوجوانی ہی سے شعر و ادب سے لگاؤ تھا۔ ہوش سنبھالا تو حضرت سیماب اکبر آبادی کی شاگرد ہوئے اور ان سے اصلاح لینے لگے۔ نازش پرتاب گڈھی نے اپنے استاد کا خوب نام روشن کیا اور ہندوستان کے قومی شاعر کی حیثیت سے شہرت پائی۔ ان کی طبیعت اور شاعری میں انقلاب۔ عزم اور مٹی کی محبت نمایاں ہیں۔ نازش ماموں کٹر کانگریسی تھے۔ وہ برطانوی راج کے خلاف گاندھی جی کی تحریک میں شامل رہے۔ کوئٹ انڈیا اور نان کوآپریشن موومنٹ میں حصہ لینے کے باعث کئی بار جیل بھی گئے۔ خاندان کے بزرگ ان کی اس روش سے پریشان رہتے لیکن وہ آزادی ہند کے نعرے لگاتے اور اپنی شاعری میں اپنی دھرتی کے گیت گاتے رہے جس کی وجہ سے انہیں مشکلات بھی پیش آئیں لیکن سب کی مخالفت کے باوجود اپنے نظریے پر ڈٹے رہے۔

نازش ماموں کو جائیداد اور اس سے جڑے معاملات میں کبھی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ والد کا سایہ لڑکپن ہی میں اٹھ گیا تھا۔ تایا تھے لیکن ان کے طور طریقے وہی تھے جو اس زمانے کے رئیسوں کے ہوا کرتے تھے لہذا ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں بچتا کہ گھر کے مسائل پر توجہ دیتے اور بچوں کی مصروفیات پر نظر رکھتے۔ آزادی کے بعد حکومت ہند نے زمینداری ختم کردی جس کے باعث ہمارا خاندان بھی بری طرح متاثر ہوا لیکن اس کے باوجود بہت کچھ باقی تھا۔

زمین، کھیت اور باغات سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی کم نہ تھی۔ گھر میں ہر آسائشیں اور سہولت بھی تھی لیکن کمسن بچوں کی تربیت کرنے اور ان کے سر پر ہاتھ رکھنے والا کوئی نہیں تھا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لاکھوں کا گھر خاک ہوگیا۔ بڑے ماموں کچھ سمجھدار ہوئے تو اپنے تایا کے نقش قدم پر چل نکلے۔ وہ سب کے چہیتے اور اولاد اکبر تھے۔ کس میں ہمت تھی کہ ان کی سرزنش کرتا اگر کبھی کوئی ہمت کرکے ان کی شکایت تایا سے کرتا بھی تو ہنس کر ٹال دیتے۔ گھر میں کسی بزرگ کے نہ ہونے سے باقی تینوں چھوٹے بھائی بری طرح نظر انداز ہوئے اور گھر کا شیرازہ بکھر گیا۔ جب کسی خاندان میں مرکزیت ختم ہو جائے تو یہی کچھ ہوتا ہے۔

اماں بتاتی تھیں کہ نازش ماموں کی لا ابالی طبیعت اور سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے سب پریشان رہتے تھے۔ انہی دنوں نانی مرحومہ نے ان کی شادی طے کردی اور سعادت مند بیٹا انکار نہ کر سکا۔ شادی تو ہوگئی لیکن انہیں کبھی ایک آسودہ زندگی میسر نہ ہوئی۔ جس گھر میں سکون ہی نہ ہو تو وہ گھر محض گارے مٹی کا مکان ہو جاتا ہے۔ گھر کے ماحول سے تنگ نازش ماموں بھی زیادہ وقت گھر سے باہر ہی گزارتے اور پھر انہوں نے اپنے سارے دکھ اور کرب شعروں میں ڈھال لیے۔

اپنے ہی گھر پہنچ کے نازش
حیرت سے ایک اک کو دیکھتا ہوں

نازش اس دور میں الفاظ کے معنی بدلے
گھر میں رہتے ہوئے کہلاتے ہیں ہم آوارہ

تمام تر محرومیوں کے باوجود نازش ماموں وطن سے محبت کے گیت گاتے اور مشاعروں میں سیاسی و معاشرتی جبر کے خلاف آواز اٹھاتے رہے جسے ہندوستان بھر کے شاعر، ادیبوں اور دانشوروں نے بہت سراہا اور انہیں ہندوستان کے قومی شاعر کے طور پر پہچان ملی۔

