مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
خواب کمخواب کا احساس کہاں رکھیں گے
اے گل صبح تری باس کہاں رکھیں گے
پہلے پھولوں سے لدے رہتے ہیں جو راہوں میں
ہم وہ چاہت کے املتاس کہاں رکھیں گے
سیاست سے پہلے ذرا موسم کے رومانس پر بات کر لیں کہ گُل رت آنے کو ہے دھوپ نے میدان سنہرے کر دیے ہیں وہی کہ آئی بسنت پالا اڑنت آثار تو نظر آنا شروع ہو گئے یں دھوپ کی تمازت بتاتی ہے کہ شاخوں پر کونپلیں نکلنے کو ہیں علی الصبح پرندوں کی نغمہ خوانی بڑھ گئی ہے اردگرد کا سبزہ اور پیڑ جیسے لمس کے بغیر ہی حزر جاں بن جاتے ہیں نماز کے بعد ہوا خوری تو معمول ہے آج قبلہ خضر یاسین صاحب بتانے لگے کہ ان کے ایک دوست کو اول تو شعر یاد نہیں رہتا اور اگر رہ جائے تو پھر وہ شعر نہیں رہتا۔ اس بات پر بے طرح مجھے پریشان خان خٹک یاد آئے۔ ہم بیٹھے تھے کہ انہوں نے ایک شعر پڑھا احمد ندیم قاسمی صاحب نے فرمایا خان صاحب ایسی دیدہ دلیری کو میرا شعر میرے ہی سامنے آپ اپنا بنا کر سنا رہے ہیں۔ پریشان خاں خٹک بولے، جناب جب کوئی پٹھان کسی کا شعر پڑھتا ہے تو وہ اتنا بدل جاتا ہے کہ کسی کا نہیں رہتا وہ پڑھنے والے ہی کا ہوتا ہے:
میں اسے دیکھتا کہ بتلاتا
اس نے پوچھا تھا شاعری کیا ہے
میرے پیارے قارئین:میں کیا کروں کہ حالات حاضرہ پربات کرنے کا حکم ہے حالات آپ کے سامنے ہیں اس حال یں اپنا حال کہاں لیجیے پھر ذہن میں نظم کی سطور آ گئیں اے سعد وہ حال احوال کہاں گزرے وہ سنہرے سال کہاں۔ خیر تازہ خبریں خیر کی نہیں ہیں انٹرنیشنل ٹرانسپرنسی رپورٹ پر نالائق بچے سٹپٹا رہے ہیں اور باقی بچے بغلیں بجا رہے ہیں کیا سمجھے آپ؟ کرپشن ماضی کے مقابلے میں بڑھ گئی ہے کرپشن لسٹ پر ہماری ترقی ہو گئی ہے اس میں لطف کی بات یہ ہے کہ ہمارے خان صاحب یک نکاتی ایجنڈا ہی لے کر آئے تھے کہ کرپشن ختم کریں گے:
مریض عشق پر رحمت خدا کی
مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
ہر طرف شور مچا ہوا ہے اور ن لیگ والوں کا کہنا ہے کہ وقت نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ برے تھے مگر اتنے برے نہیں تھے کچھ کا کہنا ہے کہ پہلے والوں نے کچھ کھایا اور کچھ لگایا اور انہوں نے کھایا مگر لگایا کچھ نہیں۔ بلکہ انہوں نے تو کچھ کمایا بھی نہیں قرضے بہرحال خوب لئے ہیں کچھ قرضے انہوں نے قسط دینے کے لئے استعمال کئے ہیں مگر سب سے بڑا سوال یہ کہ قرضے کے مصارف کہیں نظر نہیں آ رہے ٹیکس بھی اکٹھا نہیں کر سکے یہ بھی نہیں کھلتا کہ یہ کرتے کیا رہے ہیں۔ وہی کہ نہ عشق کیا نہ کام کیا ایک تو میڈیا والے بھی بہت ستم ظریف ہیں کہ خان صاحب کی نئی تقریروں کی بجائے پرانی تقریریں چلاتے ہیں جس میں خان صاحب بتاتے تھے کہ سب ملکوں نے 90دن ہی میں نظام ٹھیک کیا کرپشن ختم کی۔ اس میں بہت کچھ تھا مگر اس بات نے ہمیں بہت کدگدایا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ ان کی کیبنٹ صرف چودہ یا پندرہ لوگوں پر مشتمل ہو گی۔ اب ان پر منکشف ہوا ہو گا کہ فوج ظفر موج کس قدر ضروری ہے ہائے ہائے کتنے ہی لوٹے ہیں جو ہر جماعت سے ہڈی کھا چکے ہیں ہڈیاں ہی نہیں یہ لوگ عوام کا گوشت نوچتے آئے ہیں یہ بات تلخ مگر سچ ہے ان بے ایمانوں کے جرمانے بھی عوام کے پیسوں سے دیے جاتے ہیں خود ہی یہ باہر کمپنیاں بناتے ہیں خود ہی معاہدے کرتے ہیں خود ہی انہیں توڑتے ہیں اور خود ہی جرمانے بھرتے ہیں:
ایسے لگتا ہے کہ آسودگی قسمت میں نہ تھی
جل گئے سایہ دیوار تک آتے آتے
بدقسمتی حکومت کی روز ایک نیا ایشو کھڑا ہو جاتا ہے اور بدنامی کا باعث بنتا ہے مگر حکومت اس بات پر خوش ہے کہ لوگ آرے لگے ہوئے ہیں یعنی وہ شور شرابے میں وقتی طور پر مہنگائی اور لاقانونیت کو بھول جاتے ہیں۔ مزے کی بات یہ کہ پی ٹی آئی کے افلاطون یہ ثابت کر رہے ہیں کہ یہ کرپشن رپورٹ اصل میں پچھلی حکومت کا انڈکس ہے کہ رپورٹ آتے آتے کچھ دیر لگ ہی جاتی ہے ان کے اپنے ہی لوگ اسمبلی میں کرپشن کی تصدیق کردیتے ہیں تونسہ میں کس نے زمینوں پر قبضہ کر رکھا ہے وہ آپ سب سن چکے ہونگے ان الزامات لگانے والوں کو جواب دینا عثمان بزدار پر واجب نہیں بلکہ فرض ہے۔ قبضہ مافیا لاہور میں سامنے لایا گیا ہے تو تونسہ شریف کا کیوں نہیں۔ کہیں خورشید رضوی کے شعر کی تشریح تو نہیں:
یہ وقت وہ ہے کہ بیٹھے رہو چراغ تلے
کہ سب کو دیکھو کسی کو مگر دکھائی نہ
دوعارف نقوی والا معاملہ سامنے آ گیا ہے کہ انہیں امریکہ نے طلب کیا تھا اور اب برطانیہ کی عدالتوں نے فیصلہ کر دیا ہے کہ مطلوب عارف نقوی امریکہ کے سپرد کر دیا جائے۔ عارف نقوی کا کیس ایک پینوراما ہے ان پر کیا کیا کیسز ہیں۔ کراچی کے الیکٹرک میں بھی۔ وہ پی ٹی آئی کی ہر قسم کی فنڈ سکیم میں وہ شامل رہے ہیں۔ عارف نقوی اس وقت ٹاپ ٹرینڈ میں پی ٹی آئی والے اس کیس کو بھی اپنے حق میں لے رہے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ امریکہ کو برطانیہ نے عارف نقوی دے دیا ہے تو اسی طرح نواز شریف پاکستان کے حوالے کیے جا سکتے ہیں اب ن لیگ کے مبصرین کی توجہ عارف نقوی کی طرف ہو گئی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ عارف نقوی بھی ایک بڑی اے ٹی ایم ہے۔ اب عمران خان کے مکان کی رینوویشن تک ٹارگٹ ہو رہی ہے چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں۔
آخری بات بھی دلچسپ ہے کہ پی ٹی آئی کی نمائندہ آواز کہتی ہے کہ شاہی خاندان کو مرضی کا ایمپائر میدان میں چاہیے۔ اس کا تذکرہ عمران خان نے بہت زیادہ کیا اور ایمپائر کی انگلی کھڑی نہ ہوئی بہت ہی مضحکہ خیز ہے کہ ہمارے سیاستدان اپنے قول و عمل سے ثابت کرنے لگے ہیں کہ فیصلہ ایمپائر ہی کرتا ہے۔ آخر میں ایک شعر:
جس کو دیکھا ہی نہیں ہے میں نے
میرے شعروں میں نظر آتا ہے