معراج اقبال
"معراج اقبال" ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کی مرتب کی ہوئی اقبالیات کے حوالے سے ایک کتاب ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے پیدائش سے وفات تک علامہ اقبال کی زندگی کے مختلف ادوارکا ذکرکیا ہے، ان کے فکری ارتقا پر روشنی ڈالی ہے اور ان کی شاعری، ان کے دینی، ملی اور سیاسی نظریات کا جائزہ اس انداز سے لیا ہے کہ ان کی پوری شخصیت سامنے آجاتی ہے۔
ڈاکٹر ہارون الرشید لکھتے ہیں " اقبال نے زندگی کے ہر لمحے کو ایک حصار مقصدیت میں رکھا۔ انھوں نے اپنے خطبات اور شعری تخلیقات سے کائنات ادب کو منور رکھا۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ حکمت قرآن کی دانائیاں اور عشق رسولؐ کی آشنائیاں اقبال کے شعری وجدان کی شناخت بنیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اقبال اپنے افکارکی دنیا میں امید اور دل ربائی کی ایسی کہکشاں ثابت ہوئے کہ جس کی روشنی آسمان ادب کو منورکر رہی ہے۔ اقبال نے لفظوں کو حسن اور سوچ کو رعنائی کا ایسا اثاثہ دیا جس نے افکار اقبال کو حیات جاوداں بخشی۔ "
ڈاکٹر تبسم اقبال کے سفر زندگی سنگ میل بیان کرتے ہیں۔ وہ 9 نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ مشن اسکول سے مڈل اور پھر میٹرک کا بھی یہیں سے پاس کیا۔ اسی دوران ان پر اشعار کا نزول ہونے لگا اور انھوں نے داغؔ دہلوی سے سلسلہ تلمذ قائم کیا۔ پھر جب گیارہویں جماعت میں داخلہ لیا تو شادی، شاعری اور شعوری پختگی آسمان حقیقت پر یکساں نظر آنے لگے۔ اقبال سیالکوٹ سے لاہور آ گئے۔ یہاں انھوں نے بی اے کیا اور پھر فلسفے میں ایم اے۔
ڈاکٹر ہارون الرشید لکھتے ہیں "فروری 1900ء میں علامہ اقبال نے انجمن حمایت اسلام کے سالانہ جلسے میں اپنی معروف نظم "نالۂ یتیم" پیش کی۔ اس نظم کی شہرت نے اقبال کے طائرفکرکی رکاوٹیں دورکر دیں۔ یوں محسوس ہونے لگا کہ ان کے خیال و فکرکی راہ میں صرف آسمان حائل ہے اور وہ آسمانوں کی بلندیوں سے بھی کہیں آگے جانے کے متمنی ہیں۔ "
علامہ اقبال کی زندگی میں ان کے سفر یورپ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ڈاکٹر ہارون الرشید لکھتے ہیں "کیمبرج میں ان کا قیام ان کے لیے شعور و آگہی کا خزینہ ثابت ہوا۔ ان کی سوچ کے زاویے تبدیل ہوئے۔ انھیں لندن کی آب و ہوا اور ماحول نے وطنیت سے قومیت کا راستہ دکھایا۔ اپنی مٹی سے محبت اور اسی مٹی پر چلنے کا شعور بیدار کیا۔ "
سفر یورپ میں اقبال نے میونخ یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ لِِنکن اِن سے بیرسٹری مکمل کی اور پنجاب چیف کورٹ سے قانونی پریکٹس کی اجازت ملی۔
علامہ اقبال کا پہلا فارسی شعری مجموعہ "اسرارِ خودی" 1915ء میں منظر عام پر آیا۔ ڈاکٹر ہارون الرشید لکھتے ہیں "خودی اقبال کی شاعری کا محور ہے اور "اسرارِ خودی" خودی کے وہ سربستہ راز ہیں جنھیں اقبال نے وا کیا ہے۔ " اسرارِ خودی" کی تکمیل میں اقبال کے اردوکلام کی جھلک، نظریہ فن، فلسفۂ حیات اور شعری رویے نمایاں ہیں۔ " ڈھائی سال بعد اقبال کا دوسرا فارسی شعری مجموعہ "رموزِ بے خودی" شایع ہوا۔
پروفیسر ہارون الرشید لکھتے ہیں کہ اقبال نے "رموزِ بے خودی" میں ایک اہم نکتہ یہ پیش کیا ہے کہ حقوق اللہ توحید اور رسالت کی رسی مضبوطی سے تھام کر ہی ہم ایک قوم بن سکتے ہیں۔ مثنوی "رموزِ بے خودی" کا ہر حصہ فکری اور فنی اعتبار سے بہت زرخیز ہے۔
علامہ اقبال کا ایک اور فارسی مجموعہ "پیامِ مشرق"1915ء میں منظر عام پر آیا۔ اس کی اہمیت یہ ہے کہ یہ مغرب کو اہل مشرق کا پیغام ہے۔ اس پیغام کو عام قاری تک پہنچانے کے لیے علامہ نے اس کا دیباچہ اردو میں تحریر کیا ہے۔
1924ء میں " بانگِ درا " کی اشاعت سے اقبال کی اردو شاعری کو مزید شہرت ملی۔ "بانگِ درا" کو تین ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے دورکا کلام 1905ء تک، دوسرا 1908ء تک اور تیسرا اس کے بعد کتاب کی اشاعت تک۔ ڈاکٹر ہارون الرشید کہتے ہیں کہ "بانگِ درا" میں ادوار کی تقسیم سے اقبال کے ذہنی ارتقا کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ہم عصر شعرا کی طرح اقبال نے اپنی شاعری کی ابتدا غزل سے کی، پھر نظم گوئی کی طرف آئے۔