سنہ سینتالیس میں سرحدوں کے بٹوارے کے ساتھ خاندان بھی بٹ کر رہ گئے اور ایسی دوری ہوئی کہ پھر کبھی مل بھی نہ سکے۔ سرحد کے دونوں طرف ایک انسانی المیے نے جنم لیا جس میں خونی رشتے اجنبی ہو گئے یا پھر حالات کے جبر نے انہیں کبھی ملنے نہ دیا۔ اس کرب سے وہ سب گزرے جو بٹوارے کے بعد ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے اور "مہاجر" کہلائے۔ دوسری طرف صدیوں سے آباد ہندو اور سکھ گھرانے یہاں سے ہندوستان جانے پر مجبور ہوئے اور شرنارتھی بنے۔ دونوں کے دکھ اور کرب تو ساجھے تھے لیکن مسلمان "مہاجر" اور ہندو سکھ "شرنارہی" ہی رہے۔ لفظوں کے اس گورکھ دھندے کے پیچھے کہانی ایک ہی تھی۔

ایسا ہی کچھ ہمارے خاندان میں بھی ہوا۔ خاندان کا بیشتر حصہ تحریک پاکستان میں شامل رہا اور "لے کے رہیں گے پاکستان۔ بٹ کے رہے گا ہندوستان" کے نعرے لگاتا نئے وطن پاکستان آ گیا لیکن خاندان کے بہت سے افراد نے اپنی آبائی وطن کو چھوڑنے سے انکار کر دیا اور پھر کچھ ایسے بچھڑے کہ ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کو ترس گئے۔

تقسیم کے بعد نازش ماموں کی والدہ (ہماری نانی) اور ان کے بھائی بہن پاکستان ہجرت کر گئے لیکن نازش ماموں وہیں رہے۔ سب نے سمجھایا کہ وہ بھی پاکستان چلے آئیں لیکن وہ اپنے فیصلے پر قائم رہے اور ہندوستان چھوڑنا گوارا نہیں کیا۔ والدہ اور بھائی بہنوں کے چلے جانے کے بعد وہ اور تنہا ہو گئے۔ الگ تھلگ تو وہ پہلے بھی رہتے تھے لیکن اپنے پیاروں کے جانے کے بعد تو بالکل ٹوٹ گئے۔

والدہ کی ہجرت کے موقع پر حساس شاعر نے اپنے درد کا اظہار اپنی ایک نظم "شکست زعم" میں کچھ اس طرح کیا۔

آج مگر میں کس سے بچھڑا ہوں
دل پہ کیا کچھ بیت گئی ہے

میری روایت ٹکڑے ٹکڑے
میری رسم اور ریت گئی

خاک بسر، نم دیدہ ہوں میں
آج بہت رنجیدہ ہوں میں

درد بھرے ہر افسانے کو
نظموں، غزلوں میں کہتا ہوں

اپنوں میں اور بیگانوں میں
جانوں میں اور انجانوں میں

جب بھی کوئی ذکر ہو میرا
میں بے حس کہلایا جاؤں گا

پتھر دل ٹھہرایا جاؤں گا

بھائی اور بہنوں نے نازش ماموں کو خطوط لکھے اور بہت کہا کہ وہ پاکستان آجائیں۔ ہندوستان میں اب ان کے لیے کچھ نہیں رہ گیا۔ یہاں ان کے فن کے قدردان بھی ہیں اور عزیز و اقارب بھی لیکن وہ نہیں مانے اور ہندوستان ہی میں رہنے کو ترجیح دی۔ بھائیوں کے خطوط کا جواب انہوں نے اپنی ایک نظم میں کچھ اس طرح دیا۔

