Thursday, 25 April 2024
  1.  Home/
  2. Rao Manzar Hayat/
  3. Labbaik

Labbaik

لبیک

مدینہ سے مکہ جاتے ہوئے دومتضاد ذہنی روشیں غالب تھیں۔ ایک حددرجہ قلق، کہ دنیاکی برگزیدہ ترین ہستی سے دوری اختیارکررہاہوں۔ مگراس کے بالکل ساتھ ایک اندرونی خوشی کہ اﷲ کے گھر کی طرف سفرہورہا ہے۔ مکہ پہنچ کرسب سے پہلااورافضل کام عمرے کے فرائض سرانجام دینے تھے۔ دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ ایک تجسس تھا۔ عجیب کیفیت تھی۔ خانہ کعبہ دیکھ کر کیا حالت ہوگی؟ کیا اس روحانی تجربہ کو برداشت بھی کرپاؤں گایا نہیں؟

حسن نواز سنجیدگی سے عمرہ کی جزئیات بتارہا تھا۔ طواف کے سات چکرہوں گے۔ پتہ نہیں، سوال میرے ذہن میں کیوں آگیاکہ آٹھ چکرکیوں نہیں۔ اگرپانچ کرلیے جائیں توکیامضائقہ ہے۔ جواب بھی ایک دم سامنے آگیا۔ یہاں معاملہ خداکے حضورمکمل تابعداری کاہے۔ سوال اورکسی جواب کے بغیر۔ پہلاموقعہ تھاکہ میں اس عظیم جگہ پرموجودتھا۔ اسدنے اپنی تین سال کی بیٹی زویاکوکندھوں پربٹھالیا۔ بڑا بیٹا مومی جو سات آٹھ برس کاہے۔ اس کواس کی والدہ جویریہ نے پلاسٹک کی رسی سے اپنے ہاتھ سے باندھ لیاتاکہ ہجوم میں بچہ گم نہ ہوجائے۔ سارہ، طاہرہ اورفاطمہ سمیت ہم سب لوگ حرم کے زیرتعمیردروازے کے ساتھ سے اندر داخل ہوئے۔

زائرین کا رش تھا۔ ہزاروں نہیں، لاکھوں زائرین اپنی اپنی کیفیت کے ساتھ خانہ کعبہ کی طرف موجزن تھے۔ حرم کودیکھ کرجودعابھی مانگو، قبول ہوجاتی ہے۔ پہلی نظرہی قبولیت کی گردانی جاتی ہے۔ صحن میں جانے سے ٹھیک ایک منٹ پہلے فاطمہ نے مڑکرکہاکہ منظربھائی میرے لیے دعاضرورکیجیے گا۔ میراذہن بالکل خالی تھا۔ چندسیڑھیاں اُترا تو سامنے کعبہ تھا۔ مسلمان طواف کر رہے تھے۔ معلوم تھاکہ یہاں آنے میں ساٹھ برس کاطویل عرصہ لگ گیاہے۔ خداکے گھرکودیکھ کرتمام دعائیں مانگ لیں۔ ایک دم احساس ہواکہ ایک فقرہ بار بار دہرا رہا ہوں۔ اللہ تعالیٰ رحم کر، کرم کر، مہربانی کر۔ یہ فقرہ میری زبان پرایسے آرہا تھا جیسے کسی نے ٹیپ ریکارڈرکابٹن دبادیاہو۔ بغیرسوچے سمجھے طواف کرنا شروع کردیا۔

زائرین بلند آواز سے "لبیک"کی صدا لگا رہے تھے۔ مختلف مذہبی گائیڈ، لوگوں کوکتاب سے آیتیں پڑھ پڑھ کرسنارہے تھے اورلوگ انھیں دہرا رہے تھے۔ مجھے جتنی آیتیں آتی تھیں، پڑھنی شروع کر دیں۔ پھر اردو میں دعامانگناشروع کردی۔ خدا تو ہر زبان جانتا ہے۔ یقین تھاکہ اردومیں بھی ہردعاسنے گا اورقبول کرے گا۔

