اڑتے ہوئے تابوت
رمضان کا مہینہ اپنے اختتامی مرحلہ میں تھا، جمعتہ الوداع کی نماز کے بعد ہمیں سوشل میڈیا سے ڈھکے چھپے لفظوں میں خبر ملی کہ پی آئی اے کا جہاز جو لاہور سے کراچی آ رہا تھا، فنی خرابی کی وجہ سے رن وے پر اتر نہ سکا اور قریبی آبادی میں گر کر تباہ ہو گیا۔ سن کر ہر درد مند دل خون کے آنسو روتا رہا۔
پوری فضا سوگوار اور بے بسی کے ماحول نے ہر سو اپنے پاؤں پھیلا لیے۔ عید میں تین یا چار دن باقی تھے اس لیے اس بدقسمت پرواز میں ایسے مسافر سوار تھے جو بڑے عزم و جذبہ اور عقیدت کے ساتھ عید الفطر کی خوشیاں اپنے پیاروں کے ساتھ منانے آ رہے تھے۔ کہا جارہا ہے کہ اس جہاز میں کل 150 مسافروں کی گنجائش تھی مگر کورونا وائرس کی وجہ سے اس میں کم کرکے کل 99 مسافر سوار ہوئے۔
ان 99 مسافروں میں دو خوش قسمت مسافر ظفر مسعود اور محمد زبیر معجزانہ طور پر بچ گئے۔ ایک مسافر جناب ظفر مسعود حال ہی میں بینک آف پنجاب کے صدر کی حیثیت سے تعیناتی ہوئی تھی اور ان کی شخصیت کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ملک کی فلم اور ٹی وی کے نامور اداکار منور سعید کے بیٹے اور فلسفی، دانشور اور مفکر سید محمد تقی نقوی امروہوی کے نواسے ہیں اور برصغیر کے دو عظیم شعرا رئیس امروہوی اور جون ایلیا ان کے نانا کے سگے بھائی تھے۔ ظفر مسعود کی بینکنگ کے حوالہ سے یہ بات منظر عام پر آئی ہے کہ وہ کسی کمرشل ادارے کے وہ واحد اور منفرد سربراہ ہیں جنہوں نے کورونا وائرس کے مشکل ترین حالات میں کام کرنے والے بینک ملازمین کو مراعات کی مد میں ایک اضافی بونس کی ادائیگی کو ممکن بنایا۔
جب ہم شاہراہ فیصل پر اسٹار گیٹ اور جناح ٹرمینل کی طرف جانے والی ایک طویل شاہراہ کو عبور کرتے ہوئے بائیں ہاتھ پر ملیر چھاؤنی جانے والی سڑک پر سفر کر رہے ہوں تو آپ دیکھیں گے کہ سڑک کے بائیں جانب ایئر پورٹ کی وہ حدود ہیں جہاں تمام انٹر نیشنل اور ڈومیسٹک فلائیٹس لینڈ کرتی ہیں اور دوسری جانب گنجان آبادی پر مشتمل ماڈل کالونی ہے اور اس کے چند قدم کے فاصلہ پر شہر کی سب سے بڑی فوجی چھاؤنی ملیر ہے یعنی لینڈنگ رن وے اور اس آبادی کے درمیان فاصلہ صرف پیدل کی مسافت کا ہے۔
بات یہی تک ختم نہیں ہو جاتی اسی رن وے سے متصل خالی جگہوں پر بلند و بالا رہائشی عمارات حال ہی میں تعمیر کی گئی ہیں۔ انٹرنیشنل ہوا بازی قوانین کے مطابق کسی بھی ایئر پورٹ سے رہائشی آبادی کا فاصلہ پندرہ کلو میٹر سے کم نہیں ہونا چاہیے اور یہی صورت حال لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی بھی ہے۔ وہاں بھی لینڈنگ رن وے کے چند فاصلہ پر رہائشی آبادی ہے۔
پوری دنیا میں ایسا کہیں بھی نہیں ہے یہ صرف پاکستان میں ہوتا ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر فضائی حادثات اندرون ملک پروازوں میں ہی کیوں وقوع پذیر ہوتے ہیں جب کہ ان پروازوں کا دورانیہ صرف ایک گھنٹہ یا ڈیڑھ گھنٹہ سے زیادہ نہیں؟ اب تک کی موصولہ مصدقہ اطلاعات اور اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دس سالوں کے دوران ڈومیسٹک فضائی آپریشن کی تاریخ کا یہ پانچواں فضائی حادثہ ہے۔