میرے عزیز تمھارے کئی خطوط ملے
مگر ہیں سب کے مضامین، ایک جیسے

لکھا ہے تم نے میں بے یار بے سہارا ہوں
تمہیں ہے غم کہ میں اپنے وطن میں تنہا ہوں

تمھارے پاس پہنچ جاؤں میں تو اچھا ہے
لکھا ہے تم نے ہندوستان میں خطرہ ہے

مگر عزیز برادر تمہیں کیا معلوم
کہ میں نہ بے بس ہوں اور نہ ہوں مغموم

یہ ظالموں کا دیس ہے لکھا ہے تم نے مگر
مجھے تو صرف دعائیں ملی ہیں ہونٹوں پر

ہر ایک ماں نے مجھے اپنی مامتا دی ہے
میں اس دیار کو کیونکر کہوں پرایا ہے

کہ اس کی خاک میں میں نے شعور پایا ہے
لوگ پڑھتے ہیں، سنتے ہیں جو میری نظمیں

مجھے یقین ہے یہ سارے لوگ میرے ہیں
یہ میرا ملک ہے، میرا وطن ہے، میری زمیں

یہاں سب ہی مرے اپنے ہیں، کوئی غیر نہیں
یہاں خلوص بھی ملا محبت بھی

مجھے نصیب ہے عزت بھی اور شہرت بھی
جو خوف کھاتا ہو خود اپنے شہر میں بھی

اس آدمی میں یقیناً کوئی کمی ہوگی
میرے عزیز بلاؤ نہ اپنے پاس مجھے

دعا کرو کہ میں جب تک جیوں وطن میں جیوں
مروں تو اپنے بزرگوں کے پائینتی سوؤں

لکھا ہے تم نے یہاں میرے فن کی قدر نہیں
میری زباں کی، میرے سخن کی قدر نہیں

میرے دیار سے تو شائستگی عبارت ہے
یہیں سخن کی نہ ہو قدر، سخت حیرت ہے

نہ ہول آتا ہے مجھ کو، نہ دب کے رہتا ہوں
میں اپنی بات خود اپنی زباں میں کہتا ہوں

والدہ اور بھائیوں کے پاکستان ہجرت کر جانے کے بعد زمینوں اور جائیداد کے معاملات ان کے بھانجے نے سنبھال لیے اور نازش ماموں کے ہاتھ کچھ نہیں آیا اور نہ ہی انہوں نے کبھی اپنا کوئی حصہ مانگا۔ سب نے سمجھایا بھی۔ جائیداد کی دستاویزات بھی موجود تھیں لیکن ایک خوددار شاعر کا پٹواریوں اور بہی کھاتوں سے کیا تعلق وہ ان جھمیلوں سے لاتعلق رہے اور خاموشی سے کنارہ کش ہو گئے اور پھر یہ وقت بھی آیا کہ رئیس پرتاب گڑھ کے بیٹے نے کسمپرسی کی حالت میں پرتاب گڑھ ریلوے اسٹیشن پر ایک بک اسٹال لگا لیا اور اخبار۔ رسالے اور کتابیں فروخت کرتا رہا۔ وہی لوگ جو کل تک انہیں دیکھ کر احترام سے کھڑے ہو کر سلام کرتے تھے اب رسالے، اخبار اور کتابوں کی قیمت ان کی طرف یوں پھینکتے کہ جیسے خیرات دے رہے ہوں اور رئیس زادہ نام و نمود اور خاندانی پس منظر سے بے پرواہ اپنی دنیا میں مگن رہا۔ انہیں کبھی کچھ رقم مشاعروں سے مل جاتی یا کسی کتاب کی رائلٹی آجاتی۔ اسی قلیل آمدنی میں وہ اپنی خود داری کو بچائے جیسے تیسے گزر کرتے رہے لیکن کسی کے آگے دست طلب دراز نہیں کیا۔

نامور شاعر مجروح سلطان پوری سے ہمارے گھرانے کی دیرینہ تعلقات تھے اس زمانے میں مجروح صاحب کا بمبئی فلم انڈسٹری میں طوطی بولتا تھا۔ انہوں نے بہت اصرار کیا کہ بمبئی آ جاؤ فلم کے لیے گانے لکھو لیکن انہیں نے صاف انکار کر دیا اور جواب دیا کہ میں نہ فلمی شاعری کروں گا اور نہ ہی اپنے گیتوں کی قیمت لگاؤں گا۔ خوددار شاعر مسائل کی چکی میں پستا رہا لیکن کسی کا احسان لینا گوارا نہیں کیا۔

