تین کتابیں۔۔۔ یادیں، باتیں اور سبزۂ بیگانہ
راشد اشرف کی زندہ کتابوں میں تین کتابوں کا اضافہ ہوا ہے۔ ایک آسی ضیائی کی کتاب "یادیں کچھ کرداروں کی" دوسری فاضل مشہدی کی "یہ باتیں جب کی ہیں " اور تیسری "سبزۂ بیگانہ" جو شیخ عبدالغفورکے سوانح مضامین کا مجموعہ ہے۔ یہ تینوں کتابیں ایک جلد میں ہیں۔
آسی ضیائی کا تعلق ریاست رامپور سے تھا۔ وہ اپنی کتاب کے تعارف میں لکھتے ہیں کہ "میرے علم میں کچھ ایسے "غیر کاملانِ رامپور" بھی آئے ہیں جن سے متعارف ہوکر بہتوں کا بھلا ہوسکتا ہے توکیوں نہ ان کرداروں سے اردو داں طبقے کو روشناس کرایا جائے۔ "
سو پہلا کردار حضرت بے تُک رامپوری کا ہے۔ آسی ضیائی فرماتے ہیں کہ بے تُک صاحب کے کارنامے بے شمار ہیں کہاں تک گنوائے جائیں۔ ان کے سنجیدہ نما مزاحیے ان ہی کی زبان لب ولہجہ اور چہرہ مہرہ مانگتے ہیں جو کہاں سے لاؤں۔ دوسرا کردار سعید الدین خاں تحصیل دارکا ہے جو اپنی زندگی ہی میں افسانہ بن گئے تھے۔ یہ پوری ریاست میں چنگیز اور ہلاکو مشہور تھے۔ ان کی سرکاری زندگی کے واقعات بیان کرتے ہوئے آسی ضیائی لکھتے ہیں کہ ان کی نجی زندگی بھی کچھ کم انوکھی نہ تھی۔
ایک سید اسرار حسین تھے۔ آسی کے سائنس ٹیچر تھے۔ ان کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں "یوں تو اسٹیٹ ہائی اسکول، رامپورکا اس دورکا ہر استاد اس قابل کہ اس کی انفرادیت پر ایک علیحدہ مضمون لکھا جائے لیکن ماسٹر اسرار صاحب کا کرداری خاکہ سب سے دلچسپ اور انوکھا ہونے کے علاوہ آج کے استادوں کے لیے ایک نمونہ بن سکتا ہے۔ ان کی سب سے نمایاں خصوصیت ان کی غیر جانبداری تھی۔ ان کا نظامِ سزا بھی ایسا عجیب اور آٹومیٹک تھا جیسے مشین۔
وہ وجیہہ اور خوش لباس تھے۔ آسی صاحب کو یاد آنے والے کرداروں میں ایک صوفی صاحب تھے۔ ایک رامپورکی فوج کے ریٹائرڈ سپاہی بنّے خاں تھے جنھیں ہر شخص کی نقل اتارنے میں کمال حاصل تھا۔ اپنے افسروں اور شہرکے سر برآوردہ لوگوں کی ہی نہیں مشہورگلوکار طوائفوں کی نقل بھی ایسی خوبی سے اتارتے تھے کہ آپ حیران رہ جائیں۔ ایک کردار آسی صاحب کی حقیقی پھوپی کا ہے جس کا عنوان ہے " وہ عظیم خاتون۔ "
اس مجموعہ کی دوسری کتاب "یہ باتیں ہیں جب کی" فاضل مشہدی کی 1903 سے 1947 تک کی سرگزشت ہے۔ وہ فرید کوٹ میں پیدا ہوئے، جالندھر میں پرائمری پھر امرتسر میں مڈل کے بعد چار سال تعلیم حاصل کی۔ وہاں سے لاہور آکر اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا۔ کالج سے فارغ ہوکر وہ دہلی میں رہے اور وہاں کے سخنوروں سے استفادہ کرکے علی گڑھ پہنچے۔
