پاکستان میں مہنگائی کم ہے
اب تو سب سے "بڑے " نے بھی کہہ دیا ہے جنھیں "ریاست مدینہ" کی رعایت سے "امیرالمومنین" کہناچاہے لیکن پرستاروں کی مرضی۔ جیسے ایوب خان کے زمانے میں "ممتازمسلم لیگی" اس کونام کے بجائے "ولولہ انگیزقیادت "کہتے تھے اوربھٹوکوقائد عوام یا مولانا کوثر نیازی اسے سورج کہتے تھے کہ وہ ہماراسورج ہے اورہم اس کے ستارے، اس پر کسی نے پھبتی کسی تھی، کہ وہ دیگ ہے اورہم اس کے چمچے۔
دیگ اورچمچوں کا تو جنم جنماتر کاساتھ ہے جو چلتارہتاہے اورچلتارہے گا۔ دیگ کے بغیر چمچوں اورچمچوں کے بغیر "دیگ" ہوہی نہیں سکتی، اب ہم "رائج الوقت " مہنگائی کی بات کررہے ہیں یعنی وژن اعظم نے بھی صاف صاف کہہ دیاہے کہ دوسرے ممالک کے مقابلے میں ہماری مہنگائی کم ہے اورظاہرہے کہ جب انھوں نے کہہ دیاہے تو ٹھیک ہی کہاہوگا۔
ایک وقت میں پشاور ٹی وی سینٹر سے ایک ہندکو ڈرامہ نشر ہوتا تھا جس میں میاں اور بیوی کے درمیان اکثر ٹاکراہوتا تھا۔ آخر میں بیوی کہتی تھی کہ "اخبار میں لکھا ہے۔ پھر شوہرہتھیار ڈال کر کہتاہے، جب اخبار نے لکھا ہے تو پھر ٹھیک ہی ہوگا۔" چنانچہ ہم بھی مانتے ہیں کہ وزیراعظم نے کہاہے تو پھر ٹھیک ہی کہا ہوگا، ضرور پاکستان میں دوسرے ممالک کی نسبت سے مہنگائی "کم" ہوگی، دوسرے الفاظ میں پاکستان میں "سستائی" بہت زیادہ ہے خاص طورپر سرکاری محمکوں اوردفتروں میں توسستائی ہی سستائی ہے، کارکن جب اپنے کاموں سے تھک جاتے ہیں توسستانے کے لیے دفتر آجاتے ہیں، ایک افسر نے چھٹی کی درخواست دی، پھر وہ کچھ بیمارہواتو ڈاکٹرکے پاس چلا گیا، ڈاکٹر نے ایک مہینہ مکمل آرام کامشورہ دیا تو اس نے چھٹی کینسل کرکے دفتر جوائن کرلیا۔
خیر اس وقت ہم مہنگائی کی بات کررہے ہیں جو پاکستان میں دنیاکے دوسرے ممالک سے کم بلکہ بہت ہی کم ہے، ویسے ہمیں ابتداء میں تھوڑا سا ڈاؤٹ ہواکہ کہیں یہ "کم" انگریزی والا تو نہیں جو مہنگا ئی سے کہاجارہاہے، کم، کم، ویل کم، بلکہ کم ان کم ان۔ لیکن پھر سوچا کہ جب سارابیان اردوکاہے تو یقیناً یہ "کم" بھی اردوکاہوگا جسے۔
آجائیے کہ آپ سے پہلے نہ آئے موت
اب وقت رہ گیاہے بہت کم بہت ہی کم
"کم"اورزیادہ کے بارے میں ایک حکایت بھی ہے۔ کہتے ہیں، کسی شخص نے یونان کے بارے میں سنا کہ وہاں انتہائی عقل مند، دانا اورحیرت انگیز لوگ ہیں، چنانچہ وہ بہ چشم خود دیکھنے کے لیے عازم یونان ہوا، حکایتوں میں یونان کو ہمیشہ ایک ملک کے بجائے "شہر" کہاجاتاہے۔
یونان شہرکے قریب پہنچ کر دوراہاآیا تواس نے کنارے کھیلتے ہوئے بچے سے پوچھا، یونان کو کونسا راستہ جاتاہے۔ بچہ بھی یونانی تھا، اس نے کہا کہ اگر بتادوں توکتنے پیسے دوگے۔ اس شخص نے کہا زیادہ۔ لڑکے نے کہا، پہلے پیسے دو۔ وہ شخص پیسے دیتا رہا اورلڑکا مسلسل یہی رٹ لگاتا رہا کہ تم نے زیادہ کہاتھا اوریہ زیادہ کم ہیں۔ دونوں میں یہ جھگڑا چل رہاتھا کہ ایک شریف یونانی کا ادھر سے گزرہوا۔ مسافر نے اس سے استدعا کی کہ اس بچے سے اس کاپیچھا چھڑادے۔ وہ شخص آیا، بچے سے پوچھا، کتنے پیسے دینے کا اس نے وعدہ کیاہے تو بولا، زیادہ۔
ٹھیک ہے اس شخص نے کہا، پھر ان سکوں میں دو سکے اٹھا کر الگ رکھ دے اوراس کے ساتھ ایک سکہ الگ۔ پھر لڑکے سے پوچھا، اب ان میں سے جو "زیادہ " ہے وہ لے لو۔
ہم بھی کیا، اصل بات تو رہ گئی ہے، مہنگائی اور سستائی کی۔ آپ تو جانتے ہیں کہ تحقیق ہمارا محبوب مشغلہ بھی ہے، پیشہ بھی اورشوق بھی۔ چنانچہ ہم نے اس بات کاکھوج بھی لگانا چاہا جووزیراعظم نے کہی ہے اور یہ تو ہم پہلے بتاچکے ہیں کہ جب وزیراعظم نے کہا ہے اور اخبارنے بھی کہاہے توٹھیک ہی کہا ہوگااور جب ہم نے تحقیق کی تو واقعی بات ٹھیک نکلی، پاکستان میں کچھ چیزیں مہنگی ہوسکتی ہیں جسے سرکاری زبان میں مصنوعی مہنگائی کہاجاتاہے، لیکن جو "مین آئٹمز"ہیں وہ سستی ترین ہیں۔
ساری دنیا کو پتہ ہے کہ انسانی دنیا میں "مین آئٹمز" صرف دوہیں۔ ایک توخود"مین" یعنی انسان اوردوسرا سکہ۔ اوریہ دونوں پاکستان میں " سستے ترین" ہیں۔ پیسہ یاروپیہ یاسکہ بھی ریکارڈ سستاہے اوررہے انسان تو آپ خود ہی "انصاف" کرکے اپنا نرخ طے کرلیجیے۔