این جی اوزیامخیرادارے
بظاہر یہ این جی اوزاورمخیرادارے خدمت خلق کا یا ثواب کاکام کرتے ہیں، کہیں ان کو "فلاح "کانام دیاجاتا ہے تو کہیں ثواب دارین کا۔ لیکن گہرائی سے دیکھاجائے تویہ بھی اشرافیہ یاحکمرانیہ کی کوتاہی، نافرض شناسی اوربددیانتی کاشاخسانہ ہوتاہے کیوں کہ جوکام حکومت کی ذمے داری ہے وہی کام یہ مخیرحضرات کرتے ہیں۔
دوسرے ممالک میں شاید یہ ادارے واقعی انسانی ہمدری اورفلاح کی بنیاد پر قائم ہوتے ہوں لیکن ہمارے ہاں تو یہ باقاعدہ اقتدار تک پہنچنے کی سیڑھیاں ہوتی ہیں، اکثر سیاسی پارٹیاں اور بااثر لوگ ہی اس سیڑھی کے ذریعے ایوان اقتدار تک پہنچتے ہیں۔ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ عوام کے جوحقوق ریاست و حکومت اورحکمران اشرافیہ پرعائد ہوتے ہیں، ان حقوق کو "بھیک" کی شکل دے دی جاتی ہے لیکن اگربھیک بھی خداواسطے یا خداترسی یاجذبہ خدمت خلق تک ہوتی تواچھی بات ہوتی لیکن یہاں تو یہ "بھیک" ووٹ بینک بنانے کے لیے دی جاتی ہے یایوں کہیے کہ ووٹوں کے لیے پیشگی انتظامات کیے جاتے ہیں۔
حکومت کی طرف سے بھیک دینے کی جتنے ہلے گلے ہوتے ہیں، انکم سپورٹ پروگرام، صحت کارڈ پروگرام، ہشاش پروگرام، بشاس پروگرام، عشروزکواۃ پروگرام اوراس طرح کے لاتعداد منافقت کاریاں۔ اس کی تقسیم ہی سیاسی لوگوں کے ذریعے کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے اپنے ووٹرکو اس دسترخوان پر بٹھا سکیں، جب بے نظیر انکم پروگرام شروع کیاگیا تو ایم این ایز، ایم پی ایز کے لیے "کوٹہ" مختص کیاگیاکہ وہ اتنے اتنے آدمی اس دسترخوان پر بٹھا سکتے ہیں۔ اس کی سربراہ کانام شاید فرزانہ راجہ تھا۔ اسے فری ہینڈدیاگیاتھا، اس نے نہ صرف اپنوں کو اس گنگا میں بہلوایابلکہ خود بھی ایک بڑا ساگٹھرباندھ کر اڑنچوہوگئی۔ خیریہ توکوئی ایک کہانی نہیں بس یونہی الف لیلیٰ ہے، اس لیے رہنے دیجیے۔
اصل بات این جی اوزاورمخیر اداروں کی کرتے ہیں، اگرہم ان سب کومخلص بھی قراردیں توپھر بھی یہ ایک بڑا ثبوت اس بات کا ہے کہ معاشرہ اورنظام ناہموار ہے اور ریاست وحکومت اپنے حقوق توچھین لیتی ہے لیکن بدلے میں فرائض ادا نہیں کرتی ورنہ ایک صحیح حکومت کے ہوتے ہوئے ایسے فلاحی اداروں کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