ہر طرف ایک عجیب سانظارہ تھا۔ تیسرے چکرمیں غورسے خانہ کعبہ کودیکھا۔ ایک دم ایسے لگاکہ حرم میں اکیلا کھڑا ہوا ہوں۔ اردگردکوئی بھی نہیں ہے۔ مکمل طورپرتنہا۔ مگریہ کیسے ہورہا ہے۔ آنکھوں سے سیلاب رواں ہوگیا۔ تھوڑی دیرکے لیے ہوش کی دہلیزسے باہرنکل گیا۔ زور زورسے کہناشروع کردیاکہ اے اللہ، میں حاضر ہوں۔ اے اللہ، میں تیرے دربارمیں سجدہ ریز ہوں۔ بالکل اندازہ نہیں ہوسکاکہ طواف کے سات چکرکب ختم ہوئے۔ حسن نوازکی آوازسنائی دی کہ چکر مکمل ہوچکے ہیں۔ اسدنے بتایاہے کہ چکرسات سے زیادہ لگالیے ہیں۔ مگرمجھے توبالکل ادراک ہی نہیں ہوپایاکہ حالتِ طواف میں ہوں۔ زورزورسے پوچھنا چاہتاتھاکہ لوگوں، آپ سب کہاں چلے گئے۔ مجھے اکیلا کیوں چھوڑ دیا۔ میں کہاں پرہوں۔ اس محترم کیفیت سے باہر نکلا۔ اب سعی کاعمل تھا۔ یہاں پر عجیب امتحان میں ڈال دیاگیا۔

سعی کے تیسرے چکرمیں سر سے پاؤں تک پسینہ ہی پسینہ تھا۔ ایسے لگاکہ پورے جسم کوشل کر دیا گیا ہے۔ قدم اُٹھانے کی کوشش کرتاتھامگرچل نہیں پاتا تھا۔ ڈاکٹرہونے کے باوجودسمجھ نہیں آیاکہ یہ سب کچھ کیا ہورہاہے۔ بلکہ کیوں ہورہاہے۔ روزچھ سات کلومیٹرکی واک کرتاہوں۔ مگرایسے توکبھی بھی نہیں ہوا۔ ہرچیزسمجھ سے باہرہوگئی۔ سعی کے فقیدالمثال ہال کے اندرایک چھوٹی سی دیواردیکھ کرسہارا لے کربیٹھ گیا۔ عجیب بے چارگی تھی۔ لوگ اردگردتیزی سے "سعی"کرنے میں مصروف تھے اور میں ایک قدم چلنے سے بھی معذور ہوچکاتھا۔ ایسے لگا کہ شائدکسی طاقت نے مکمل طور پر مغلوب کرڈالا ہے۔

میری ساری ڈاکٹری بیکار ہوگئی۔ معلوم ہونے لگاکہ اس وقت ڈاکٹرنہیں بلکہ مریض ہوں اوردنیاکے سب سے بڑے ڈاکٹرکے کلینک میں تشخیص کے لیے آیاہوں۔ ایک دم دماغ میں نایاب خیال آیا۔ دیوارکے ساتھ آبِ زم زم کی سبیل موجود تھی۔ انتہائی مشکل سے چندفٹ کا فاصلہ طے کیا اور آب زم زم گلاس میں ڈال کرپیناشروع کردیا۔ تین گلاس پیے اورپھرانتہائی آہستہ آہستہ سعی کرنے کی کوشش میں مصروف ہوگیا۔ ٹھیک دوتین منٹ میں جکڑا ہواجسم بھرپورطریقے سے آزادہوگیا۔ وارفتتگی سے چلناشروع کردیا۔ ایسے لگاکہ کچھ ہواہی نہیں تھا۔ آبِ زم زم کی تاثیرتھی یاخداکی طرف سے کوئی اشارہ تھا۔ بالکل سمجھ نہ پایا۔ بلکہ سمجھنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی۔ سعی مکمل ہوئی توفریضہ ختم ہوچکاتھا۔

میرے اردگرد ہزاروں رنگ برنگی تتلیوں نے پر ہلاہلا کر شور مچانا شروع کردیا۔ عمرہ مکمل ہوچکاہے۔ اب فوری طور پر واپس جاؤ۔ واپس جاؤ۔ بتایاگیاتھاکہ یہاں لوگ گم ہوجاتے ہیں۔ مگرمیں بالکل گم نہ ہوپایا۔ کسی کوشش کے باوجودراستہ یادرہااورہوٹل تک پہنچ گیا۔ ایسے لگاکہ کسی ہیڈماسٹرنے ہوٹل کی طرف ہانکااور درست سمت میں پیدل چلنے لگا۔ یہاں کاہیڈماسٹرکون ہے۔ یہ کونسا اسکول ہے۔ اس میں طالبعلم پاس ہوتے ہیں یافیل کردیے جاتے ہیں۔ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ ویسے سارے سوال ہی ختم ہوچکے تھے۔

