ادبی صحافت اور ڈیڈ لائن آرٹسٹ
اکادمی ادبیات اسلام آباد کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف خٹک کا مجھے تو شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے ایک ایسے موضوع پر مذاکرے کا اہتمام کیا جس پر میں خود بہت عرصے سے بات کرنا چاہتی تھیاور میں نے اس کا ذکر اپنے کالموں میں بھی کیا تھا لیکن خواہش تھی کہ اس کو ایک اہم موضوع کے طور پر لیا جائے اور صحافتی دانشور اور میڈیا کے پردھان اس زاویے سے بھی صحافت کے شعبے میں آنے والے زوال کا جائزہ لیں کہ گئے وقتوں میں صحافت الیکٹرانک چینلوں اور معیار سے گرے ہوئے یوٹیوب چینلوں کی دست برد سے محفوظ تھی۔ اس وقت تک صحافت سے لوگ زبان وبیان کا ہنر سیکھتے تھے جبکہ آج ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے دور میں میڈیا کے ذرائع ابلاغ نے سب سے زیادہ نقصان تہذیبی رچاؤ کے ساتھ زبان وبیان کے استعمال کو بھی پہنچایا ہے۔
مذاکرے کا موضوع تھا "پاکستانی ادبی صحافت کے 75 سال"۔ اس مذاکرے میں ملک کے ممتاز صحافیوں نے شرکت کی کی جس میں وسعت اللہ خان، مظہرعباس، عامر خاکوانی، ، منصور آفاق، زاہدہ حنا شامل ہیں۔ اس سے نشست کی صدارت ممتاز صحافی اور دانشور محمود شام نے کی، جنہیں استادوں کے استاد کہا جاتا ہے۔ تقریب کی میزبانی میں ڈاکٹر سعدیہ کمال نے اپنا خوب حصہ ڈالا۔
صحافت اور ادب کا ساتھ چولی دامن کا رہا ہے، برصغیر پاک و ہند میں صحافت کی تاریخ دیکھیں تو بڑے بڑے نامور ادیب اور شاعر صحافت کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔ چراغ حسن حسرت، شورش کاشمیری، ابرہیم جلیس، ابن انشا، فیض احمد فیض، مولانا ظفر علی خان، منو بھائی جیسے بڑے ڈرامہ نگار اور شاعر عملی صحافی تھے۔ محمود شام صحافت اور ادب کے امتزاج کی ایک خوبصورت مثال ہیں۔ یہ وہ چند نا م ہیں جو میرے ذہن میں آسکے ہیں ورنہ صحافی ادیبوں اور شاعروں کی ایک پوری کہکشاں موجود ہے۔ تنہائی کے سو سال، جیسے لازوال ناول کا لکھاری گیبریل گارشیا مارکیز ایک صحافی بھی تھا، اپنے صحافی ہونے پر ہمیشہ فخر محسوس کرتا وہ کہتا تھا کہ جب میں فکشن لکھتا ہوں تو صحافت سے حاصل کیا گیا مشاہدہ اور تجربہ میرے کام آتا ہے اور جب میں بطور صحافی اپنے ڈیسک پر بیٹھا کام کر رہا ہوتا ہوں تو میرے اندر کا تخلیق کار میری مدد کرتا ہے کہ اپنی صحافتی تحریروں میں زبان کو تخلیقی انداز میں کیسے استعمال کروں۔ ممتاز ناول نگار ارنسٹ ہیمنگوے جنگ کے محاذ سے رپورٹنگ کیا کرتا تھا اپنی شہرہ آفاق ناول فیئر ویل ٹو آرمز، کا تصور اس نے وہیں سے لیا۔
صحافت کا بنیادی کام ابلاغ ہے اور زبان اس ابلاغ کا ذریعہ ہے، صحافت میں زبان سادہ اور سلیس ااستعمال کرنے کا تصور بھی یہی ہے کہ اوسط درجہ کے قاری کو خبر کے مندرجات سمجھنا دشوار نہ ہو۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اخبار یا ٹی وی چینلوں پر گلی محلے میں بولی جانے والی بے تکلف زبان کے slangs استعمال کرکے زبان کے معیار کو یکسر گرا دیا جائے۔