سر کٹ کے مرا، گو مرے قدموں میں پڑا ہے
قد پھر بھی حریفوں سے کئی ہاتھ بڑا ہے

پرتاب گڑھ کے ریلوے اسٹیشن کے اسی بک اسٹال پر بیٹھے نازش صاحب نے انقلابی نظمیں غزلیں لکھیں اور وہ شعر و ادب کی خدمت بھی کرتے رہے انہوں نے وطن کے گیت بھی گائے۔ نازش ایک سچے دیش بھگت اور اصولوں پر ڈٹ جانے والے انسان تھے۔ انہوں نے کبھی حالات سے سمجھوتہ نہیں کیا اور نہ کسی کی مدد گوارا کی۔

بسر کرلی خود اپنی ہی زندگی جہنم میں
مگر خیرات میں ملتی ہوئی جنت نہ لی میں نے

نازش پرتاب گڈھی کے اشعار میں ان کی محرومیوں اور حالات کے جبر کی تصویر تو نظر آتی ہے لیکن پسپائی کہیں نہیں ملتی۔ بلکہ یہ کہنا شاید زیادہ مناسب ہو کہ وہ نہ جھکے اور نہ ہی حوصلہ ہارا۔ ان کی ایک نظم کے چند اشعار ان کے ہمت اور عزم کے آئینہ دار ہیں۔

میں کہ ماحول سے ہر لمحہ لڑا ہوں یارو
آدمی ایک، ہزاروں بہروپ

تیز تر مصلحت و مکر کی دھوپ
میں پگھل جانے پر راضی نہ ہوا

وقت کے بدل جانے پہ راضی نہ ہوا
کوچہ یار میں بھی اٹھ نہ سکا دست طلب

سر نہ جھکا
لب تک نہ آیا کوئی حرف تمنا۔

خاندان تقسیم ہوگیا۔ فاصلے بڑھ گئے اور رابطہ کا واحد ذریعہ خطوط تک محدود ہو کر رہ گیا۔

کبھی کبھار نازش ماموں کا کوئی خط آ جاتا یا کہیں سے کوئی خبر مل جاتی کہ آل انڈیا ریڈیو پر کوئی مشاعرہ ہونے کو ہے جس میں نازش ماموں بھی پڑھیں گے۔ سب کو اس دن کا شدت سے انتظار رہتا۔ وقت مقررہ پر سب ریڈیو کے پاس بیٹھ جاتے کبھی تو آواز صاف سنائی دیتی اور اکثر تو شائیں شوں شائیں ہی سنائی دیتی اور جب اناؤنسر اعلان کرتا کہ اب جناب نازش پرتاب گڈھی اپنا کلام پیش کریں گے تو نانی اماں، اماں اور خالہ ان کو سنے بغیر ہی حسب توفیق رونا شروع کر دیتیں اور یوں مشاعرہ مجلس شام غریباں کا منظر پیش کرنے لگتا۔

اپنے پیاروں اور خونی رشتوں سے دوری کا عذاب کم نہیں ہوتا اس کرب کا خوب اندازہ وہی لگا سکتے ہیں جو اس سے گزرے اور اپنے پیاروں سے دور ہوئے۔

شاید سنہ اسی میں نازش ماموں پہلی اور آخری بار چند ہفتوں کے لیے کراچی آئے۔ میں ان دنوں کہیں باہر تھا لہذا ان سے ملاقات نہ ہو سکی جس کا مجھے آج بھی قلق ہے۔ ان کے آنے پر سب ہی خوش تھے۔ نانی مرحومہ، والدہ، خالہ اور ان کے بھائیوں نے خوب خوب خاطر و مدارات کی۔ اسی طرح کراچی کے ادبی حلقوں نے بھی جناب نازش پرتاب گڈھی کی خوب پزیرائی کی اور ان کے اعزاز میں مشاعروں اور ادبی نشستوں کو اہتمام کیا۔ کراچی جمخانہ نے ایک شام ان کے نام کی اور شہر کے تقریباً سارے ہی معروف شاعروں کو مدعو کیا اور ایک شاندار مشاعرہ منعقد کیا گیا جس میں ان کی شاعری کو سراہا گیا اور ان کے اشعار پر خوب داد دی گئی۔ کراچی کے نامور شعرا جیسے اقبال عظیم، رئیس امروہوی اور دوسرے بہت سے اہل قلم نے ان کو پاکستان آ جانے کے لیے کہا لیکن انہوں نے کسی کی نہ مانی اور ہندوستان لوٹ گئے۔