"اقبال کا فارسی کلام کا مجموعہ "زبورِ عجم" 1927ء میں شایع ہوا۔ یہ اقبال کی فلسفیانہ سوچ کا آئینہ ہے۔ ان کے مشاہدات و تجربات اور فنِ شعر کی ریاضت کا کمال ہے۔ عقلی و قلبی تعلق کی طرف ایک اہم پیشرفت ہے۔ "
1926ء میں اقبال پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ وہ تین سال اس کے ممبر رہے اور اسمبلی میں ہر مسئلے پر ہمیشہ اپنی آزادانہ اور بے لاگ رائے کا اظہارکرتے رہے۔ ڈاکٹر ہارون الرشید لکھتے ہیں کہ علامہ اقبال نے عام آدمی کے مسائل کو اسمبلی میں اٹھایا۔ سب سے زیادہ کام مسلمانوں کی فلاح اور بہبود کے حوالے سے کیا۔
ڈاکٹر ہارون الرشید لکھتے ہیں "علامہ اقبال نے اپنے فلسفیانہ افکار جہاں شاعری جیسی لطیف صنف سخن کے ذریعہ دنیا تک پہنچائے ہیں وہاں انھوں نے نثر میں بھی ان خیالات کا موثر انداز میں اظہارکیا ہے۔
ڈاکٹر ہارون الرشید نے اپنی کتاب میں ہندوستان کے آئینی مسائل پر لندن میں ہونے والی گول میزکانفرنس میں علامہ اقبال کی شرکت، پھر اٹلی کا سفر، مسولینی سے ملاقات، قاہرہ کا سفر، پھر موتمر عالم اسلامی کے اجلاس میں شرکت کے لیے بیت المقدس روانگی کا ذکر کیا ہے۔
علامہ اقبال کا فارسی تخلیقی شاہکار "جاوید نامہ" 1932ء میں منظر عام پر آیا۔ ڈاکٹر ہارون الرشید فرماتے ہیں کہ جاوید نامہ کی فطری روانی اور خیالات کی سبک خرامی اقبال کا طرہ امتیاز ہے۔ جاوید نامہ انسان، خاندان، قبیلے اور قومی پکار کا باعث ہے۔ 1932ء کے اختتام پر اقبال تیسری گول میزکانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے۔
واپسی میں پیرس میں ممتاز فرانسیسی دانشور برگساں سے جا کر ملے، پھر اسپین گئے۔ وہ قرطبہ میں قیام پذیر ہوئے، مسجد قرطبہ کی زیارت کی، اندلس کی یادگار غرناطہ، اشبیلیہ اور طلیسطلہ کو جا کر دیکھا۔ ان کی نظم "مسجد قرطبہ" جو "بالِ جبریل" میں شامل ہے، اسی سفرکی یادگار اور ان کے جذبات کی آئینہ دار ہے۔ اگلے سال اقبال نے کابل کا دورہ کیا۔ نادرشاہ سے تنہائی میں ملاقات ہوئی۔ وہ بابر کے مقبرے پر بھی گئے۔
علامہ اقبال کے سفر زندگی کی روئیداد جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر ہارون الرشید لکھتے ہیں "حضرت علامہ کو 1934ء میں گردوں کے درد کا مرض لاحق ہو گیا تھا جو طوالت اختیار کرتا چلا گیا۔ انھیں دنوں ان کی بائیں آنکھ میں موتیا کی شکایت سامنے آئی۔ داہنی آنکھ تو بچپن میں ہی بصارت سے محروم ہو چکی تھی۔ اس کے باوجود انھوں نے اپنی علمی مصروفیات کو جاری رکھا۔ 1935ء میں ان کا دوسرا اردو شعری مجموعہ "بالِ جبریل" شایع ہوا۔ اسی زمانے وہ بغرض علاج دو مرتبہ بھوپال بھی تشریف لے گئے۔ اگلے سال ان کا اردو شعری مجموعہ "ضربِ کلیم" شایع ہوا۔
ڈاکٹر ہارون الرشید حیات اقبال کے آخری دنوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں "علامہ نیم دراز بستر پر لیٹے کسی گہری سوچ میں ڈوبے رہتے۔ ان دنوں بھی آنے والوں کا تانتا بندھا رہتا۔ دمہ کی وجہ سے سانس لینے میں انھیں خاصی دشواری ہوتی۔ کھانسی کا دورہ پڑتا تو نیم بے ہوش ہو جاتے۔ بلغم میں خون آنے لگا تھا۔ 20 اپریل 1938ء کی شب ان کے معالجین جاوید منزل میں اکٹھے ہو گئے۔ انھوں نے یہ حالت دیکھی تو سخت مایوسی کا اظہار کیا۔ اب آخری لمحات آ چکے تھے۔ 21 اپریل جمعرات کا دن تھا۔ صبح پانچ بج کر چودہ منٹ پر اقبال اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملے۔
"علامہ اقبال نے اپنی زندگی میں آرزو کی تھی:
کوکبم را دیدۂ بیدار بخش
مرقدے در سایۂ دیوار بخش
رب العزت نے ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اس مرد درویش کو بادشاہی مسجد کی مشرقی دیوار کا شرف عطا کیا جس کے زیر سایہ قوم کا درد اپنے سینے میں محسوس کرنے والا یہ مرد مومن ابدی نیند سو گیا۔ "