فاضل مشہدی بتاتے ہیں کہ ان کے تایا فارسی اور عربی رواں بولتے تھے، دادا کے انتقال تک اگرچہ گھریلو زبان پنجابی تھی نوشت و خواند فارسی میں ہوتی تھی۔ تایا نے انھیں گھر پر طب، فلسفہ اور ہیئت کی فارسی اور عربی کتابوں کا مطالعہ کرا دیا۔ بعض دفعہ وہ انھیں پابند کر دیتے تھے کہ ان سے فارسی یا عربی میں بات کرو۔ مشہدی صاحب نے اپنی کتاب میں لاہورکی نامور شخصیتوں کا ذکر کیا ہے، ہندوستان کے مختلف مقامات کے سفرکا احوال لکھا ہے۔
حافظ محمود شیرانی کا ذکرکرتے ہیں " وہ مشرقی علم کے تجسس میں ڈوبے رہتے تھے۔ چلتے بھی تو سر اونچا کرکے کبھی ادھر ادھر نہ دیکھتے۔ کتابوں کا پستارہ پسلیوں پر لدا رہتا۔ ذہن براق اور ہر مشکل سے مشکل عقدہ کو کھول ڈالنے والا۔ مشہدی علی گڑھ میں رشید احمد صدیقی کو سلام کرنے گئے۔ انھوں نے وطن پوچھا۔ لاہور کا نام سنتے ہی انھوں نے کہا، حافظ محمود شیرانی کیسے ہیں؟ حفیظ جالندھری کے بارے لکھتے ہیں "یہ اگرچہ سالک کے شاگرد سمجھے جاتے تھے لیکن ان کی شاعری کی اٹھان خود ہی بڑی دل رس تھی۔ اقبال کی نئے رنگ کی شاعری سے متاثر معلوم ہوتے تھے۔ شاعری ان کی طبیعت سے پھوٹ رہی تھی۔ " مولانا ظفر علی خاں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں "یہ اپنا سیاسی موقف بدلتے رہتے تھے۔ دنیا کبھی ان کی مخالف ہوجاتی اور کبھی ان کے پاؤں چومتی۔ ہمیں ان کے پاس جاکر ایسا لگتا جیسے کسی خیرالقرون کے بزرگ کے پاس حاشیہ نشینی کر رہے ہیں۔ "
علامہ اقبال کے بارے میں مشہدی کہتے ہیں کہ ان کا وجود صرف ہماری آنکھوں کو ہی منور نہیں کرتا، اس کے سانس کی خوشبو دل ودماغ کو کسی اور ہی فضا میں پہنچا دیتی ہے۔ ان کی شاعری کو ان معنوں میں شاعری کیسے کہیں جو انیسویں صدی میں متداول تھی۔ ان کا کلام تو جانِ حقیقت تھا۔ ان کے کلام میں روش قدیم کا حسن بھی ہے اور وہ داخلیت بھی جو دلوں کے کواڑ کھول دیتی ہے۔
فاضل مشہدی نے ایک ہندو پروفیسر جگدیش متر سے ہپناٹزم سیکھنے کا قصہ بھی لکھا ہے کہ کس طرح وہ یہ فن سیکھنے کے لیے اس کے آشرم میں گئے اور وہاں کیا دیکھا اور کیا سیکھا۔ "اب میں آپ کو زیادہ کیا سناؤں۔ یہ باتیں تو میری ذات کی ہیں۔ مختصر یہ کہ مجھے آشرم سے نکلنا پڑا اور میں آخری منزل تک نہ پہنچ سکا لیکن جتنا کچھ سیکھ چکا تھا وہ بھی سوائے پروفیسر کے وہاں کسی کے پاس نہ تھا۔ ہم نے اس علم سے بہت سے تجربات کیے۔ "
فاضل مشہدی نے اپنی یادوں کی کتاب میں اپنے " طوافِ کوچہ ہائے شعروادب" کا ذکر بھی کیا ہے۔ ان دنوں میدان سخن میں بیخود اور سائل شہسواری کر رہے تھے۔ اعجاز قواعد شاعری کے ماہر سمجھے جاتے۔ مشہدی نے ان تینوں کے سامنے جاکر فرداً فرداً تلمذ اختیار کیا لیکن کسی ایک کو بھی خبر نہ تھی کہ دوسرا بھی استادی میں شریک ہے۔ لکھتے ہیں " اب دستور یہ ہوگیا کہ اول بیخود سے غزل کی اصلاح کرائی پھر وہ اصلاح شدہ مسودہ صاف کرکے نواب سائل کے سامنے جا رکھا۔ وہاں سے خیرات لے کر اعجاز کے سامنے اپنی ہی کاوش بتا کر پیش کر دی۔ گویا یہ بزرگ آپس میں ہی اصلاح کرتے رہے۔ "
