حیاتِ خسرو
محمد سعید احمد مارہروی کو یہ افسوس تھا کہ ہندوستان کی سب سے بڑی دیسی زبان یعنی اردو میں ہندوستان کی بلبل ہزار داستان، فخر الشعرا و علما، صاحب اختراع و ایجاد حضرت امیر خسروؒ کے حالات زندگی موجود نہ تھے چنانچہ انھوں نے ایک چھوٹی سی کتاب "حیاتِ خسرو" کے عنوان سے لکھ دی۔ یہ کتاب 1909میں لاہور سے شایع ہوئی۔
سعید احمد لکھتے ہیں "یہ صاحب کمال جس کا نام نامی آفتاب کی طرح روشن اور جسکی تصنیف و تالیف اور کلام معجز نظام کسی تعریف و توصیف کا محتاج نہیں ہے، دماغ انسانی کے کمالات کا ایک اعلیٰ نمونہ تھا۔ اس باکمال کی سوانح عمری میں جو علمی اور اخلاقی خوبیوں سے مرصع ہے، یہ امر بھی بہت دلچسپ ہے کہ اقلیم تصنیف و تالیف میں ہماری زبان اردو کی عالی شان عمارت کا بنیادی پتھر اسی کے مبارک ہاتھوں سے رکھا گیا تھا۔"
منقول ہے کہ جب خسرو پیدا ہوئے تو ان کے والد امیر سیف الدین محمود ان کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر ایک صاحبِ حال مجذوب کے پاس لے گئے۔ انھوں نے جب خسرو کو دیکھا تو فرمایا کہ یہ لڑکا عارف باللہ اور یگانۂ روزگار ہوگا۔ قیامت تک اس کا نام روشن رہے گا اور یہ خاقانی سے دو قدم آگے بڑھ جائے گا۔
سعید احمد لکھتے ہیں "ساتویں صدی ہجری کے شروع میں جب چنگیز خان مغلوں کے ظلم و ستم اور کشت و خون کے سیلاب نے اسلامی دنیا کو تہ و بالا کر رکھا تھا، ہزاروں اعلیٰ اور ادنیٰ خاندان اپنے وطن اور گھر بارکو خیرباد کہہ کر پریشانی اور بدحواسی سے بھاگے پھرتے تھے، امیر سیف الدین محمود نے سرزمین ہند میں قدم رکھا اور قصبہ مومن آباد میں جو اب پٹیالی کے نام سے موسوم ہے سکونت اختیار کی۔ نصیبے کی یاوری نے سیف الدین کو در بادشاہی تک پہنچا دیا۔ دہلی کے تخت پر مسلمان شمس الدین التمش متمکن تھا۔ خسرو پٹیالی سے دہلی پہنچ گئے۔ آٹھ برس کی عمر تک باپ بھائیوں کی صحبت میں تحصیل علم و کمال کرتے رہے پھر باپ کی کسی لڑائی میں شہادت کے بعد نانا نواب عماد الملک نے انھیں اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیا۔ ان کی توجہ سے خسرو نے تھوڑی مدت میں جملہ علوم میں سند فضیلت حاصل کرلی۔
امیر خسرو کا اپنا بیان ہے کہ انھوں نے بارہ برس کی عمر میں رباعی کہنی شروع کی۔ فضلا اور علما ان کو سن کر تعجب کرتے اور ان کے تعجب سے ان کا شوق ابھرتا تھا۔ وہ فرماتے ہیں۔"میرا یہ عالم تھا کہ کثرت شوق کے اثر سے شام سے صبح تک چراغ کے سامنے مثل قلم سر نگوں رہتا تھا اور رات کو مطالعہ میں مصروف۔ یہاں تک کہ نظر میں دقت پیدا ہوئی اور کلام کی باریکیاں خیال میں آنے لگیں۔"
سعید احمد لکھتے ہیں کہ جب امیر خسرو علم وفضل کے کمالات ظاہری سے فیضیاب ہوچکے تو کمالات باطنی کے حصول کا شوق ہوا۔ اس وقت دہلی میں حضرت سلطان المشائخ حضرت نظام الدین محبوب الٰہیؒ کے فیض و برکت کے چشمے جاری تھے اور ایک عالم ان سے سیراب ہو رہا تھا۔ امیر خسرو بھی نہایت صدق دل سے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور شرف بیعت حاصل کرکے زمرۂ مریدان میں شامل ہوگئے۔ حضرت سلطان المشائخ نے ان کی عبادت وریاضت کو دیکھ کر ان کی طرف خصوصی توجہ فرمائی۔ ایک دن حضرتؒ نے امیر خسرو سے پوچھا، "شغل عبادت کا کیا حال ہے۔ انھوں نے عرض کیا، آخر شب میں چند روز سے رونا آتا ہے، حضرت نے فرمایا، الحمدللہ کچھ ظہور ہونا شروع ہوا۔ پھر چند روز کے بعد حضرت سلطان المشائخ نے امیر خسرو کو خرقۂ خلافت عطا فرما کر ترک اللہ کا خطاب مرحمت فرمایا۔ کبھی محبت سے صرف تُرک کہتے۔
