ادارے اورٹیڑھی دم
ہماری پیاری، دل بہاری اورنئی نیاری ریاست مدینہ کے والی جناب عالی سراسر کمالی اورمثالی نہایت تواتر سے کہہ رہے ہیں کہ "ادارے" ٹھیک کردیے ہیں، ملک کوٹریک پرڈال دیاگیا ہے اورثمرات آنا شروع ہوگئے۔ ثمرات کاتوپتہ نہیں شاید ابھی محدود پیمانے پرآرہے ہوں گے لیکن سو بات کی ایک بات ہم بھی کہے دیتے ہیں کہ اداروں کی ٹیڑھی دم سیدھاکرنے والے بہت آئے لیکن خود ہی ٹیڑھے میڑے ہوکرچلے گئے۔ کہ یہ "دم" کوئی معمولی دم نہیں ہے، ایک طویل ہمہ گیراورہنرمند انگریزی سامراج نے اداروں کی اس دم کو کچھ ایسا پانی پلایاہے کہ اب اسے سیدھا کرناممکن نہیں کیوں کہ اس کی تعمیر میں خرابی مضمرہے۔
لوہاروں کی اصطلاح میں ایسے لوہے کو "کڑوا لوہا"کہتے ہیں۔ کڑوالوہا ٹوٹ توسکتاہے لیکن مڑتا یا سیدھا ہرگزنہیں ہوتا۔ ویسے تو اس ٹیڑھی دم یاکڑوے لوہے یااداروں میں اوربھی ہزاروں کمالات ہیں لیکن ایک بنیادی کمال جواس کے خمیرمیں ہے کہ جو اسے خود کچھ کرنا چاہیے توخود نہیں بلکہ کسی اورسے کراتاہے یعنی یہ لیڈروغیرہ جوقوم کواحمق بناکرآتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ سب کچھ ہم ہیں، خود ہی اس دم کے ہاتھوں احمق بن کر چلے جاتے ہیں۔ منہ ان کاکالاہوجاتاہے اورپکوان وہ کھالیتے ہیں۔
ان کاطریقہ واردات دوجادوئی لفظوں پرمعنی ہے۔ یس سر یا سرجی اورنوسر۔ ان دولفظوں کے جادوسے آنے والے کوکان نمک میں ڈال کرنمک بنالیاجاتاہے سر، سر کرتے ہوئے یہ ان کی کوئی کمزور رگ پکڑ کر کوئی بھی بے قاعدگی کرالیتے ہیں اورپھر اس بے قاعدگی کے پیچھے اپنی بے قاعدگیوں کی ایک قطار بنالیتے ہیں۔"سرجی "بیچارا کچھ بھی نہیں کہہ سکتاکیوں کہ اس کی ایک بے قاعدگی جواکثر تحریری بھی ہوتی ہے باقی بے قاعدگیوں کی ماں بن چکی ہوتی ہے۔
ہیروبننے اورلوگوں کواپنے کارناموں سے مبہوت کرنے کاجذبہ ہرانسان میں ہوتاہے، خاص طورجو لوگ لاشعوری طورپر اپنے بارے میں احساس کرتے ہوں کہ میں "اندر"سے خالی ہوں تو پھر وہ اپنے بیرونی سرگرمیوں کے ذریعے خودکوہیرو بنانے میں لگ جاتے ہیں۔
آں جناب بھی کرکٹ بائی چانس میں ہیروبائی چانس بن گئے تومزید فتوحات کاچسکہ پڑگیا، چنانچہ ٹاپ پر پہنچنے کے لیے وہی پہلی سیڑھی استعمال کی جو اکثر لوگ کرتے ہیں، فلاح وبہبود اورجب چل پڑے توسمجھ میں یہ آیا کہ ہم جو دگرے نیست۔ کیوں کہ ایسے لوگوں کوثنا خواں اورمدح خواں یاکمرتھپکنے والے بھی مل جاتے ہیں جو اچھے خاصے سمجھدار آدمیوں کودیوانہ بنانے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں، اپنی یہ پذیرائی دیکھ کرمنہ سے ایسی باتیں نکلنے لگیں جو وہ خود تو بھول گئے لیکن عوام کو یاد ہے کہ نوے دن میں سب کچھ ٹھیک کرنا، چوروں سے ہڑپی ہوئی دولت نکلوانا، بیرون ملک لے جانی والی دولت کو واپس لانا، اداروں کو کرپٹ لوگوں سے پاک کر کرپشن فری ملک بنانا، فارسی کی ایک کہاوت ہے جومولانا روم کی تخلیق ہے لیکن الفاظ کے لحاظ سے کچھ بے وضوسی ہے۔
