اِدھر اُدھر کی باتیں
لفظ ٹوٹے لبِ اظہار تک آتے آتے
مر گئے ہم ترے معیار تک آتے آتے
ایک لمحے کی مسافت ہی بہت ہوتی ہے
ہم کو تو عمر لگی یار تک آتے آتے
وہی جو کسی نے کہا تھا کہ "جان جائے گی تو اعتبار آئے گا"ویسے محبوب امتحان تو لیتا ہے۔ ناز نخرے تو دکھاتا ہے۔ عشق میں یہی تو ہوتا ہے کہ جو گھبرا گیا مارا گیا۔ اچھا اس بات پر بات کرتے ہیں۔ پہلے ایک نہایت دلچسپ خبر کا لطف اٹھاتے ہیں۔ خبر منفرد ہو تو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ خیز یہ تھی کہ ایک لگڑ بگڑ جو کہ زخمی تھا شہر میں آن نکلا۔ اس کو پکڑ کر طبعی امداد دی گئی۔ اس کے ٹھیک ہونے کے بعد اسے کوہ سلیمانی کے علاقے میں چھوڑ دیا گیا ہے۔
آپ کہتے ہوں گے کہ اس خبر میں کیا ایسی بات ہے۔ اصل میں اس خبر سے مجھے جنگل کی ایک مشہور لڑائی یاد آ گئی جو آج سے 25 سال پیشتر چار شیروں اور 24لگڑ بگڑوں کے درمیان ہوئی تھی۔ اس لڑائی کو اخباروں نے بھی بہت کوریج دی تھی۔ اس لڑائی میں دو شیر اور کچھ لگڑ بگڑ مارے گئے تھے۔ آپ کو یہ حقیقت معلوم ہونی چاہیے کہ لگڑ بگڑوں کی شیر کے ساتھ لڑائی ہوتی رہتی ہے۔ لگڑ بگڑ ایک لیچڑ قسم کا جانور ہے۔ ذہین بھی ہے اور ثابت قدم بھی۔ یہ اکٹھے مل کر شیر سے لڑتے ہیں۔ شیر پر حملہ کم کرتے ہیں، اس سے دفاع کرتے ہیں اور شیر کو تھکا دیتے ہیں۔ شیر تنگ کر گر پڑتا ہے۔ شیر کی خوبی یا خامی یہ ہے کہ وہ میدان چھوڑ کر بھاگتا نہیں ہے۔ اب کوئی میری بات سے ن لیگ کا شیر مراد لے کر میری بات کو چھوٹا ثابت کرنے کی کوشش نہ کرے کہ میں تو اصلی جنگل کے شیر کی بات کر رہا ہوں۔ اس طرح سیاست کے لگڑ بگڑ بھی فضول قسم کے ہوتے ہیں۔
یہاں کی لڑائیاں تو بس ویسے ہی ہوتی ہیں۔ سب کچھ ہو گا منہ ماری ہو گی مگر آخر میں پتہ چلے گا کہ بجٹ پاس ہو گیا کہ اسے پاس ہونا ہی ہوتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ اپوزیشن والوں کو بھی ووٹ حکومت کے حق میں ڈالنا ہوتا ہے۔ وگرنہ جمہوری نظام نہیں چل سکتا اور پھر اس جمہوری نظام کو مقتدر کی پشت پناہی بھی ہوتی ہے وگرنہ تو جمہوریت بے راہ روی کا شکار ہو جائے۔ یہاں کے شیروں کو بھی روباہی آتی ہے۔ اب آپ کہیں گے کہ یہ روباہی کیا ہوتی ہے۔ وہ جو اقبال نے کہا تھا۔ اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی۔ میرا خیال ہے یہ لومڑی کی چالاکی ہے۔ شیر بہادر اور معصوم ہوتا ہے۔ مگر یہ تو اللہ کے شیروں کی بات ہے۔ ویسے ہی بات سے بات یاد آئی کہ نواز شریف کو بھی اقبال بہت پسند تھے کہ ہر جلسے میں ان کا شعر پڑھا کرتے تھے:
اے طاہر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