سیدھی سی بات ہے اگر کوئی اپنے گھر میں پوراہو تو اسے بھیک مانگنے یا برائی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ یہ خیراتی ادارے وہی کچھ تو کرتے ہیں جو حکومت کوکرنا چاہیے۔ صحت، تعلیم، روزگاراورمعذوری کی حالت میں مدد کرنا حکومت کاکام ہے کیوں کہ حکومت اس کام کے لیے عوام سے باقاعدہ وصولی کرتی ہے، اگر عوام کو اس وصولی کے عوض کچھ دیتی نہیں توپھر حکومت کاوجود بے معنی ہوجاتاہے۔ کیایہ جوپچاسی فی صد عوام سے ان کاخون پسینہ چھین کر بلکہ منہ کانوالہ تک چھین کر بے شمار ٹیکسوں کی شکل میں وصولی کی جاتی ہے، یہ وزیروں، مشیروں، معاونوں اورسوکالڈ عوامی منتخب نمایندوں کی عیاشیوں، چوریوں اور بے دردی سے اڑانے کے لیے کی جاتی ہے؟
کیایہ " منتخب حکومتیں " کوئی وارلارڈز کے گینگ ہیں حالانکہ کریمنل گینگ بھی اگر وصولی کرتے ہیں تو پیسے دینے والوں کی "حفاظت"تو کرتے ہیں لیکن یہاں تو وہ بھی نہیں، یہ ذمے داری بھی خود عوام پرہے بلکہ اب تو یہ حالت ہوگئی کہ اگر کسی کو کوئی نقصان پہنچتاہے، جان، مال یاعزت کا تو متاثرہ فریقین کوشش کرتے ہیں کہ سرکاری اداروں کوپتہ نہ چلے ورنہ وہ ڈاکوئوں سے زیادہ لوٹیں گے اور زندہ درگور کردیں گے۔
جن ممالک میں حکومتیں واقعی حکومتیں ہیں اورعوام سے وصولی کرکے ان کی فلاح پرہی خرچ کرتی ہیں وہاں جرائم کی شرح بھی نہ ہونے کے برابر ہے اور مخیر قسم کے ادارے یااین جی اوزبھی کم ہیں کیوں کہ حکومت وہ سارے کام خود کرتی ہے جومخیر ادارے کرتے ہیں لیکن جن ممالک میں خاص طورپرہماری عجیب الخلقت جمہوریت میں حکومت بس لیتی بلکہ چھینتی ہے لیکن دیتی کچھ نہیں۔
سب سے زیادہ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ہماری حکومتیں اورپارٹیاں جو سعودی عرب سے بھی زیادہ اسلام پسندی کایااداکاری کامظاہرہ کرتی ہیں، ان کویہ معلوم ہی نہیں ہے یادانستہ انجان بننے کی کوشش کرتی ہیں کہ اسلام میں "بھیک مانگنے " کو حد درجہ ناپسند کیا گیا ہے، اس سلسلے میں صرف ایک واقعہ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شخص آکر امداد کاطالب ہوا کہ میں نان ونفقہ کو محتاج ہوں، کچھ مدد فرمائیں۔ اگر آپ کسی کو اشارہ بھی کرتے توکئی صحابہ اس شخص کی امداد کردیتے لیکن آپﷺ نے اس شخص سے کہا کہ یہ کمبل جوتم اوڑھے ہوئے ہو، تمہارا اپنا ہے؟ اس نے کہا، ہاں۔ آپﷺ نے اس شخص کو ساتھ چلنے کے لیے کہا، بازار میں اس کاکمبل بیچ ڈالا، کچھ رقم سے ایک کلہاڑی اوررسی خریدکردی اورجو باقی بچی اس کودیتے ہوئے فرمایا کہ اس سے نان ونفقہ خرید لو اورکل سے صحرا میں جاکر لکڑیاں لایاکرو اوربیچا کرو۔
ایک چینی کہاوت ہے کہ اگرتم کسی کوایک مچھلی دوتوصرف ایک وقت کاگزارہ ہو جائے گا لیکن اگر تم اسے مچھلی پکڑنے کا ہنرسکھا دو تو اس کامستقل ذریعہ رزق پیدا ہوجائے گا۔ لیکن ہمارے ہاں خیرات اوربھیک تقسیم ہی اس لیے کی جاتی ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ بے کار، محتاج اوران کے دست نگر ہوجائیں۔