’’عبدالکریم کا بجٹ‘‘
پرسوں محترم سجاد میر نے اپنے کالم کے آغاز میں ایک فقرہ لکھا "آج اگر میں بجٹ پر لکھوں تو یہ میرا پچاسواں بجٹ ہو گا"کچھ برسوں کی جمع تفریق کے بعد میں بھی کہہ سکتی ہوں کہ یہ میرا تیرہواں بجٹ ہے جس پر خامہ فرسائی کرنے جا رہی ہوں لیکن اب بجٹ سال میں ایک بار نہیں، کئی بار آتا ہے۔ برینڈ ڈ لان کے جوڑوں کی طرح والیم ون، والیم ٹو۔ پھر پری سمر کولیکشن اور سمر کولیکشن کی طرح بجٹ کے بھی سارا سال ان گنت والیم آتے رہتے ہیں۔ اب تو یہ بھی یاد نہیں کہ پچھلے جون سے اس جون تک کتنی بار بڑھتی ہوئی مہنگائی کے سیاپے پر نوحہ گری کی۔
ملک میں ایک طبقہ تو ضرورت سے زیادہ آسودہ حال اور پرتعیش زندگی بسر کرتا ہے۔ جسے اس مہنگائی کے ہتھوڑے سے کچھ فرق نہیں پڑتا جو عوام کی کمر پر مختلف ناموں سے پورا سال برسایا جاتا ہے۔ اس طبقے کے بعد معاشی تقسیم کے کلیے کو استعمال میں لائیں تو کئی طبقے ہیں۔ ایک ایک طبقہ بھی کئی درجات میں تقسیم ہے۔ غربت کے بھی کئی درجے ہیں کہیں کہیں خوشحالی غربت بھی ہے، جی ہاں خوشحالی غربت۔ ایسے غریبوں کی محنت مزدوری کے بعد اپنے بچوں کو دو وقت روٹی کھلا سکتے ہیں۔ اسی طرح پرلے درجے کی" بدحال غربت" جس کی کسمپرسیوں کا آپ اندازہ نہیں کر سکتے۔ میں اپنے طور پر غریب وطن سے رابطے میں رہتی ہوں، سروے کرتی رہتی ہوں، ان کی زندگیوں میں جھانکنے کی کوشش کرتی ہوں مجھے تو غربت کے ایسے پاتال میں زندگی بسر کرتے ہوئے ہم وطنوں کے ایسے ایسے دکھ نظر آئے کہ احاطہ تحریر میں لاتے ہوئے احساس کانپ اٹھتا ہے۔ غربت کے نیچے کی طرف کھسکتے ہوئے درجے حسرت و یاس کے وہ پاتال ہیں جہاں مفلس شہر کی زندگی کی چادر میں ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں میرے ان مفلس و بے کس ہم وطنوں کے لئے حکومتوں کے بجٹ میں کچھ بھی نہیں رکھا ہوتا۔ لنگر اور پناہ گاہیں اپنی جگہ اہم سہی مگر وہ مفلس جو غیرت کی دولت سے مالا مال ہو، وہ کیا کرے۔ کیسے ہاتھ پھیلائے اربوں روپے کا احساس پروگرام غریب کی ڈولتی ہوئی کشتی کو چند دن سہارا ضرور دیتا ہے مگر زندگی سے جڑی بے رحم ضرورتوں کے پہاڑ صرف چند ہزار کے تیشے سے کہاں کٹتے ہیں۔
بجٹ معاشی اصطلاحات کا گورکھ دھندہ ہوتا ہے بجٹ میں ملکی معیشت کی اچھی تصویر دکھانے کے لئے جھوٹ گھڑے جاتے ہیں۔ جب تک غریب شہر کے معاشی اشاریے بہتر نہیں ہوتے اسے بجٹ تقریروں میں بیان کی گئی خوش خبریوں اور خوش امیدیوں سے کیا لینا دینا ان سرکاری اعداد و شمار سے اس کے حالات کہاں بدلتے ہیں۔
