بابِ ارغوان
فلم اور ناول بارے میری رائے ہے کہ وہ پہلے سین اور پہلے صحفے سے آپ کو اپنے گرفت میں لے اور پھر اپنی جگہ سے ہلنے نہ دے۔ مجھے یاد پڑتا ہے برسوں پہلے اپنے پسندیدہ ایکٹر اور ڈائریکٹر میل گبسن کی فلم Apocalypto شروع تو کر بیٹھے تھے لیکن پھر آنکھیں جھپکنا تک بھول گئے۔
مجھے واش روم جانے کی حاجت ہوئی تو بھی کافی دیر تک نظر انداز کیا کہ کہیں کوئی ایک سین نہ چوک جائے۔ ایسی ہی کئی ناولز ہیں جو آپ کو پکڑ لیتے ہیں اور وہی تحریرں آپ کو مزہ دیتی ہیں۔
اب اس ترک ادیبہ کے اس ناول کو ہی دیکھ لیں کہ اس کا آغاز ہی آپ کو اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے چاہے آپ نے محض کتاب کا خوبصورت سرورق دیکھ کر اس کے اندرونی صحفات کو یوں ہی عادتا پلٹ کر دیکھنا چاہ تھا اور پھر نیچے نہ رکھ پائے۔
میرا اس ناول کو ابھی شروع کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ کل ویک اینڈ پر تھا سوچا کچھ اس کو پڑھوں گا کہ اس میں کتنی جان ہے۔ کیا یہ ناول مجھے خود کو پڑھنے پر مجبور کرسکتا ہے؟ پھر یوں ہی بستر پر لیٹے لیٹے ہی اسے اٹھایا تھا تو پھر پڑھتا ہی چلا گیا۔ مجھے اس ترک ادیبہ بارے پہلے کچھ علم نہ تھا نہ اس کی تحریریں پڑھی تھیں۔ اب پہلی دفعہ پڑھ رہا ہوں اور یقین کریں متاثر ہورہا ہوں۔ ایک کلاسک ناول جو آپ کو مختلف زمانوں میں لے جائے۔ دل تو کررہا ہے کہ اس میں سے چند سطریں آپ کو یہاں لکھ کر پڑھائوں۔
فرخ سہیل گوئندی صاحب اور ان کے ادارے جمہوری پبلیکیشنز کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے خصوصا ترک ادب کو اردو میں روشناس کرایا اور خوب کرایا اور بہترین تراجم چھاپے۔ ترجمے کی بات ہو رہی ہے تو مجھے کہنے دیں کہ ٹوٹے پھوٹے ترجمے کا کام میں بھی کرتا رہا ہوں اور مجھے علم ہے یہ کام کتنی محنت، مشقت اور لہو مانگتا ہے۔ لیکن ہما انور نے کمال ترجمہ کیا ہے۔ اردو زبان پر کمال گرفت اور اردر کے خوبصورت کلاسک لفظوں کا ان گنت ذخیرہ اور پھر ان کا شاندار استمعال۔ اس ترک خاتون ادیبہ کو اردو پڑھنی آتی (اگرچہ ہم کہتے ہیں 70فیصد اردو ترکش زبان کی مرہون منت ہے) تو وہ بھی اش اش کر اٹھتیں۔ ہما انور نے اس ناول کے اردو ترجمے ساتھ مکمل انصاف کیا ہے اور کہیں سے نہیں لگتا کہ آپ کسی ترک ناول کا ترجمہ اردو میں پڑھ رہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے یہ ناول لکھا ہی اردو میں گیا تھا۔
سرورق کی داد نہ دینا زیادتی ہوگی کہ میرے خیال میں کتاب کا مواد تو بعد میں آتا ہے جو چیز قاری کو کسی بھی کتابوں کی دکان میں اپنی طرف کھینچ لیتی ہے وہ اس کا سرورق اور اس کا نام ہوتا ہے۔ اگر کتاب کا نام اور سرورق کمزور ہوں تو قاری ایک نظر ڈال کر آگے بڑھ جائے گا۔ سرورق ساتھ مصباح سرفراز نے انصاف کیا ہے۔ دیکھا جائے تو جب ایک اچھی پراڈکٹ تیار ہوتی ہے تو پھر سب پہلو شاندار طریقے سے جڑ جاتے ہیں۔
میرا خیال ہے آپ لوگوں کو یہ ناول خریدنا چاہئیے۔ سردیوں کا موسم بس دستک دے رہا ہے۔ پت جھڑ کے اس اداس سرد موسم میں اس سے بہتر ناول پڑھنے کو نہیں ملے گا کہ آپ لحاف میں دبکے پڑے ہوں، بیڈ سائیڈ ٹیبل پر بھاپ اڑاتی بلیک کافی پڑی ہو اور آپ اویا بیدر کے اس خوبصورت ناول میں کھوئے ہوئے ہوں۔ کیا ہی بات ہے اور یہی زندگی کا سارا مزہ ہے۔