یہ بات معیار کی جہاں تک پہنچتے پہنچتے بہت سے لوگوں کی سانس اکھڑ جاتی ہے۔ پتہ نہیں نواز شریف کو یہ شعر کیوں اپیل کرتا تھا۔ اس میں تو اس رزق کی بات ہے جو انسان کی روحانی نمو روک لیتا ہے بلکہ ہونے ہی نہیں دیتا۔ لاہوت تو ایک مقدس مقام ہے کہ جہاں کے پرندے کا رزق طیب اور پاکیزہ ہے۔ ویسے بھی پرواز کے لئے ہلکا پھلکا ہونا ضروری ہے۔ سب کچھ کھا جانے والا پرندا تو ویسے ہی نہیں اڑ سکتا۔ بس وہ کہیں پڑا ہی رہ سکتا ہے۔ میں تشریح کر کے ظلم کر رہا ہوں۔ کیا کیا جائے کہ پرواز بھی تو مختلف ہوتی ہے شاہیں کا جہاں اور ہے کرگس کا جہاں اور۔ اور یہ بھی کہ پرواز رکھ بلند کہ بن جائے تو عقاب۔ ویسے اپوزیشن والے ایک شعر پر تو عمل پیرا ہیں خاص طور پر بلاول:
جھپٹنا پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
ویسے یہ سیاستدان خود سے زیادہ اپنے سپورٹرز اور ووٹرز کو گرم رکھتے ہیں یہی کام خان صاحب نے کیا تھا۔ اس وقت خاص طور پر نوجوان انہیں سیاستدان نہیں سمجھتے تھے اور ان کی باتوں پر دیوانہ وار اعتبار کرتے گئے۔ صرف نوجوان ہی نہیں دوسرے لوگ بھی آخر کار متحرک ہو گئے اور خان کو سب نے مکمل اعتبار و اعتماد دیا۔ انہیں محبوب بنا لیا۔ پھر محبوب کے عاشق بے بس کا امتحان تو لینا ہی تھا مگر تابہ کے۔ کوئی تو ان کے درد کا درماں ہو رومانس کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ وہی رومانس جو کبھی عوام کو بھٹو کے ساتھ اسے اترتے اترتے دو نسلیں بھگت گئیں مگر اس میں محترمہ کی شہادت بھی کام کر گئی اس کے بعد زرداری صاحب کے معیار تک کون آتا۔ پھر نواز شریف بھی کہاں تک چلتے۔ اک واری فیر شیر۔ کے نعرے بھی دم توڑ گئے۔ ہر کسی نے عوام ہی کو ایک معیار سر کرنے کے لئے دیا اس امید پر سب چلتے رہے کہ اچھے دن ضرور آئیں گے جن کی سب سے زیادہ نوید خان صاحب نے سنائی تھی اور امید دلائی تھی۔ اب تو لوگ تھک کر گر گئے ہیں :
کناں چلیے ہور
کناں ٹریے ہور
چلتے چلتے ایک اور چھوٹی سی خبر کا تذکرہ بھی کرتے چلیں کہ پٹرول بحران کا نوٹس لیتے ہوئے اوگرا کی مانیٹرنگ ٹیم نے مزید 3کمپنیوں کو ڈیڑھ کروڑ کے حساب سے جرمانہ کیا ہے۔ سبحان اللہ۔ یعنی اربوں کمانے والوں کے لئے یہ تو زکوٰۃ سے بھی کم ہے۔ گویا عوام کو مطمئن کرنے کی ایک بھونڈی سی کوشش ویسے بھی حکومت کا نوٹس لینا ایک مذاق بن گیا ہے۔ حکومت سے مراد صرف خان صاحب ہی ہیں۔ اب تو کسی منچلے نے پوسٹ لگائی ہے کہ لکڑیوں کا بندوبست کر لیں کہ خان صاحب گیس کا بھی نوٹس لینے لگے ہیں۔ جس کا نوٹس لیتے ہیں اس کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔ مجھے یونیورسٹی کے زمانے کی ایک بات کبھی نہیں بھولتی کہ ہمارا ایک دوست صدیقی جس لڑکی کو پسند کرتا یعنی نوٹس لیتا۔ اس کی چند ماہ بعد شادی ہو جاتی اور ہوتی بھی کسی کیپٹن ویپٹن سے۔ ایک دن وہ تنگ آ کر کہتا کہ یہ لڑکیاں ہیں ہی فوجیوں کے قابل۔ اب بتائیے بھڑاس تو بندے نے نکالنی ہے۔ میرا خیال ہے کہ کالم اپنے اختتام پر پہنچ چکا ہے کہ اب لکھنے کے لئے کیا رہ گیا ہے۔ ظہور نظر نے کہا تھا:
وہ بھی شاید روپڑے ویران کاغذ دیکھ کر
آخری خط میں اسے میں نے لکھا کچھ بھی نہیں