کتاب کہانی
ایک امیرمینائی تو پرانے زمانے میں گزرے ہیں، جن کے جگرمیں سارے جہاں کا درد جمع ہواکرتا تھا اورموصوف روتے رہتے تھے۔
برچھی چلے کسیپہ، تڑپتے ہیں ہم امیر
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
امیرمینائی نے صرف یہی ایک فریاد نہیں کی ہے بلکہ اوربھی بہت سارے درد ان کولاحق تھے خاص طورپروہ پرابلم، جس پرابلم سے ہم پاکستانی لوگ پچھترسال سے گزرے ہیں کہ۔
کرے فریادامیر، اے داد رس کس کی
کہ ہردم کھینچ کرخنجرنئے سفاک آتے ہیں
ان کے زمانے کے سفاکوں کاتو پتہ نہیں کون تھے لیکن ہمیں اپنے زمانے کے سفاکوں کااچھی طرح پتہ بھی ہے، انھیں جانتے بھی ہیں، پہچانتے بھی ہیں لیکن پھربھی نہ توخود کوبچا پارہے ہیں اورنہ فریادکرسکتے ہیں۔ ہمارا اشارہ ان سفاکوں اورخنجرکھینچوں کی طرف ہرگزنہیں ہے جو وزیر، مشیر، معاون خصوصی وغیرہ، محکموں عرف گینگز کے سربراہاں اورآئی ایم ایف کے ٹھگوں، بلکہ ان بے جان سفاکوں کی طرف ہے جوخود توبے جان ہیں لیکن دوسروں کی جان نکالنے کاکام کرتے ہیں جیسے مہنگائی، ٹیکس، بجلی پٹرول گیس وغیرہ۔
کبھی پھول سے نکل کے کبھی چاندنی میں ڈھل کے
ترا حسن گھیرتا ہے مجھے رخ بدل بدل کے
بات یوں ہی پھیلتی جارہی ہے، ہماراخیال تھا کہ امیرمینائی کا یہ مرض صرف ہمیں لاحق ہے اوردنیا بھرکے درد ہمارے دل، گردوں، پھیپھڑوں اورکلیجے میں مقیم ہوجاتے ہیں۔ لیکن اب پتہ چلاکہ ہم سے بھی بڑا ایک امیر مینائی کراچی میں موجود ہے، اس کا نام شیخ معظم خان مندوخیل ہے۔ مندوخیل لوگ ویسے بھی اپنی گردن کوخنجروں اورچاقوچھریوں سے لڑانے میں مشہورہیں اورجب وہ شیخ بھی ہوں۔
شیخ معظم خان مندوخیل کے جگر یاکلیجے میں یاکہیں اورکوئی پرایادرد اٹھتاہے تومزرارفیع سودا کی طرح پکاراٹھتے ہیں۔
ارے غنچے ذرالانا تومیرا قلمدان
اردومیں توان کے کالم ایک عرصہ سے چلے آرہے ہیں اوردوچارمجموعے بھی "ازخودنوٹس" کے نام سے چھپ چکے ہیں اوراب انگریزی میں بھی دو مجموعے آگئے ہیں، ان کالموں میں زیادہ تر پڑوسی ملک کی سیاست اوردوغلے پن کاکچاچٹھا کھولا گیاہے۔ ان دونوں مجموعوں کوپڑھ کرہمیں توایسا لگا کہ جس طرح بعض صحافیوں کو"بعض امور" کاماہرکہاجاتاہے، اسی طرح شیخ معظم خان مندوخیل کو "بھارتی اموریا مودی امورکا ماہر کہاجانا چاہیے۔ وہ توسب جانتے ہیں کہ مودی سرکار نے بھارتی سیکولرازم اور غیرجانبداری کاجو لبادہ اوڑھ رکھا ہے، اس کے اندر انتہاپسندی چھپی ہوئی ہے بلکہ۔
دیواستبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتاہے کہ آزادی کی ہے نیلم پری
مودی کے عہدمیں توظاہری پردے کاتکلف بھی نہیں رہاہے اوربھارت کی سیاست اورحکومت میں کھلے عام بال ٹھاکر ے اور آرایس ایس اورشیوسینا کے خدوخال نظر آنے لگے ہیں۔ شیخ معظم خان نے اس معتصبانہ سیاست کاگہرا مطالعہ کیاہواہے خاص طورپر سوموٹونوٹس نمبردو میں توانھوں نے بی جے پی کی سیاست بلکہ منافقت کے بخئیے ادھیڑے ہیں۔
سوموٹونوٹس نمبرایک توپڑھنے کی چیزہے کیوں کہ خاص طورپر بھارتی سیاست اورپاکستان کے ساتھ بھارتی پنترہ بازیوں پر ایسا بہت کچھ ہے جوابھی تک منظر عام پر نہیں آیا۔ لیکن اس کامطلب یہ نہیں کہ انھوں نے اپنے عوامی مسائل کونظر اندازکیاہے، وہ تو ہم نے کہہ دیاکہ درد کہیں بھی ہو، وہ شیخ معظم خان کے جگر میں ضرورپہنچ کررہتاہے۔
خاص طورپرہمارے نظام عدل وانصاف پران کی نظر بہت گہری ہے اوروہ زیادہ تر یہی رونا روتے ہیں کہ ہمارے ملک میں انصاف کاحصول روزبروزمہنگا اورمشکل ہوتاجارہاہے جس کی وجہ سے آج پاکستانی عدالتوں میں بیس لاکھ سے بھی زیادہ مقدمے پینڈنگ پڑے ہیں جن کا فیصلہ کرنے کے لیے کم سے کم تین سوسال کی ضرورت ہے۔