دل کی فکر انگیز باتیں
آپ میرے کالم کا عنوان کو پڑھ کر متجسس اور فکر مند ضرور ہونگے۔ ہوسکتا ہے آپکے پاکیزہ خیالات کے ایک گوشے میں اس عنوان کا پس منظرکسی دکھ بھری دنیا کی داستان ہو، نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ یہ ایک ابدی حقیقت ہے کہ صحت سے بھرپور انسان کی زندگی ان ہی سانسوں کی مرہون منت ہے۔
انسان کی زندگی کیا ہے؟ یہ ایک پھول کی مانند ہے، صرف ایک سانس کی بدولت اس کا وجود ہے۔ دانشورکہہ گئے کہ انسان فانی ہے۔ زندگی اور موت صرف اور صرف اللہ تعالی کی پاک ذات کے دائرہ اختیار میں ہے، وہ جسکو چاہے زندگی کی نعمتوں سے سرفراز کر دے اور جسکو چاہے اپنے ہا ں بلا لے۔ دنیاوی زندگی تو محض ایک دھوکہ ہے۔
انسانی صحت اللہ کا عطا کردہ ایک انمول اور قیمتی تحفہ ہے جسکی جتنی قدرکریں، کم ہے۔ گزشتہ ماہ راقم السطورکو بائی پاس کے مرحلے سے گزرنا پڑا۔ ڈاکٹری رپورٹ کے مطابق اس خاکسارکے دل کی تینوں شریانیں بند تھیں۔ میں شکرگزار ہوں اللہ کا جس نے مجھے دوبارہ زندگی عطا کی اور بالخصوص ان حضرات کا جنھوں نے اپنا قیمتی وقت نکال کر اس ناچیزکی عیادت کی اورجلد صحت یابی کے لیے دعاؤںکا ورد بھی کیا۔ ان ہی دعاؤں کے طفیل اب اس قابل ہوا ہوں کہ قلیل عرصے کی غیر حاضری کے بعد آپ سے مخاطب ہوں۔ انسان درحقیقت ظاہری اور باطنی اعضا کا مجموعہ ہے۔
باطنی اعضا کے حرکات و سکنات اور رد عمل سے انسان بے خبر رہتا ہے اس وقت تک جب تک اس کو تکلیف نہ پہنچے۔ انسانی بیماریوں کا سلسلہ تو زمانہ قدیم ہی سے چلا آ رہا ہے۔ ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ حضرت انسان کی زندگی سادہ تھی اور لوگ کم ازکم اپنے عمرکی ایک صدی تو مکمل کر لیا کرتے تھے، لوگ جفا کش تھے۔ دمہ، تپ دق، کالی کھانسی جیسے امراض ہوا کرتے تھے جو شاذ و نادر ہی کسی کسی کو وہ بھی ضعیف العمری کے سبب پیدا ہو جایا کرتے تھے۔
دل کے عارضہ کی بیماری اتنی عام نہ تھی۔ اس بیماری کا وجود تو تھا مگر یہ بیماری بالخصوص امیر وکبیر، اشرافیہ اور متمول افراد تک محدود تھی جسکا علاج پاکستان میں میسر نہ تھا بلکہ یہ صرف ایسے ممالک میں تھا جوکسی حد تک ترقی کی منزلیں طے کرچکے ہوتے تھے۔ ہمارے معاشرے کا لمحہ فکریہ کہہ لیجیے کہ اب دل کے امراض میں خاندان کا ہر تیسرا آدمی متاثر ہو رہا ہے۔
ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ سرزمین پاکستان کا ہر شہری اسٹنٹ اور بائی پاس یافتہ ہو چکا ہے۔ پاکستان میں روز بروز بڑھتے ہوئے دل کے امراض کے سبب یہاں جنرل اسپتالوں کی جگہ امراض قلب کے اسپتال قائم ہوچکے ہیں جن کی تعداد نجی شعبے میں بہت زیادہ ہے جن کا شمار ملک کے مہنگے ترین اسپتالوں میں ہوتا ہے۔ اس کے علاج معالجے میں لاکھوں روپے لاگت آتی ہے۔ امراض قلب کے امراض میں اضافہ کی بنیادی وجہ جسم میں موجود فشار خون کے عمل کی بے ترتیبی ہے جو کولیسٹرول، یورک ایسڈ، شوگر جیسے مہلک مخفی امراض کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے یہ عموما پندرہ سال تک آپکی باڈی میں پچاس سال کی عمر سے پرورش پانا شروع کردیتا ہے اور اس عرصے میں آپ قطعا بے خبر ہوتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ اس عمرکے بعد ہر شخص کو انجیوگرافی کے ذریعے اپنی شریانوں کا اسٹیٹس معلوم کر لینا چاہیے۔ اب انسان کی زندگی کی مجموعی عمرکی حد پچاس سال ہوچکی ہے۔ یوں پچاس سال سے زائد زندگی بونس کا درجہ اختیار کرگئی ہے۔ یہ سب کچھ کیوں ہے؟ کبھی آپ نے سنجیدگی سے اس اہم نقطہ پر غورکیا؟ ایسا سب کچھ حضرت انسان کی اپنی بیشمارکوتاہیوں کے سبب ہوا ہے۔ ہمارا زندگی کا شیڈول یکسر بدل چکا ہے۔ حکم خداوندی ہے کہ اپنے معمول کے تمام کام دن کی قدرتی روشنی میں تمام کر لو۔ وقت کی قدر و منزلت سے ہم بہت دور ہوچکے ہیں۔