یوں تو نازش ماموں کی غزلیں اور نظمیں اردو ادب کا سرمایہ ہیں۔ لیکن وہ بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے۔ ان کی شاعری میں ایک مقصد اور پیغام تھا جو ہر دور میں ریلیونٹ رہے گا۔ نازش ماموں کی ایک طویل نظم "متاع قلم" جو انہوں نے آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہونے والے کسی مشاعرے میں پڑھی تھی اسے اردو ادب میں قلم کی حرمت پر لکھی جانے والی بہترین نظم کا مقام حاصل ہے۔

متاع قلم

عجب مقام پر انسان کا بسیرا ہے
چمن ہے کنج نفس، راہبر لٹیرا ہے

رہ حیات میں تا دور سخت اندھیرا ہے
سخن کی جوت بڑی چیز ہے، جگائے رہو

لٹاؤ خود کو متاع قلم بچائے رہو
ہوا ہے تیز مگر مشعلیں جلائے رہو

قلم کی آن میی آئے نہ آنچ دیوانو
قلم اٹھانے سے پہلے قلم کو پہچانو

زباں مکاں سے بھی آگے ہے منتہائے قلم
جنوں کی آخری منزل ہے ابتدائے قلم

نشان عظمت انساں ابھارتے جاؤ
یہ تم پہ قرض ہے یارو، اتارتے جاؤ

قدم قدم پہ ہیں لفظ و ہنر کے سوداگر
ہے موڑ موڑ پہ فن اور فکر کی لوٹ، مگر

اسی جتن سے متاع قلم بچائے رہو
خود اپنی دوش پہ اپنی صلیب اٹھائے رہو

جو بڑھ رہی ہے تو بڑھتی رہے سیاہی شب
قلم سنبھالے رہو، ساکنان عرش ادب

قلم کی گھات میں ہے بازی گر سیاست بھی
قلم کا دشمن جاں، نشہ حکومت بھی

قلم خریدنے اٹھے ہیں اہل دولت بھی
قلم دبے گا تو پھر رات زہر بوئے گی

قلم بکے گا تو اک نسل خون روئے گی
قلم بچائے رہو۔

شاعروں، قلم کارو۔
خبر رہے کہ تمھارا جو لمحہ گزرے گا

پلٹ کے صفحہ تاریخ پر وہ ابھرے گا
اک ایک حرف کے سر بستہ راز کھولے گا

اک ایک لفظ کو، کل کا بشر ٹٹولے گا
قلم سے ٹپکے شرارے الاؤ بنتے ہیں

قلم سے ڈالے ہوئے داغ گھاؤ بنتے ہیں
یہ وقت وہ ہے کہ شمعوں کی طرح جلتے رہو

قلم کی نوک سے نور حیات اگلتے رہو
لکھو فریب کے چہرے یہاں سنورتے ہیں

لکھو کہ یہاں لوگ نہ جیتے ہیں اور نہ مرتے ہیں
لکھو حیات کو قسطوں میں قتل کرتے ہیں

لکھو کہ عدل بھی شامل ہوا گناہوں میں
لکھو کہ صرف اندھیرا ہے جلوہ گاہوں میں

رفیقو، ہم سخنو، قلم کارو
ہوا ہے تیز مگر مشعلیں جلائے رہو

قلم بچائے رہو
رموز جنبش اعراب جاننے والو

اک ایک لفظ کے آداب جاننے والو
حروف چیخ رہے ہیں ہمیں اجالے رہو

سخن کی لاج بچاؤ، قلم سنبھالے رہو
بہ فیض دانش صد آگہی، لکھے جاؤ

قلم کی آن پر آئے نہ آنچ دیوانو
قلم اٹھانے سے پہلے قلم کو پہچانو