ان پانچوں حادثوں میں یہ واحد منفرد حادثہ ہے جو کسی گنجان آبادی پر گر کر تباہ ہوا ہے جو بلا شبہ حادثہ نہیں بلکہ ایک بھیانک اور اندوہناک سانحہ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ وہا ں کے رہائشی بے یار و مدد گار بے گھر ہو چکے ہیں یا اپنوں کی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں، جب کہ جنگوں کے دوران بھی ان اخلاقی قوانین کا خیال رکھا جاتا ہے کہ رہائشی بستیوں پر حملہ سے کسی حد تک اجتناب کرنا ہے خواہ جنگ شدید جارحانہ ہی کیوں نہ ہو۔
ماڈل کالونی کا جائے حادثہ بھی کسی گھمسان جنگ کا نقشہ پیش کر رہا تھا۔ بات حادثہ کی نہیں حادثات بھی زندگی کا حصہ ہیں مگر ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ آبادیوں پر مسافر بردار جہازوں کا آبادیوں پر گر کر تباہ ہونا ایک فکری عمل ہے۔ فضائی حادثہ کی وجہ انسانی غلطی ہو یا جہاز میں فنی خرابی یا کچھ اور وجوہات ہوں ہمیں اس سے غرض نہیں کیونکہ یہاں گزشتہ مسافر بردار طیاروں کے حادثات نے جو تاریخ رقم کی ہے وہ ہمارے مقتدر اشرافیائی حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ سے کم نہیں۔ سانپ گزر گیا لکیر پیٹ رہے ہیں کے مصداق حادثہ کے ذمے داران حسب روایت ایک دوسرے کو مورو الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ بلا شبہ انسان کی جان افضل ترین ہے اس کی جتنی قدر و منزلت ترقی یافتہ دنیا سمجھتی ہے۔ وہا ں تو ایسے واقعات پر ذمے داران یا تو اپنے عہدوں سے دستبردار ہو جاتے ہیں یا خودکشیاں کر لیتے ہیں۔
اگست 1985 میں جاپان کی ڈومیسٹک فلائٹ آپریشن میں ہونے والا انسانی غفلت کے نتیجہ میں ہمارے ذمے داران کو کچھ سیکھنا چاہیے۔ مجھے یاد ہے! جاپان ایئر لائن کا ایک بوئنگ طیارہ 747 کریو عملہ سمیت 524مسافروں کے ساتھ ٹوکیو سے جاپان ہی کے دوسرے شہر اوساکا کے لیے روانہ ہوا۔ پرواز سے بارہ یا پندرہ منٹ کے بعد طیارہ زمین پر گر کر تباہ ہو گیا جن میں چار ایسے خوش نصیب مسافر تھے جو معجزانہ طور پر بچ گئے اور بقیہ 520مسافر دائم اجل ہو گئے۔ دیکھا جائے تو ہوا بازی کی دنیا کی تاریخ کا یہ ایک انوکھا اور منفرد حادثہ تھا۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ سات سال قبل اس جہاز کی دم میں کوئی خرابی پیدا ہوئی تھی جسے ٹھیک تو کر لیا گیا مگر مرمت کے کسی گوشہ میں کمی رہ گئی۔
یہ کمی وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید بڑھتی گئی جو اس حادثہ کا سبب بنی۔ جاپان چونکہ ایک ترقی یافتہ ملک تھا ان کے لیے یہ حادثہ ایک چیلنج بن گیا تھا اور انھوں نے انسانی غفلت کے نتیجہ میں ہونے والے ہولناک حادثہ سے بہت کچھ سیکھا۔ حادثہ ہوتے ہی ایئر لائن کے سربراہ نے نہ صرف اپنے عہدہ سے استعفے دے دیا بلکہ ایئر لائن کے مرمت و نگہداشت کے انچارج اور ایک ذمہ دار فلائٹ انجینئر نے اپنی اس غفلت کو کماحقہ تسلیم کرتے ہوئے خود کشیاں کیں۔ اس ضمن میں ایئر لائن کی انتظامیہ نے اپنے اولین ذمہ داری سمجھتے ہوئے مسافروں کے لواحقین کو 6.7ملین ڈالر کی خطیر رقم بطور ہرجانہ ادا کی۔ یہی وجہ ہے کہ جب سے اب تک جاپان ایئر لائن کا کوئی فضائی حادثہ سننے کو نہیں ملا۔
یہ سانحہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب کورونا کی وبا نے پوری دنیا کو اپنے لپیٹ میں لیا ہوا ہے، قومی ایئر لائن بھی دوسرے اداروں کی طرح ٹھیکے داری کی مرہون منت ہے۔ پورا ملک ٹھیکیداری، بھکاری اور لینڈ مافیا معیشت کی زد میں ہے۔ کارپوریٹ کلچر کا تقریباً زوال آ چکا ہے۔