مشہدی کی کتاب میں دہلی، آگرہ، حیدرآباد، گوالیار اور بھوپال وغیرہ کی سیاحت کا ذکر ہے اور کچھ اپنی طباعت اور ادبی ریسرچ کا۔
راشد اشرف کے مرتب کردہ مجموعہ کی تیسری کتاب "سبزۂ بیگانہ" کے مصنف، شیخ عبدالشکور اپنا تعارف یوں کراتے ہیں "ادبی دنیا میں اس بندۂ عاجزکا کوئی مقام نہیں اور نہ ہی کسی ادبی جماعت سے منسلک ہوں۔ البتہ اکثر شعر اور ادبا سے ہمیشہ یاد اللہ رہی ہے۔ اس بات پر نازاں ہوں کہ تقسیم برصغیر سے پہلے غریب خانہ پرکبھی ادبی محافل کا انعقاد ہوتا رہتا تھا۔ ان محفلوں میں شیریں مقال شعرا تشریف لاکر کمال فن کے جوہر دکھاتے تھے۔ تقسیم برصغیر کے بعد ہندوستان کے بہت سے شعرا پاکستان تشریف لائے اور پہلے لاہور ہی کو اپنا مسکن بنایا۔ یہ خوش گو شعرا غریب خانہ پر قدم رنجہ فرمانے اور اپنے کلام سے دلوں کو لبھانے لگے۔ ان ذی شان حضرات کی صحبت سے کچھ نہ کچھ کسبِ فیض کیا۔
پروفیسر منور مرزا "ذکرِ شیخ" کے عنوان سے فرماتے ہیں کہ شیخ عبدالشکور کے طرز تحریر میں جاذبیت ہے، بیان میں ٹھہراؤ ہے، رکھ رکھاؤ ہے اور رومانی لب ولہجہ ہے۔ عاشقانہ قرینہ بھی ہے، درد و سوزِ آشنائی بھی موجود ہے۔ تھوڑی بہت تماش بینی بھی دکھائی دیتی ہے، تاہم ان کی زندہ دلی جو ان کی شخصیت کا غالب اور مادی عنصر ہے، ان کی تحریروں میں نظر نہیں آتی۔ ان کی تحریریں لطف سے خالی نہیں مگر ان میں شیخ صاحب کی مزاجی شوخی نہیں ملتی۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ شیخ عبد الشکور کے سوانحی مضامین جو ان کی اس کتاب کا حصہ ہیں بہت دلچسپ اور معلومات افزا ہیں۔ اس کا پہلا مضمون، " ایک سماجی شعبدہ باز" جس سے شیخ صاحب کی مضمون نگاری کی ابتدا ہوئی حقیقی واقعات پر مشتمل ہے۔ ان واقعات میں خود ان کا اپنا ایک کردار شامل ہے۔ یہ کشمیر کے سابق وزیر اعظم شیخ عبداللہ کی بیوی رانی کماری کا واقعہ ہے۔ شیخ عبدالشکور کے لکھے علامہ اقبال، مولانا گرامی، صلاح الدین احمد کے شخصی خاکے اور والیٔ کابل غازی امان اور لارنس آف عریبیہ، تقدیر امم جیسے تاریخی نوعیت کے مضامین معلومات افزا ہیں۔ "یاد رفتگاں۔ مبارک حویلی" ثقافتی روایات کی آئینہ دارکہانی ہے اسی طرح گوہر جان کے اس حجرے کا ذکر ہے جس میں اس نے داغ پہ غزل سنائی تھی اور داد سمیٹی تھی۔
وہ جانا پھیرکر چتون کسی کا
ہمارے ہاتھ میں دامن کسی کا