بے یقین موسم میں لکھا گیا ایک کالم
کبھی ایسا لگتا ہے کہ زندگی خوف اور بے یقینی کی اسیر ہو چکی ہے۔ صرف پاکستان ہی نہیں پورا عالمی گائوں اس بے یقینی کا شکار ہے۔ کبھی یوں لگتا ہے جیسے بے یقینی کا یہ زرد موسم کسی طاقت نے جان بوجھ کر انسانوں کی بستی پر اتارا ہو اور اب اسے (A time of great uncertanity)کہا جا رہا ہو یعنی دور بے یقینی۔
جیسے کبھی۔ (A time of great depression) لوگوں کا مقدر تھا۔ معیشت جس میں جھاگ کی طرح بیٹھ گئی تھی، امریکہ سے شروع ہوا اور کئی ملکوں تک پھیل گیا۔ نوکریاں چلی گئیں روزگار بند ہو گئے۔ کارخانوں کو تالے لگے تو لوگوں کو روٹی کھانے کے لالے پڑ گئے۔ اس زمانے میں کھانا بنانے کی ایسی ترکیبیں بھی ایجاد ہوئیں جس میں کم اور سستے اجزا کے ساتھ کیک بیک کرنے اور بسکٹ بنانے اور لنچ اور ڈنر تیار کرنے کی ترکیبیں سکھائی جاتیں۔ امریکہ میں اسے Poorman,s mealکا نام دیا گیا۔
دورِ بے یقینی تو وبا کا دور ہے اور وبا کا کام بھی پھیلنا ہے لیکن گریٹ ڈیپریشن بھی کسی وبا سے کم نہ تھا اور 1939ء سے دوسری جنگ عظیم سے قبل کا زمانہ لوگوں کی زندگیوں اور جیبوں پر بہت بھاری رہا۔ معیشت امریکہ میں بیٹھ رہی تھی تو متحدہ ہندوستان کا کسان بھی سات سمندر پار اس سے بری طرح متاثر ہو رہا تھا۔
لیکن یہ جو اب کورونا کے دور میں بے یقینی کا موسم ہے اس کی لپیٹ میں تو پوری دنیا براہ راست آ چکی ہے۔ کروڑوں افراد کے بے روزگار ہو جانے کا اعلان معیشت کے عالمی ادارے پہلے ہی کر چکے ہیں۔ امیر سے لے کر غریب ملکوں تک بے روزگاری پھیل رہی۔ نوکریاں ختم ہو رہی ہیں اور کسی کو خبر نہیں کہ کل کیا ہو گا۔ ہزاروں مرنے والوں کی خبریں دلوں پر الگ قیامت ڈھا رہی ہیں شہروں میں لاک ڈائون ہے۔ زندگی رک چکی ہے اور کسی کو خبر نہیں کہ زندگی کب نارمل روٹین کی طرف لوٹے گی یا پھر سخت لاک ڈائون، سمارٹ لاک ڈائون، جزوی لاک ڈائون میں نرمی جیسے مختلف مرحلوں سے گزرتی رہے گی زندگی مکمل نارمل روٹین میں کب آئے گی۔؟
ہمارے ہاں جو فیصلے ہو رہے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ بے یقینی کی فضا میں فیصلے بھی کنفیوژن اور ابہام کا شکار ہوتے ہیں چند دن پہلے تک کہا جا رہا تھا کہ 15رمضان کو لاک ڈائون میں نرمی کر دی جائے گی اور ضروریات زندگی دوسری اشیا مثلاً کپڑے جوتے کھلونوں کی دکانیں مخصوص وقت کے لئے کھول دی جائیں گی۔ اب کہہ دیا گیا کہ فیصلے کا اطلاق پیر سے ہو گا۔ ہفتہ اتوار ویسے ہی مکمل لاک ڈائون رہے گا۔
اندازہ لگائیں کس قدر ابہام اور کنفیوژن ہیں۔ پہلے کہا گیا کہ یکم جون سے تعلیمی ادارے صبح سات سے دوپہر گیارہ بجے تک کھلیں گے۔ اسی فیصلے کی بنیاد پر سکولوں نے والدین کو بھی پیغامات بھیج دیے کہ تمام حفاظتی تدابیر اور ایس او پیز کی پابندی کرتے ہوئے سکول یکم جون سے کھل رہے ہیں مگر پھر یہ فیصلہ بھی واپس لے لیا گیا۔ اب کہا گیا کہ 15جولائی تک تمام تعلیمی ادارے بند رہیں گے اور ساتھ بغیر امتحانات کے تمام طلباء کو اگلی جماعتوں میں پرموٹ کرنے کا بڑافیصلہ بھی بغیر کسی سوچ و بچار کے سنا دیا گیا۔ اس سے لاکھوں طالب علموں میں بے یقینی کے جذبات سرایت کر چکے ہیں کہ ان کا مستقبل کیا ہو گا۔ اس پر احتجاج بھی ہو رہا ہے، ہو سکتا ہے چند روز کے بعد حکومت اس فیصلے پر مزید نظرثانی کرے اور ان طلباء و طالبات کے شکوک و شبہات کو مدنظر رکھ کر بہتر فیصلہ کرے جو ایف ایس سی کے بعد پروفیشنل کالجز میں داخلوں کی تیاری کر رہے تھے۔ مگر اب وہ ایک بڑی بے یقینی کا شکار ہو چکے ہیں۔
سکول کھلنے کا سن کر پہلے دوسرے بچوں کی طرح میرا بیٹا بھی بہت خوش تھا۔ بچے آن لائن کلاس کے بے چہرہ ماحول کو پسند نہیں کرتے، وہ اپنے ہم جماعتوں اور دوستوں کے چہرے دیکھنا چاہتے ہیں۔ ان کے ساتھ مل کر اٹھکھلیاں کرنا چاہتے ہیں۔ اب گھروں میں بیٹھے بیٹھے بوریت کا شکار ہونے لگے ہیں۔ ہم بچوں کے دلوں میں بھی بے یقینی کی فصل بو رہے ہیں۔ وہ ہم سے سوال کرتے ہیں تو ہمارے پاس ان سوالوں کے جواب نہیں ہوتے۔ بے یقین موسم ہر ایک پر مختلف طرح سے وار کرتا ہے۔ دیہاڑی داروں کو گھر سے نکلتے ہوئے یقین نہیں ہوتا کہ آج کوئی ان کا دن خریدے گا یا نہیں۔ چھوٹے دکانداروں سے لے کر بڑے دکانداروں تک۔ سب بے یقینی کے اسیر ہیں۔ لاک ڈائون کی نرمی کی نوید سنتے ہیں اور پھر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں کہ کیا ان کے کاروبار پر اس کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں۔ سرکار نے یہاں بھی ابہام سے بھرا ہوا فیصلہ کر کے اپنا ریکارڈ برقرار رکھا ہے۔ چھوٹے دکانداروں کو پیر سے کاروبار کی اجازت اور بڑے کاروبار کو بدستور بند رکھنے کا اعلان۔ اس کا کیا جواز ہے اور پھر ہر بڑے کاروبار کے ساتھ چھوٹے کاروبار اور دیہاڑی دار مزدور منسلک ہوتے ہیں۔ جس سے معیشت کا ایک پورا سرکل چلتا ہے۔ بڑے بڑے شاپنگ مالز کے آس پاس کئی چھوٹے ٹھیلے والے اپنا مال بیچتے نظر آتے ہیں اور بڑی دکانوں سے نکلنے والے گاہک سے ہی انہوں نے امید لگائی ہوتی ہے۔ رحم اور درد دل رکھنے والے ان ٹھیلے والوں سے بھی کچھ نہ کچھ خرید لیتے ہیں۔ رزق بند ہونے سے ایسے غریب لوگ بھی متاثر ہوتے ہیں پھر ان دکانوں پر سیلز مین سے لے کر چوکیدار تک تمام کام کرنے والے غریب لوگ ہی ہیں۔ بے یقینی کا یہ موسم اس وقت عروج پر ہے یہ زرد بے یقینی کب ختم ہو گی۔ اس حوالے سے کسی کے پاس حتمی رائے نہیں ہے۔ جب مارچ میں یہاں وبا کا آغاز ہوا تو کہا جا رہا تھا کہ اپریل میں اس کا نقطہ عروج ہو گا۔ پھر مئی کے وسط تک یہ کنٹرول ہو جائے گا۔ مگر اب مئی کا وسط ہے اور کہا جا رہا ہے ابھی اس کے ختم ہونے کا امکان نہیں۔ سال چھ مہینے لگ جائیں گے واللہ اعلم!
قارئین سے گزارش ہے کہ اس تحریر کو پڑھ کر دل پر نہ لیں کہ بے یقین موسم کے کسی بے یقین لمحے میں لکھا گیا ہے اور اس کے حرف حرف سے بے یقینی چھلک رہی ہے۔ !!افتخار عارف کا ایک شعر یاد آ رہا ہے:
خود پر یقین نہیں تھا سو اب کے محاذ پر
دشمن کا اک سوار بھی لشکر لگا ہمیں