قلم نے توڑ دیا ہے بڑے بڑوں کا بھرم
اسی قلم کے تلے انقلاب جاگے گا

کسی جتن سے متاع قلم بچائے رہو
قلم بچائے رہو۔

نازش پرتاب گڈھی گاندھی اور مولانا ابوالکلام آزاد کے خیالات اور افکار کے حامی اور تقسیم ہند کے خلاف تھے وہ ایک ترقی پسند اور نظریاتی شخص تھے اس کا اظہار انہوں نے اپنی شاعری میں برملا کیا اور اپنے عمل سے بھی ثابت کیا کہ وہ انسان دوستی اور پر امن بقائے باہمی کے علمبردار تھے۔ نازش ماموں نے کسی بھی مصلحت اور ترغیب کو اہمیت نہیں دی۔ یہاں تک کے خونی رشتوں سے بھی اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا جس کے نتیجے میں وہ سب سے دور ہوتے گئے۔

مجھ کو نازش قتل کردے گا یہ کرب آگہی
میری محفل میں مجھے پہچانتا کوئی نہیں

معاشی ناہمواریاں، حالات کے جبر، تنگ دستی اور اپنوں کے رویوں نے حساس شاعر کو اندر سے کھوکھلا کر دیا تھا۔ وہ اکثر بیمار رہنے لگے تھے۔ گھر کے ماحول اور اپنوں کے رویوں سے دل برداشتہ ہو کر وہ اکثر لکھنؤ میں اپنی منھ بولی شاعرہ بہن یاد دہلوی کے گھر چلے جاتے اور کئی کئی دن انہی کے پاس رہتے۔

ان دنوں بھی وہ یاد دہلوی ہی کے گھر تھے کہ ان کی طبیعت بہت زیادہ خراب ہوگئی۔ انہیں لکھنؤ کے بلرام پور ہسپتال لے جایا گیا۔ ڈاکٹرز نے فوری آپریشن کیا لیکن شاید بہت دیر ہو چکی تھی۔ ان کا مرض لاعلاج ہو چکا تھا۔ وہ جانبر نہ ہو سکے اور بہت خاموشی سے کسی کو تکلیف دیے بغیر دنیا سے منھ موڑ لیا۔ ایک حساس اور خوددار شاعر کا انجام اس کے علاوہ اور ہو بھی کیا سکتا تھا۔

انکے انتقال کے وقت بڑے ماموں اور ان کے صاحبزادے لکھنؤ ہی میں تھے وہ نازش ماموں کی میت پرتاب گڑھ لے گئے۔ جہاں ہزاروں سوگوار ان کی تدفین میں شامل ہوئے اور انہیں ان کے اپنے ہی آبائی قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ ان کی تاریخ وفات دس اپریل سنہ چوراسی ہے۔

نازش ماموں کی قبر کے اطراف ان کے بزرگ اور اقارب بھی محو آرام تھے۔ پرتاب گڑھ کے عظیم بیٹے نے جس مٹی کی محبت میں گیت لکھے اسی مٹی میں دفن ہو کر اپنی اس تمنا کی تکمیل بھی کرلی جو انہوں نے اپنے اس شعر میں کی تھی۔

دعا کرو کہ میں جب تک جیوں وطن میں جیوں
مروں تو اپنے بزرگوں کے پائینتی سوؤں

جناب نازش پرتاب گڈھی کی شاعری پر میرے لیے کچھ کہنا چھوٹا منھ بڑی بات ہوگی میرے لیے تو بس یہی اعزاز کافی ہے کہ وہ میرے چھٹن ماموں تھے۔ قابل احترام اور وجہ فخر بھی۔