اگلے دن، تقریباًدس بجے طواف کے لیے چلا گیا۔ اکیلا۔ سوچے سمجھے بغیرچکرلگانے شروع کردیے۔ رش میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں تھی۔ جتنے لوگ گزشتہ دن تھے۔ اتنے ہی لوگ اگلے دن بھی تھے۔ ایک لامتناہی سلسلہ تھا۔ اسکوبیان کرناناممکن ہے۔ طواف کررہا تھا کہ میری کلائی کسی نے زورسے پکڑلی۔ چھڑوانے کی کوشش کی مگرگرفت مضبوط تھی۔ پلٹ کردیکھاتووہیل چیئرپر ایک ضعیف عورت بیٹھی ہوئی تھی۔ معذورتھی اورعربی میں کچھ کہہ رہی تھی۔ پہلی بات ذہن میں آئی کہ شائد اس بزرگ خاتون کی وہیل چیئرکارخ غلط سمت میں ہے۔ لہذا وہیل چیئرکارخ دوسری طرف کردیا۔

جیسے ہی جانے لگااس عورت نے زورسے تحکمانہ لہجے میں کہا "طواف۔ طواف"۔ یک دم ایک غلام میں تبدیل ہوگیا۔ میں نے وہیل چیئرکودھکیلناشروع کردیا۔ لوگ راستہ دیتے گئے۔ معذور عورت کعبے کی طرف منہ کرکے عربی میں کچھ کہتی تھی اورپھر تسبیح کرناشروع کر دیتی تھی۔ ایسے لگاکہ مجھے عمرے پربلایاہی اسی لیے گیا ہے کہ اس بزرگ عورت کوطواف کرا سکوں۔ اجنبی عورت زورزورسے عربی میں کچھ کہہ رہی تھی۔ سمجھ میں کچھ نہیں آرہاتھا۔ بس میں وہیل چیئرکودھکالگانے میں مصروف تھا۔ تھوڑی دیرکے بعد وہیل چیئرحرم کے محفوظ دائرے میں کھڑی کردی اوروہاں سے نکل آیا۔ یہ عورت کون تھی۔

اس نے صرف میری کلائی کیوں پکڑی؟ اسے کیسے پتہ تھاکہ میں اسے طواف کرادوں گا۔ ایک دم ذاتی نوکرمیں تبدیل ہوجاؤنگا۔ پتہ نہیں، صاحب، کچھ پتہ نہیں۔ ایک دم رنگ دارجگنو اردگردپر ہلاہلاکر گفتگو کرنے لگے۔ تیراعمرہ آج مکمل ہوچکاہے۔ اختتام پر پہنچ گیا ہے۔ مگرمیں نے توعمرہ گزشتہ روزہی کر لیا تھا۔ پھر عمرہ آج کیسے مکمل ہوا۔ آج تومیں نے عمرہ کیاہی نہیں۔ نہ احرام باندھااورنہ سعی کی۔ کچھ بھی نہیں کرپایا۔ بلکہ آج توعمرے کی نیت تک نہیں کی۔ پھریہ سب کچھ کیا ہے۔ بہرحال پیغام تھاجومجھے مل گیا۔ پتہ نہیں کیسے اورکیونکر۔

ہاں، ایک خاص بات۔ طواف کرتے ہوئے کسی نے پیچھے سے زورسے دھکادیا۔ لڑکھڑا گیا۔ گمان ہواکہ میرے اندرسے ایک سایہ زورسے نکلا اورحرم کی حدود سے باہرچلاگیا۔ تیزی سے دوڑتا ہوا مقدس لکیرسے باہرنکل گیا۔ خیال ہے یہ صرف میراوہم تھا۔ ایساکچھ بھی نہیں ہوا۔ پرعجیب بات ہے کہ اپنے جسم سے سائے کے نکلنے کے بعد عجیب طرح کے سکون میں چلا گیا۔ ایسے لگاکہ ذات کی تکمیل ہورہی ہے۔ ہونٹوں پرصرف ایک جملہ آنے لگا۔ میرے خدا، میں حاضر ہوں۔ اے میرے مالک، تیرے دربارمیں حاضر ہوں۔ لبیک۔ لبیک!

Check Also

Ustad Ba Muqabla Dengue

By Rehmat Aziz Khan