بازار سیاست یہاں سب بکتا ہے‘ سب چلتا ہے!
کار سیاست اخلاقی اقدار، ضابطوں اور اصولوں سے تہی، خریدوفروخت کا بازار بن کر رہ گیا ہے۔
یہ زوال آج کا نہیں ہم کئی دہائیوں سے اس عہد زوال میں ہیں، ہمیں دنیا کی سیاست کا مطالعہ پتہ دیتا ہے کہ پولیٹیکل کرپشن ایک عالمی فینمینا (Phenomenon) ہے۔ جدید جمہوریت، عوام کی حقیقی نمائندگی محض ایک فریب ہے۔ انتخابات کو کیسے سٹیج کرنا ہے۔ کن لوگوں کو اقتدار کے ایوانوں میں پہنچانا ہے اور پھر ان کٹھ پتلیوں سے کون سے مفادات حاصل کرنے ہیں، اب یہ سب کچھ ایک طے شدہ سکرپٹ کی صورت ہوتا ہے۔
دنیا کے کئی ملکوں میں سوشل سائنسز کے مضامین ہیں۔ پولیٹیکل کرپشن پر ریسرچ مقالے لکھنا اب ایک پسندیدہ موضوع ہے۔ یعنی کار سیاست میں بے اصول بددیانتی اور چوری کے تصور کو قبول کر لیا گیا ہے۔ اب فرق یہ ہے کس ملک میں پولیٹیکل کرپشن ڈھکے چھپے انداز میں ہوتی ہے۔ یا اس کا تناسب انتخابات کے اجتماعی عمل میں کتنا ہے اور کن ملکوں میں پولیٹیکل کرپشن کھلم کھلا ہوتی ہے۔ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے اور پھر وہاں اپنی مدت اقتدار بڑھانے کے لیے کرپشن کے جو ممکن ذرائع استعمال کئے جا سکتے ہیں، انہیں استعمال میں لایا جاتا ہے۔ اخلاقی اقتدار کو روندنا، اصولوں کو پامال کرنا، دولت کے بل بوتے پر وفاداریاں خر یدنا، یہ سب اب کار سیاست کا حصہ نہیں بلکہ اسی کا دوسرا نام سیاست ہے۔
سینٹ الیکشن اور اس سے پہلے ضمنی الیکشن کے دوران ہونے والے سیاسی تماشے، دولت، دھونس اور طاقت کے استعمال وفاداریوں کو خریدنے کے لیے پیسوں سے بھرے ہوئے بریف کیس، کروڑوں کی بولیا، ایک طرف خریدار اور دوسری طرف اپنی بولی لگنے کے انتظار میں بکنے کے خواہش مند۔ دونوں اطراف کردار کے ہلکے سیاست دان۔ یہ سارا منظر دیکھ کر مجھے کشور ناہید کا یہ شعر یاد آ گیا:
کچھ اس قدر تھی گرمیٔ بازار آرزو
دل جو خریدتا تھا اسے دیکھتا نہ تھا
میں نے کچھ عرصہ پہلے فیض کی طرح مصرع پر ایک غزل کہی تھی اس کا ایک شعر بھی کیسا حسب حال ہے:
اک خواب بیچنے کو سر شہر آرزو
آئے سبھی لباس فضیلت اتار کے
سیاست کے کاروبار میں اگر کوئی دیانتداری ڈھونڈ رہا ہے، اگر کوئی اخلاقی اقدار دیکھنے کا تمنائی ہے، اگر کوئی اصول پر مبنی سیاست کے راکھ ہوتے کلیشئے سے اصول کی کوئی چنگاری تلاشنا چاہتا ہے تو ضرور اس کا اپنا ذہنی توازن درست نہیں۔ وہ ضرور کوئی دیوانہ ہے، کچرے کے ڈھیر پر ستھرائی دیکھنے کا خواہش مند ہے جو دلدل میں راستہ تلاش کر رہا ہے۔ جہاں بدبو کے بھبھکے اٹھتے ہوں، وہاں رات کی رانی اپنی خوشبو نہیں بکھیرا کرتی۔
سو بددیانتی، جھوٹ، اصول بیچ کر خریدنے اور بکنے کے خواہش مندوں کی اس بے ہنگم ہجوم سے اگر آپ بھی کسی خیر، کسی دیانت کی امید رکھتے ہیں تو آپ سراسر دیوانے ہیں۔ جون ایلیا کہاں یاد آئے:
اک شخص کر رہا تھا ابھی تک وفا کا ذکر
کاش اس زباں دراز کا منہ نوچ لے کوئی
وفا اس زمانے کا لفظ ہی نہیں اور وفا کا سیاست اور سیاست دانوں سے کیا کام۔ یہاں تو وفائیں بکتی ہیں۔ وفاداریاں خریدی جاتی ہیں، ہر بے اصول، ہر بددیانتی جمہوریت کے نام پر روا رکھی جاتی ہے اور ستم ظریفی تو یہ ہے کہ سنگین مذاق عوام کے وسیع تر مفاد میں کیا جاتا ہے۔ حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے۔
لفظ سیاست اور سیاستدان کے اب اپنے معنی بدل چکے ہیں۔ لفظ سیاست ایک گالی بن چکا، ایک طعنہ، ایک دشنام۔ کیا آپ نے ایسے جملے نہیں سنے۔"ہم شریف اور سیدھے لوگ ہیں ہمیں سیاست نہیں آتی۔"ایک اور جملہ۔ اس سے ذرا بچ کے رہنا، وہ کوئی نہ کوئی سیاست ضرور کرے گا۔ خاندانی سیاست نے اس کا جینا حرام کردیا تھا۔
مان لیں کہ سیاست کا لفظ، سیاستدانوں کی کارگزاریوں اور کرتوتوں کی بدولت اب منفی معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے:
کی محبت تو سیاست کا چلن چھوڑ دیا
ہم اگر پیار نہ کرتے تو حکومت کرتے
یعنی محبت اور سیاست ایک دوسرے کی ضد ہے۔ لفظ محبت کے دامن میں دنیا کی ساری خوب صورت اور مثبت سوچیں، خیر کے سارے رویے سما سکتے ہیں۔ اس کے برعکس لفظ سیاست میں وہ سب کچھ سما سکتا ہے۔ جو محبت، مثبت سوچ اور خیر کا متضاد ہے۔
سیاست کے اس گندے کھیل پر لکھنا ہو تو لکھاری کو زندگی سے جڑے ہر خوبصورت اور خیر سے بھرے ہوئے خیال کی بلندی سے انسانی رویوں کی پستیوں تک اترتا پڑتا ہے۔ سچ کی بجائے جھوٹ پر لکھنا پڑتا ہے۔ دیانت پر نہیں سیاستدانوں کی بددیانتی کو موضوع بنانا ہوتا ہے۔ خود غرضی، مفاد پرستی اور ہوس پر خامہ فرسائی کرنا ہوتی ہے۔
کاروبار سیاست اب بازار سیاست ہے
یہاں وفائوں کی بولیاں لگتی ہیں
اصول اور اخلاقی قدریں بیچی جاتی ہیں۔
طاقت اور ہوس کی پرستش میں یہاں سب بکتا ہے۔
سب چلتا ہے۔