نازش پرتاب گڈھی اس دنیا سے رخصت ہوئے اور اپنے پیچھے روایات، خودداری، انسانیت اور مقصدی شاعری کا بیش بہا خزانہ چھوڑ گئے۔ ان کی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے انہیں بعد از مرگ ہندوستان کے صدر گیانی ذیل سنگھ نے غالب ایوارڈ سے نوازا جو ان کے بیٹے نے وصول کیا۔ اس کے علاوہ "نازش ایوارڈ" بھی جاری کیا گیا۔ ایوارڈ کمیٹی میں معروف شاعر پدم شری جناب بیکل اتساہی اور جناب سرجو پرشاد سروج بھی شامل تھے۔

ہندوستان کے سابق وزیر اعظم اندر کمار گجرال جناب نازش کی شاعری کے بڑے قدردان تھے انہوں نے بارہا چاہا کہ نازش ماموں ان سے کسی خواہش کا اظہار کریں اور خود بھی کئی پیشکش کی لیکن خوددار شاعر نے معذرت کرلی اور کچھ لینے سے انکار کر دیا۔

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ

نازش پرتاب گڈھی کی شاعری اور ان کی ادبی خدمات کو ان کی زندگی ہی میں ہندوستان کے تقریباً تمام شعرا اور علم و ادب سے تعلق رکھنے والے حضرات نے سراہا اور انہیں خراج تحسین پیش کیا۔

فراق گورکھپوری کہتے ہیں "نازش کی خصوصیات شعری گنوانا چاہیں تو کہنا پڑے گا کہ خلوص، نیکی درد انسانیت، شرافت، چوٹ لگانے اور چوٹ کھانے کی صلاحیت، نکھرا ہوا انداز بیاں، آواز اور لہجے میں انفرادیت جو سننے اور پڑھنے والے کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔

نازش کا شمار اردو کے ان چند شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے فن کو خدمت وطن کے لیے وقف کر دیا۔ نازش کا قصور محض بدیشی راج سے چھٹکار حاصل کر لینے تک ہی محدود نہیں تھا۔ ان کے نزدیک آزادی اس وقت مکمل ہوتی ہے جب غلامی کے ساتھ اہل وطن سماجی و اخلاقی عیوب سے بھی چھٹکارا نہ پا جائیں"۔

کیفی اعظمی نے ان کے لیے کہا "میں نازش کے عقیدتوں میں سے ہوں۔ نازش صاحب نے مقصدی شاعری کو جس رچاؤ کے ساتھ۔ جس کلاسیکی اور فنکارانہ انداز سے پیش کیا اس کا اظہار میں کن الفاظ سے کروں۔ ان کی شخصیت تعارف کی محتاج نہیں اور نہ ہی ان کی شاعری کسی تعارف کی محتاج ہے"۔

ڈاکٹر ملک زادہ منظور نے اپنے ایک مضمون "نازش۔ آمد سحر کا نقیب" میں لکھا "آزادی سے پہلے ہمارے شعرا نے اگر ایک طرف قید خانے کے اندر جدوجہد آزادی کے لیے آواز اٹھائی تو دوسری طرف اپنے قلم کو بھی تلوار بنایا۔ مولانا ابوالکلام آزاد، حسرت موہانی، مولانا محمد علی جوہر، پریم چندر اور جوش ملیح آبادی کی ہی صف میں نازش پرتاب گڈھی بھی شامل ہیں جنہوں نے تاج برطانیہ کے خلاف جنگ میں بآواز بلند آزادی کے گیت گائے۔

نازش پرتاب گڈھی کا شمار بغیر کسی اختلاف ان لوگوں میں کیا جا سکتا ہے جن کی قوم پروری۔ حب الوطنی اور انسان دوستی کی قسم کھائی جا سکتی ہے"۔

عارف عثمان (گورنر اتر پردیش) کے مطابق "جناب نازش عہد حاضر کے ایک مشہور و باکمال شاعر تھے ان کے فکر و فن اور شخصیت کا میں ذاتی طور پر مداح ہوں"۔

تقسیم کے بعد جہاں اور چیزوں کا بٹوارہ ہوا وہیں زبان بھی سیاست کی نذر ہوگئی۔ ہندی ہندوؤں کی اور اردو مسلمانوں کی زبان سمجھی جانے لگی۔ زبان سے نفرت کے خلاف نازش نے آواز بلند کی اور اپنی ایک نظم