برسوں پہلے محترمہ افضل توصیف نے ایسے ہی کسی جون کے گرم ترین مہینے میں بجٹ کے حوالے سے غریب شہر کے بجٹ پر ایک لازوال کالم لکھا۔ نام ہے "عبدالکریم کا بجٹ بھی آ گیا" عبد الکریم جو محکمہ مال کا ریٹائرڈ پنشن یافتہ چپڑاسی ہے اسے سرکاری بجٹ کی تقریر سے نوید ملی ہے کہ پنشن میں 10فیصد اضافہ ہو گیا ہے یہ دلگداز تحریر پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کے کچھ حصے کالم میں شامل کرتی ہوں۔ اگلے دن عبد الکریم نے کسی کو اخبار پڑھتے سنا وہ بھی کوپنشنر ہی تھا مگر سفید پوش!پنشن بڑھ گئی!ایک دم اس کا دل بڑا ہو گیا کتنی بڑھی ہے بابو جی و، ہ اخبار پڑھنے والے کے قریب آ بیٹھا۔ ذرا بتائیں ہر مہینے کتنی بڑھی ہے۔ دس فیصد کے حساب سے بڑھانے کا اعلان ہوا ہے۔ ہر سینکڑے پر دس روپے۔ عبدالکریم حساب لگانے لگا۔ عبد الکریم کی بوڑھی بیوی بڑی ماہر اقتصادیات تھی، جوڑ جتن کر کے کسی طرح بھی روٹی کے ساتھ لون کا بھی انتظام کر ہی لیتی مگر ہر سال یہ مہنگائی چھڑپے مارتی ہوئی آتی اور اس کے چولہے کی آگ بجھا دیتی۔ وہ کاریگرنی ماہر اقتصادیات پھر سے چولہے ہانڈی کا بکھرا تنکا تنکا جوڑ کر آگ سلگاتی اور چھابے میں روٹی اور کٹوری میں دال کا سفنا پورا کر ہی لیتی۔
وقت گزرتا رہا اور عبدالکریم کی دال پتلی اور پھیکی ہوتی چلی گئی۔ گھی کا تڑکا، وٹامن کا ترونکا اب دور کی بات ہو گئی۔ کبھی کبھار منڈی کے بچ کھچ میں سے گھیا توری، ٹینڈے چن کر لاتا تو وہ خوش ہو کر بھی اداس ہو جاتی۔ سبزی پکانے کے لئے گھی مصالحے، لہسن پیاز بھی تو چاہیے ہوتا ہے نا!پھر اس کی ماہر اقتصادیات بیوی بیمار پڑ گئی۔ دوائیاں اتنی مہنگی تھیں کہ عبدالکریم کی ساری پنشن میں ایک ڈبی گولیاں ایک پتہ کیپسول نہیں آ سکتا تھا۔ انہی دنوں اس نے مئی کے مہینے میں خبر سنی کہ جون میں بجٹ آئے گا تو پنشن دگنی ہو جائے گی۔ پنشن بڑھی تو سہی مگر صرف دس فیصد۔ عبدالکریم کی پنشن میں 57روپے 50پیسے کا اضافہ ہوا۔ درد کی گولیاں تو آ جاتیں مگر مسور کی دال جو مہنگی ہو گئی تھی۔ اس سال تو بجٹ طنز و مزاح کا شاہکار تھا۔ مسور کی دال مہنگی ہوئی اور مرسڈیز کاریں سستی ہو گئیں۔ زندگی بہت سی محرومیوں کے پل کے نیچے بہہ گئی۔ اب عبد الکریم کم سنتا تھا۔ آج پھر سے پنشن بڑھنے کا چرچا ہے۔ سنا ہے 15فیصد بڑھی ہے۔ عبد الکریم نے بمشکل سنا کیونکہ اس کے کان تقریباََبہرے ہو چکے تھے۔ پھر بھی پنشن بڑھنے کی خبر سن کر اس کے دل میں ترنگ سی جاگی۔ وہ دل ہی دل میں حساب کتاب لگانے لگا۔ ایک سو کے پیچھے "پندرہ روپے۔۔" دہائیوں پہلے لکھے ہوئے اس کالم میں جس عبد الکریم کی بپتا بیان کی گئی ہے وہ ایک استعارہ ہے۔ ان لاکھوں عبد الکر یموں کا جن کے لئے زندگی کسی جبر مسلسل کی سزا جیسی ہے۔ جو مہنگائی کا کوڑا اپنے جیون کی ننگی پیٹھ پر کھاتے اور زندگی کا سفر گھسٹ گھسٹ کر طے کرتے ہیں۔ جون 2021ء کا بجٹ بھی اپنی تمام تر اعدادی خوش امیدیوں کے باوجود میرے وطن کے عبدالکریموں کے لئے خوشحالی کی کوئی نوید نہیں لایا۔
برسوں بعد آج بھی "عبدالکریم "کے وہی حالات ہیں۔ ہر بجٹ کے بعد اس کی چنگیر میں پڑی روٹی سکڑ جاتی اور دال پہلے سے زیادہ پھیکی ہو جاتی ہے۔