وقت اور اللہ تعالی کی عطا کردہ نعمتوں کا ضیاع کرنے میں ہم چیمپئین، اخلاقیات سے ہم عاری، اپنے ہاتھ اور زبان سے دوسرے کی عزت کا سودا کرنے میں ہم عادی ہوچکے ہیں۔ ماضی بعید میں بیشتر اشیائے خوردنی میں استعمال ہونے والی اجزا خالص اور انسانی صحت کے تقاضوں کو بروئے کار لاتے ہوئے تیارکی جاتی تھیں۔ دولت کی ہوس میں زائد منافع خوری اور ملاوٹ کی بجائے انسانی صحت کو ملحو ظ خاطر رکھا جاتا تھا، بے فکری تھی۔ گھروں میں اسٹیل کے برتنوں کی جگہ چکنی مٹی کے برتن کا استعمال عام تھا۔
پلاسٹک کے برتنوں کی جگہ عام دھات سے تیارکردہ برتنوں کا استعمال تھا۔ پلاسٹک کی تھیلیوں کی جگہ کاغذکی تھیلوں کا استعمال تھا۔ جسمانی محنت اور پیدل چلنے کا رواج تھا۔ کیمیکل ٹیکنالوجی اس نہج پر نہ تھی جتنی کے آج ہے۔ اگر تھوڑی بہت تھی بھی تو اس کا استعمال اشیائے خوردنی میں استعمال کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ چند قدم پیدل چلنے کی بجائے ہم گاڑیوں سے اپنے گھروں کے دروازوں پر اترنے کو ترجیح دیتے ہیں اور یوں ہم نے گاڑیوں کو ایمبولینس یا میت گاڑیوں کی شکل دے دی ہے۔ جدید طبی علاج و معالجہ کی سہولیات کی بجائے حکمت اور دیسی ٹوٹکے کا دور دورہ تھا۔ زمانہ کی ترقی کے ساتھ ساتھ حکمت کے ساتھ ہومیو پیتھک علاج کا دور بھی شروع ہوگیا تھا۔
عمرانیات کے علوم کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ سائنس و ٹیکنالوجی کی جدید ترقی نے ایلوپیتھک ایجادکر دی جس کے تحت بدن کے باطنی اعضا کی سرجری فوری طور پر عمل میں آئی۔ سالہا سال کی علمی تحقیق کے بعد ٹیسٹنگ کی جدید مشینیں ایجاد ہوکر منظر عام پر آئیں اور یوں علاج معالجہ میں استعمال ہونے والی ادویات تیارکرنیوالی فارما انڈسٹری کا وجود ممکن ہوا۔ ہمارے پیارے نبی آنحضرت محمد ﷺ نے بھی دل کی شریانوں کی بھی تین اقسام بتلائی ہیں یعنی دل کے زندہ اور مردہ ہونے بھی تین واضح نشانیاں ہیں۔
وہ دل جو روحانیت والا ہے، اس کے لیے بھی تین پائپ لائنیں جاری ہیں، ایک قرآن، دوسرا ذکرکی مجالس اور تیسری تنہائی میں اللہ کی یاد ہے۔ اگر تینوں بند ہیں تو دل مرچکا ہے، اگر تینوں زندہ ہیں تو دل صحتمند، توانا، نورانی اور اللہ کا محبوب ہے۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہے " اللہ نہ تمہارے مال دیکھتا ہے اور نہ تمہارے پیسے کو اور نہ ہی تمہاری شکل کو دیکھتا ہے۔ اللہ صرف تمہارے دل اور تمہارے اعمال دیکھتا ہے" اگر تیرا دل قرآن میں نہیں لگتا تو تیرا دل مردہ ہے۔ مردہ دل کے ساتھ مرگیا تو موت بڑی خوفناک چیز ہے۔ موت سے خوفناک اور کوئی شے نہیں ہے۔ جو دنیا میں آیا ہے، اسے واپس لوٹ جانا ہے۔ کسی کی جلدی اورکسی کی بدیر واپسی کا عمل پورا ہوجاتا ہے۔
ایک طبعی اور دوسرے حادثاتی موت کہلاتی ہے۔ طویل بیماری کے باعث ہونے والی اموات اور یکایک ہونے والی حادثات کی شکل میں ہونے والی اموات شامل ہیں جس میں عمر کی کسی قسم کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ قابل فکر پہلوجو ہمیں دعوت فکر دے رہا ہے وہ ہے انسانو ں کے طرز زندگی میں روپے پیسے کی دوڑ اور روز بروز بڑھتی ہوئی دولت کی ہوس جو انسان کی رگوں میں گھس کر پورے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ ارشاد نبوی ہے " انسان کے جسم کے دو مقام ایسے ہیں جنھیں خدا نے اپنی قیام گاہ کہا ہے۔" شہہ رگ اور دل" کوشش کرو کہ یہ ہمیشہ صاف و پاکیزہ رہیں۔