اﷲ خیر، اﷲ خیر
ویسے تو رحمان بابا کی اس بات پر ہم کاربند ہیں کہ اگرقسمت تجھے "بلا"کے منہ میں بھی دے دے تو بلا کے "منہ"میں بھی اللہ سے خیر خیر مانگ۔
اوریہی ہم کربھی رہے ہیں بلکہ کچھ زیادہ کر رہے ہیں، ایک بلاکے بجائے کبھی کبھی دودوبلائوں کے منہ میں بھی آجاتے ہیں جیساکہ آج کل ہے، ظاہرہے کہ ہم "خیرخیر"کے سوا اورکربھی کیا سکتے ہیں کہ ؎
دست تہہ سنگ آمد پیمان وفا ہے
نہ کہیں بھاگ سکتے ہیں نہ چھپ سکتے ہیں صرف روسکتے ہیں اورخیرخیرکرسکتے ہیں اور وہی کر رہے ہیں۔ ہمارے دانا دانشور تو دانا دانشورہیں وہ آسمان آسمان گھوم پھر کر دوردورکی کوڑیاں لارہے ہیں۔ لاسکتے ہیں، ایٹموں ستاروں، سیاروں اور کرکٹ میں فتوحات الاپ سکتے ہیں لیکن ہم زمین والے کہاں جائیں گے، ہمیں توان سرکاری محکموں، ٹیکسوں، جرمانوں، دکانداروں اورنرخوں کے تلے رہنا ہے لیکن شاید اب رہنا یا زندہ رہنا بھی ممکن نہیں رہاہے۔
ہم نے پہلے بھی رونا رویا تھا کہ مہنگائی نے اصلی چیزوں کو تو ہمارے لیے شجرممنوعہ بنادیاہواہے چنانچہ بازارمیں سستی چیزیں ڈھونڈیں گے بلکہ ڈھونڈنے کی بھی ضرورت نہیں حکومت نے اپنے ساجھے داروں سے مل کرایسے انتظامات کررکھے ہیں کہ سستی چیزیں خودہمیں ڈھونڈتی ہیں۔ خوراک کے کسی بھی سلسلے میں دیکھیے اصل اور دونمبر کا عفریت ہرجگہ مسلط ہے۔
اندازہ اس سے لگائیں کہ گزشتہ دن ہم نے ایک غذائی چیزکے بارے میں دکاندار سے پوچھا تو وہ آہ بھرکر بولا، بھول جائیے۔ ہم ایسی چیزیں دکان میں رکھ کرخواہ مخواہ نقصان اٹھائیں کہ اب ایسی چیزیں کوئی خریدتا نہیں، سب ہی چالوچیزیں خریدتے ہیں۔ ہمارے بچپن کے زمانے میں گائوں کی "ہٹی" میں بچوں کے کھانے کے لیے بھنے ہوئے چنے یامونگ پھلی دستیاب تھی بلکہ دکاندار "چونگے"میں بھی مٹھی بھردے دیتاتھا۔ لیکن اب جاکرذراپوچھئے البتہ دکان میں بھانت بھانت کے چپس اورنہ جانے کیا الابلا بھرا ہوتاہے جسے بچے دوڑدوڑ کرخریدتے اورکھاتے ہیں۔
چپس کے نام سے خیال آلوچپس کی طرف ہرگز مت جانے دیجیے کہ آلوچپس بھی اب صرف وی آئی پی قسم کے بچے کھاسکتے ہیں، اتنے آلوچپس جس سے ایک نوالہ بن جائے، بیس روپے کاملتاہے یہ کچھ اور قسم کے چپس ہوتے ہیں جن کے ماں باپ کا پتہ کوئی بھی لگا نہیں سکاہے، ہم آج بڑوں کوایک طرف کرکے بچوں کی بات اس لیے کررہے ہیں کہ بڑوں کو تو اب ختم ہی سمجھ لیجیے اگرتھوڑا بہت باقی ہے تووہ دوائوں اورڈاکٹروں کے صدقے۔ لیکن یہ آنے والی نسل؟ بھی شدید خطرے بلکہ بلا کے منہ میں ہے، ایک طرف توکہتے ہیں کہ صحت مند دماغ صحت مند جسم میں ہوتاہے یابچہ قوم کاباپ ہے اوردوسری طرف جویہ اتیاچاربلکہ قتل عام جاری ہے اس کاکیاکیجیے گا۔
ٹھیک ہے ہم بل، بلکہ بلائوں کے منہ میں خیر خیر پکاریں گے لیکن بلائوں کی کوئی حد بھی توہو۔ ؎
کرے فریادامیربے زباں اے دادرس کس کی
کہ ہردم کھینچ کرخنجر نئے سفاک آتے ہیں
وہ پرانی کہاوت تھی کہ کفن کش نے اپنے بیٹے کو ایک نصیحت کی تھی اب توکفن کش کے بیٹے کے بیٹے کے بیٹے کے بیٹے کادورہے جو اپنے بیٹے سے خود کوبخشوانے کی تدبیر کررہاہے۔
سناہے باپ نے بیٹے کویہ وصیت کی
کہ میرے بعد بھی اپنایہ کاروبار چلے
اوروہ سارے کاروبار چل رہے ہیں۔ یہ توہم نے مختصرساجائزہ لیاہے، ملک بھرکے شہروں دیہات میں بازاروں میں گلی کوچوں میں یہی کچھ چل رہا ہے بچوں کوہرہرمقام پر "سلوپوائزن" دیاجارہا ہے۔ جہاں تک بڑوں کاسوال ہے توان کوتوتقریباً ختم ہی سمجھیں ایک خبرملاحظہ ہو۔
ہوشربامہنگائی کم آمدنی والا طبقہ صرف کھانے پینے تک محدود، اشیائے خورونوش اور ٹرانسپورٹ مہنگی ہونے سے ماہانہ بیس تاپچاس ہزار روپے کمانے والوں کے لیے تین وقت کھانامشکل۔
اورابھی یہ سلسلہ رکا نہیں ہے آسمان سے بھی پانی برس رہاہے اورتندوروں سے بھی۔ اورسیلاب ان بدبختوں کے گھروں کی طرف بڑھاچلا آرہا ہے جن پچاسی فی صد خداماروں نے اپنے گھر وادی کی تہہ میں بنائے ہیں۔
گھر سجانے کا تصور تو بہت بعد کا ہے
پہلے یہ طے ہو کہ اس گھرکوبچائیں کیسے
لیکن جن کوگھر بچانے چاہیے وہ گھر کوآئین، قانون، سیاست اورنہ جانے کس الابلا سے "سجانے" میں لگے ہوئے ہیں۔