صحافتی ذرائع ابلاغ خواہ وہ پرنٹ ہوں یا الیکٹرانک، کسی نہ کسی سطح پر پڑھنے والوں کے زبان و بیان کی تربیت کا فریضہ انجام دیتے ہیں اس لئے زبان کے معیار سے غافل ہونا کسی جرم سے کم نہیں۔ ادب میں زبان کا استعمال تہہ دار اور زیادہ لطیف پیرائے میں ہوتا ہے۔ داستانوی انداز، تشبیہات و استعارات قاری کے سامنے تحریر کو تصویر کر نے کی صلاحیت رکھتے ہیں ایسی ہی تحریر کو تخلیقی نثر کہا جاتا ہے۔ لکھنے والے کا اپنا اسلوب ایسی نثر میں دکھائی دیتا ہے۔ صحافت کا کام اگر معلومات پہنچانا ہے تو ادبی چاشنی میں گھلی ہوئی تخلیقی نثر ان معلومات کو علم بنا دیتی ہے۔ اخبار کے کالم کے صفحات میں ہمیں ادبی صحافت کی جھلک نظر آتی ہے۔ کالم نگاروں کو یہ سہولت حاصل ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی کی تحریر اپنی خواہش اور سوچ کے مطابق اپنے زاویہ نظر سے لکھ سکتے ہیں۔ سو ان کی تحریر میں ان کی شخصیت کے عکس جھلملاتے ہیں۔ ان کی نفسیات کیا ہے، ان کی شخصیت کی فضا کیسی ہے، خدا، کائنات، انسان کی تکون وہ کس زاویہ نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اسی سے ان کا اسلوب طے ہوتا ہے۔
اس میں دو رائے نہیں کہ کالم نگاروں کو بھی لکھتے ہوئے حقائق کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔ حقائق کے دائرے سے باہر نکل کر وہ افسانہ نہیں تراش سکتے، مگر یہ بھی سچ ہے کہ وہ حقائق کو بنیاد بنا کر کر افسانہ ضرور لکھ سکتے ہیں۔ ایسی تحریر قاری کے ذہن پر تصویر ہو جاتی ہیں یہی صحافتی ادب ہے۔ دنیا بھر میں اب کالم نگاری کو جلدی میں تخلیق کیے جانے والا ادب سمجھا جاتا ہے۔ تخلیقی نثر کے حامل ادبی چاشنی سے بھرپور تہہ دار زبان کے حامل کالموں کو ادب کی ایک اہم صنف کے طور پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کالم نگاری کو بہت پہلے ادب کی ایک اہم صنف کے طور پر مان لیا گیا تھا۔ 1897 میں امریکہ کے اخبار دی سن میں چھپنے والا ایک اداریہ Yes، Verginia، There is a Santa Claus چھپتا ہے۔ اخبار کا یہ کالم آج اکیسویں صدی تک سینکڑوں بار ری پرنٹ ہونے کا اعزاز حاصل کر چکا ہے ہے۔ انیسویں صدی کے اس اخبار کا تراشا واشنگٹن ڈی سی میں موجود خبروں کے میوزیم میں بھی رکھا گیا تھا۔ امریکہ میں ایک کتاب چھپی جو وہاں کے ممتاز کالم نگاروں کے منتخب کالموں پر مشتمل ہے۔ کتاب کا نام بہت خوبصورت ہے۔ Deadline Artistsنام کی خوبصورتی اور معنی خیزیت سے کوئی اخباری کالم نگار ہی لطف اٹھا سکتا ہے، جو ہر ہفتے تین سے چار دفعہ ڈیڈ لائن پر کام کرکے ایسی تحریر لکھتا ہے جسے دنیا عجلت میں تخلیق کیے گئے ادب کے طور پر تسلیم کرچکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کے دور میں اخبار میں ادبی صحافت کا بھرم تخلیقی نثر لکھنے والے کالم نگاروں کی کالم نگاری نے قائم رکھا ہوا ہے۔