اس لیے پوری کہاوت تونہیں لکھ سکتے البتہ اس کامفہوم بیان کرسکتے تھے کہ یہ "تو دیکھتے ہولیکن وہ " لیکن "وہ" نہیں دیکھتے مثلاً شہد دیکھتے ہو لیکن مکھیوں کے ڈنک نہیں دیکھ سکتے، باغ میں پھل دیکھ رہے ہو لیکن مالی کی کلہاڑی نہیں دیکھ رہے ہو۔
یہاں پرہمیں اپنے گاؤں کاایک نوجوان یادآیا جو والدین کالاڈلا اوراکلوتا تھا، اگر آپ اپنے اردگرد دیکھیں تووالدین کی اکلوتی اولاد اکثرابنارمل اوربگڑی ہوئی ہوتی ہے کیوں کہ گھر میں تواس کی ہربات فرمان سمجھ کر مانی جاتی لیکن باہرکی دنیا سے واسطہ پڑتاہے تو ہرکوئی تو اس کے والدین نہیں ہوتے، اس لیے اسے ایک جھٹکا لگتا ہے جو اکثر لوگوں کو ابنارمل بنادیتا ہے۔ وہ نوجوان بھی ماں باپ کااکلوتا تھا لیکن اس کے جوان ہوتے ہی ماں باپ داغ مفارقت دے گئے اوریہ دنیا کے تھپڑوں کاشکارہوگیا، کبھی کچھ کرتاکبھی کچھ، آخر پوراپاگل ہوگیا، یہاں وہاں واہی تباہی پھرنے لگا۔
اکثر مزاروں پر رہتا تھا، ایک دن ہمارا اس کاسامنا ہوگیا، کہیں تیزتیز جا رہا تھا۔ پوچھا کہاں جارہے ہو؟ بولا، فلاں گاؤں میں فلاں سردار کو ٹریکٹر ڈرائیورکی ضرورت ہے، وہاں جارہا ہوں۔ ہمیں اچھی طرح معلوم تھاکہ اسے سائیکل چلانا بھی نہیں آتا، پوچھا تمہیں ٹریکٹر چلانا کب سے آگیا؟ بولا، ٹریکٹر چلانا، یہ کیا ہے؟ سمجھایا کہ ٹریکٹرچلانے کے لیے ڈرائیونگ سیکھنا پڑتی ہے۔ بولا، یہ کونسی بڑی بات ہے جاکرسیٹ پر بیٹھ جاؤں گا، خود بخود چلانا آجائے گا۔ ہرطرح سے سمجھانے کے باوجود اسے یقین تھاکہ جیسے ہی میں ٹریکٹر کی سیٹ پر بیٹھ جاؤں گا ٹریکٹر چل پڑے گا اورمجھے چلانا آجائے گا۔
اسے یہ معلوم ہی نہیں تھاکہ ٹریکٹر ایک پیچیدہ مشین ہے، اسے چلانے کے لیے مہارت چاہیے اور انگریزوں کی بنائی ہوئی اورہزارہا تجربات سے گزری ہوئی حکومتی مشین تو دنیا کی پیچیدہ ترین مشین ہے، اسے چلانے کے لیے صرف ڈرائیونگ ہی کافی نہیں اورنہ ہی ریل کی طرح یہ پٹریوں پر چلتی ہے، اسے چلانے کے لیے مستری اورانجنئیر ہونے کی بھی ضرورت ہے کہ اگر چلاتے ہوئے کوئی خرابی پیداہو تو فوراً دورکی جائے۔
ادارے ٹھیک کرلیے گئے، ملک کو ٹریک پرڈال دیاگیاہے۔ ثمرات آنے لگے ہیں، ثمرات کاتو پتہ نہیں لیکن بازار میں جو "ثمر" مل رہاہے اسے چکھ کرہر کوئی تھوتھوکررہاہے۔
ادارے؟ ؟ ؟ نہ جانے یہ ادارے کتنوں کوجال میں پھنسا کرٹھکانے لگا چکے ہیں۔
بیس کم نوے سال یعنی ستر سال کی خرابیاں "نوے دن" میں ٹھیک کرنا؟ ؟ ؟
ایں خیال است ومحال است وجنوں