"زبان سے نفرت کیوں" میں کہا۔

جہاں بھی چھاؤں گھنی ہو قیام کرتے چلو
ادب جہاں بھی ملے احترام کرتے چلو

ہر اک زبان کو یارو سلام کرتے چلو
گروہ کی ہے، نہ فرقے کی اور نہ مذہب کی

زباں وراثت انسانیت ہے، ہم سب کی
زباں کے باب میں من اور تو کیسی

زباں کسی کی ہو، اس سے کد کیسی
زبان پاک ہے گاؤں کی گوریوں کی طرح

زباں عظیم ہے ماؤں کی لوریوں کی طرح
زبان بہتے ہوئے وقت کی روانی ہے

زبان تسلسل تاریخ زندگانی ہے
زبان منازل تہذیب کی کہانی ہے

نظر میں ہو جو بلندی بھی اور وسعت بھی
تو ہر زبان میں ایک حسن بھی ہے عظمت بھی

وہ رات کا ہے بچاری، سحر کا دشمن ہے
جو ہے زبان کا دشمن، بشر کا دشمن ہے

زمیں کا حسن ہے کھیتوں کی تازگی ہے زبان
رہٹ کی لے ہے تو پنگھٹ کی راگنی ہے زبان

گلی گلی کا شور، گھروں کی ہماہمی ہے زبان
زبان اہل سیاست کے بس کی بات نہیں

زبان مچلتی ہے مٹی پہ چہچہوں کی طرح
زبان نکلتی ہے چلمنوں سے زمزموں کی طرح

زبان ابلتی ہے آنگن سے قہقہوں کی طرح
زبان تنتی ہے چوپال میں جواں کی طرح

زبان بنتی ہے بیٹھکوں میں داستاں کی طرح
زبان قدم بقدم سیڑھیوں پہ چڑھتی ہے

زبان پیار محبت سے آگے بڑھتی ہے
نہ دفتروں میں نہ کہیں فائلوں میں ڈھلتی ہے

زبان دھرتی کے سینے سے لگ کے چلتی ہے
زبان لبوں کا سلیقہ، دلوں کا نور بھی ہے

زبان قوم کی عزت بھی ہے، غرور بھی ہے
زبان عوام کی محبت بھی ہے شعور بھی ہے

کسی شعور سے آخر ہمیں عداوت کیوں
کوئی زبان ہو انسان کو اس سے نفرت کیوں

نازش پرتاب گڈھی کے چند مطبوعہ شعری مجموعے۔

لکیریں، زندگی سے زندگی کی طرف، قدم قدم، متاع قلم، جہاں اور بھی ہیں، نیا ساز نیا انداز، درد تہ جام، نغمہ سرمدی، چرخ وطن کے مہر و ماہ، خاکے اور لکیریں۔

جناب نازش پرتاب گڈھی پر میں نے جو کچھ لکھا وہ اپنے خاندانی پس منظر کے تناظر میں لکھا۔ ان کی شاعری، علمی اور ادبی مقام پر کچھ کہنے کے لیے میرے پاس نہ تو مناسب الفاظ ہیں اور نہ ہی میں خود کا اس لائق سمجھتا ہوں۔ میرے لیے تو بس یہی بہت ہے کہ وہ میرے ماموں تھے اور میرے خاندان کا فخر۔

کتنی نفرت ہوگئی ہے صورت ساحل سے اب
کتنی حسرت سے کیا کرتے تھے ساحل کی بات

قافلے والو آؤ، اب اور آگے بڑھ چلیں
کھا چکے منزل کا دھوکہ، دیکھ لی رہبر کی بات

About Anwar Ahmad

Anwar Ahmad is a renowned columnist and writer. His book in urdu "Kuch Khake Kuch Baten" was launched through the courtesy of Art Council, Karachi. Apart from that, Anwar Ahmad's articles and colums in urdu and english are published in different news papers, blogs and on social media plat form. Anwar Ahmad has also participated in various Talk Shows on TV Channels and on FM Radio.

Anwar Ahmad has blantly written on social, cultural, historical, and sociopolitical issues.

Check Also

Westa Ki Pujaran

By Khalid Isran