Jabr Aur Marxi Riwayat (1)
جبر اور مارکسی روایت (1)
گزشتہ ہفتے سرائیکی قوم پرست دانشوروں کے ایک سیکشن نے سرائیکی زبان کے شاعر جہانگیر مخلص کی جانب سے سرائیکی وسیب میں پنجابی وسیب کی ایک این جی او کی جانب سے رحیم یار خان کے ایک اسکول میں پنجابی تھیٹر ڈرامے کو پیش کرنے کے لیے تعاون کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس موقعہ پر انہوں نے پنجابی اور سرائیکی ان دو الفاظ کو عموم میں برقرار رکھتے ہوئے "پنجابی" کے "سرائیکی" کے دشمن ہونے کا عمومی کلیہ پیش کیا۔ اس موقعہ پر یہ بھی کہا گیا کہ "پنجابی اور سرائیکی کے درمیان کون سی ہم آہنگی ہوسکتی ہے؟"
قوم پرستوں کا ایک عمومی رویہ تو یہ ہے کہ وہ قومی سوال پر بات کرتے ہوئے نہ صرف اپنی قومی گروہ کی طبقاتی ترکیب کو نظر انداز نہیں کرتے بلکہ وہ دوسرے قومی گروہوں کی طبقاتی ترکیب کو بھی نظر اندازکر دیتے ہیں۔
سوویت یونین کے زوال اور دنیا بھر میں سوشلسٹ تحریک کے کمزور پڑنے کے بعد سے قوم پرستوں کی سیاسی سوچ میں دو بڑے رجحان دیکھنے کو ملے ہیں۔
ایک رجحان کی نمائندگی وہ قوم پرست کرتے ہیں جنھوں نے لبرل تکثریت پسندی کوپوری طرح سے قبول کرلیا ہے۔ لبرل تکثریت پسندی کےمطابق معاشرہ مختلف لیکن ایک دوسرے سے جڑی ہوئی "شناختوں" کے سلسلے پر مشتمل ہے، جیسے جنس، نسل، طبقہ، جنسی رجحان، قومی شناخت اور ثقافتی روایات۔ معاشرہ مختلف اور کبھی کبھار ایک دوسرے سے متصادم "مفادات کے گروہوں" پر مشتمل ہے۔ معاشرے کا کوئی ایسا جامع تجزیہ نہیں کیا جا سکتا جو ان تمام "اختلافات" کو مدنظر رکھے اور انہیں ایک مربوط فریم ورک میں یکجا کرے۔ ان قوم پرست دانشوروں نے اسی دلیل سے مارکسی فلسفے اور اس کے فریم ورک کو مسترد کیا اور قومی سوشلسٹ سماج کی تشکیل کےنصب العین سے بھی دست بردار ہوگئے۔
دوسرا گروہ ان قوم پرستوں کا جو یہ کہتا ہے کہ طبقاتی سوال کی اہمیت قومی سوال کی موجودگی میں ثانوی ہوجاتی ہے اور وہ طبقاتی سوال کے حل کو قومی سوال حل ہوجانے تک موخر رکھتا ہے۔
فی زمانہ یہ دونوں طرح کے قوم پرست چاہے وہ سندھی ہوں یا سرائیکی یا پشتون یا بلوچ طبقاتی بنیادوں پر پنجابی قوم کے محنت کش طبقات کے ساتھ جڑت کو مسترد کرتے ہیں بلکہ مارکس، اینگلس اور سمیت عصر حاضر میں طبقہ اور طبقاتی جدوجہد پر اصرار کرنے کو تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ یہ مارکس واد اور مارکس وادیوں پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ جبرکی اشکال سے جنم لینے والے مسائل کو نظر انداز کرتے ہیں یا انہیں کمتربنا کر پیش کرتا ہے۔
اگرچہ قوم پرست دانشوروں کے ہاں اس مسئلے پر سنجیدگی سےتحقیقی مضامین اور ادب کی شدید کی ہے لیکن وہ یہ کہنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مارکس اور سوشلسٹ تحریک کے استاد "جبر" کے سوال سے نمٹ نہیں پائے۔ ویسے اس قسم کی تنقید ہمیں لبرل فیمنسٹ دانشوروں کے ہاں کافی تحقیقی مضامین اور کتابوں کی شکل میں ملتی ہے جس میں ان کا خیال یہ ہے کہ مارکس معاشرتی صنفی درجہ بندی اور اس سےجڑے صنفی جبر پر بات نہیں کرپایا۔
قوم پرستوں کی جانب سے مارکس پر ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ وہ نسلی اور قومی تنازعات پر زیادہ توجہ مرکوز نہیں پایا۔ ایک قوم پرست ماہر تعلیم لکھتے ہیں:
"[نسلی اور قومی تنازعات وہ موضوعات نہیں تھے جن پر مارکس نے زیادہ قریب سے توجہ دی ہو۔ اگرچہ مارکس نے معاشرے میں ان اقسام کی تقسیم کو تسلیم کیا، لیکن وہ ان کے محرکات کی وضاحت کرنے میں زیادہ دلچسپی لیتے نظر نہیں آتے۔ وہ ایک مبینہ طور پر زیادہ بنیادی زمرے، یعنی سماجی و اقتصادی شناخت (طبقہ)، میں مشغول رہے اور نسل کو نظر انداز کر دیا اور اسے اپنی تاریخی تحقیق میں ایک علیحدہ مقام نہیں دیا۔ "
سال 1849ء میں، ایک سوال کے جواب میں کہ "ایک سیاہ فام غلام کیا ہے؟" مارکس نے لکھا:
"ایک سیاہ فام نسل کا آدمی۔ ایک وضاحت دوسری کے برابر ہے۔۔ ایک سیاہ فام آدمی، سیاہ فام آدمی ہی ہے۔ "]
یہ خیال کہ مارکس اور اینگلز نے جبر کو نظر انداز کیا یا اسے کم اہمیت دی کیونکہ انہوں نے طبقے کو "ترجیح" دی، بالکل غلط ہے۔ ان کا (اور بعد میں آنے والے مارکس وادیوں کا) موقف یہ رہا ہے:
[مختلف قسم کے جبر کو سرمایہ داری سے الگ کرکے نہیں سمجھا جا سکتا، کیونکہ سرمایہ داری نہ صرف جبر کو تشکیل دیتی ہے بلکہ اس کے وجود کے لیے اس پر انحصار بھی کرتی ہے۔
جبر کے خلاف سب سے مؤثر جدوجہد الگ الگ مظلوم گروہوں کی جدوجہد کی بنیاد پر نہیں کی جا سکتی، جن میں ہر گروہ طبقاتی حدود سے ماورا اتحاد قائم کرتا ہو۔ ایسی جدوجہد ہمیشہ مظلوم گروہ کے بورژوا اور درمیانے طبقے کے عناصر کے محدود مفادات سے متاثر ہوگی، جو اس جدوجہد کے دائرے کو سرمایہ داری کے دائرے تک محدود رکھنا چاہیں گے۔ ]
اس لیے مارکس وادی یہ خیال کرتے ہیں کہ صرف محنت کش ہی وہ طبقہ (چاہے ان کا تعلق کسی بھی زبان، نسل، رنگ، فرقہ، مذہب اور قوم سے ہو) ہےجو ایسی اجتماعی طاقت اورمشترکہ مفاد رکھتا ہے جو مکمل آزادی کے لیے لڑ سکتا ہے۔
جاری ہے۔۔