منقول ہے کہ جب حضرت سلطان المشائخؒ بعد نماز عشا پلنگ پر تشریف لے جاتے تو اس وقت آپ کے دست مبارک میں تسبیح دی جاتی تھی اور اس کے بعد سوائے امیر خسرو کے کوئی شخص آپکی خدمت میں نہیں جا سکتا تھا۔ امیر خسرو جاتے اور حضرت کے روبرو بیٹھ جاتے۔ جب آپ ارشاد فرماتے تُرک! آج کی کیا خبر ہے؟ اس وقت یہ ہر قسم کی حکایتیں، دن بھر کے واقعات اور دیگر راز ونیازکی باتیں بیان کرنا شروع کرتے۔
سعید احمد مارہروی لکھتے ہیں "صنائع قدرت نے امیر خسرو کے دل و دماغ میں عقل و دانائی کا وہ بیش بہا نورانی جوہر موجزن کیا تھا کہ یہ صاحب کمال نہ صرف ایک بلند خیال شاعر اور انشا پرداز ہی تھا بلکہ حامل جامع علوم ظاہری و باطنی اور منبع کمالات صوری و معنوی تھا۔ جس فن کو دیکھئے اسی میں اسے کمال حاصل تھا۔ تاریخ کے میدان میں وہ ایک صاحب نظر مورخ اور فقہ کے عالی شان دربار میں ایک دانشمند فقیہ، تصوف کے رنگ میں ثانی شبلیؒ و بایزیدؒ اور فن موسیقی میں کامل فن اور شہرہ آفاق تھا۔ فن موسیقی میں آپکی طبع رسا کو ایسا دخل تھا کہ بڑے بڑے صاحب کمال موسیقی داں اور گویے آپکی شاگردی کو فخر سمجھتے تھے۔ فن موسیقی میں کئی چیزیں آپکی ایجاد کردہ ہیں : بہت سے راگ ایجاد کیے اور گیت بنائے۔ قوالی کی روش جو آج کل جاری ہے یہ بھی حضرت امیر خسرو کی ایجاد ہے۔ حضرت سلطان المشائخ کو سماع کا بہت شوق تھا اس لیے امیر خسرو نے صوفیانہ طریقۂ سماع میں بہت سی نئی باتیں ایجاد کرکے اس کو قوالی کے نام سے موسوم کیا۔"
سعید احمد لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک گویے اور امیر خسرو میں موسیقی اور شاعری کے متعلق بحث ہو پڑی۔ دربار شاہی کا گویا کہنے لگا کہ موسیقی کو علم حکمت میں شمار کیا گیا ہے اور موسیقی دلوں پر خاص اثر ڈالنے کا ذریعہ ہے۔ امیر خسرو نے جواب دیا کہ میں علم موسیقی اور شاعری دونوں سے واقف ہوں، موسیقی سے اگرچہ دلوں پر ایک خاص اثر ہوتا ہے لیکن شعر اصل حکمت ہے۔ موسیقی کو شعر کی ضرورت ہے لیکن شعر کو موسیقی کی ضرورت نہیں۔ اس کے لطائف موسیقی کے بغیر دل پر اثر کرتے ہیں۔
سعید احمد کہتے ہیں کہ حضرت امیر خسرو کے حالات زندگی کی نہایت دل آویز تصویر ان کی نیک نام زندگی اور تصنیف و تالیف اور ان کا بینظیر کلام ہے جس کی وجہ سے اس صاحب مال کو بقائے دوام حاصل ہے۔
حضرت امیر خسرو عربی، فارسی، ترکی اور ہندی چار زبانوں کے فاضل تھے۔ نظم اور نثر دونوں میں یکساں کمال رکھتے تھے۔ آپکی کثرت تصنیف و تالیف کا حال اس سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ آپکی صرف ان کتابوں کی تعداد جو نظم کی صنف سے ہیں ننانوے اور آپکے اشعار کی تعداد علاوہ کلام ہندی کے چار اور پانچ لاکھ کے درمیان بتائی جاتی ہیں۔ حاجی لطف علی خاں آذر، صاحب تذکرہ آتش کدہ کا بیان ہے کہ اس تعداد میں سے ایک لاکھ اشعار خود میری نظر سے گزرے ہیں۔ ضیا الدین برنی تاریخ فیروز شاہی تحریر کرتے ہیں کہ امیر خسرو کی تصنیف و تالیف اس قدر ہیں کہ گویا نظم و نثر میں انھوں نے ایک کتب خانہ تصنیف کردیا ہے۔"