تیری بربادیوں کے مشورے ہیں
گزشتہ صدی کے ترقی پسند سامراج دشمن اور موجودہ صدی کے روشن خیال سامراج دوست دانشور جو اسلام اور مسلمانوں کی تضحیک و تمسخر کے لیے طرح طرح کے تاریکی چٹکلے تخلیق کرتے تھے، یوں لگتا ہے آج وہ خود ان تاریخی چٹکلوں کی عملی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔
ایک تاریخی چٹکلہ جسے بچپن سے سنتے سنتے کان پک چکے ہیں وہ یہ تھا کہ "جب ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کیا تو مسلمان اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ سوئی کے ناکے پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں"۔ اس احمقانہ اور بے جوڑ بات کا اطلاق اگر آج کے معاشرے پر کیا جائے تو وہ ایسے ہوگا کہ" جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو پاک ٹی ہاؤس لاہور میں بیٹھے ہوئے جوش ملیح آبادی اور فیض احمد فیض اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ طوطا۔ سے ہوتا ہے یا۔ سے"۔
خیر وہ دونوں تو شاعر تھے اور شاعروں کا جنگ سے کیا علاقہ۔ لیکن آج کا روشن خیال سامراج دوست دانشور تو خود کو کسی بھی مدرسے کے فارغ التحصیل عالم سے زیادہ دین کی سمجھ رکھنے والا تصور کرتا ہے، کسی عالمی یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والے افراد سے زیادہ معاشیات، سیاسیات، سماجیات حتیٰ کہ طبیعات اور فلکیات پر دسترس رکھنے والا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نواز شریف، زرداری، عمران خان، محمود خان اچکزئی، مولانا فضل الرحمن، اختر مینگل، سراج الحق اور دیگر سیاستدانوں سے زیادہ باشعور، عقل وہوش کا حامل اور معاملہ فہمی کا دعوی کرتا ہے۔
میرا آج کا دانشور تو ہر فن مولا ہے۔ وہ کسی بھی وزیر اعظم سے زیادہ حکمرانی کے گر جانتا ہے، کسی بھی آرمی چیف سے بہتر آئینی ذمہ داریوں کا ادراک رکھتا ہے اورکسی بھی چیف جسٹس سے زیادہ اسے انصاف کی فراہمی کے طریقے آتے ہیں۔ عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیاں، پڑوسیوں سے تعلقات، خارجہ پالیسی کی درست تدوین یہ سب اسکے ایک کالم کی مار ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ آج اسوقت جن خطرات کے بادلوں میں یہ پورا خطہ گھر چکا ہے اور شاید ہی علاقے کا کوئی ملک ایسا ہو جس نے ان خطروں کی بو محسوس کرنے کے بعد خود کو متنبہ نہ کیا ہو۔
لیکن ہلاکو کے حملے میں فرشتوں کی بحث کرنے والے علماء کی طرح آج کا یہ روشن خیال سامراج دوست دانشور اس غم میں الجھا ہوا ہے کہ عید ایک روز کیوں نہیں ہوتی، مریم اور حمزہ میں سے کس کا مستقبل روشن ہے، بلاول کب آزاد ہوگا، عمران خان کب مایوس ہو کر سیاست چھوڑ جائے گا، اسٹیبلشمنٹ سے نجات کب ملے گی، یہ اور ایسے لاتعداد موضوعات ایسے ہیں جو روز ٹیلی ویژن ٹاک شوز میں زیر بحث آتے ہیں اور ان پر روزانہ قلم کی سیاہی خرچ ہوتی ہے۔
لیکن آپ گزشتہ دوماہ کے اخبارات اٹھا لیں یا ٹیلی ویژن ٹاک شوز کی بحثیں سن لیں، آپکو شاید ہی کوئی سر پھرا شخص ایسا ملے، جو ان عالمی اور علاقائی حالات کا ادراک کرتے ہوئے قوم کو خبردار کر رہا ہو کہ تمھاری ساری کی ساری بحثیں اور سیاسی چالبازیاں دھری کی دھری رہ جانے والی ہیں۔
ایران امریکہ تنازعہ کو لے کر ہی دنیا میں ایک شور برپا ہے، لیکن اس شور میں چین کا یہ موقف ہے کہ یہ امریکی جنگی بحری بیڑے ایران کے لیے نہیں بلکہ چین کی اقتصادی اور معاشی پیش قدمی کو روکنے کے لیے خلیج فارس میں آئے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں اگر چین اور سی پیک کا ذکر کبھی آیا بھی تو زیادہ سے زیادہ اس حد تک کے کون سا صوبہ اس سے فائدہ اٹھا رہا ہے اور کون سا محروم رہ گیا ہے۔
بہت کم دانشوروں نے چین کے اس عالمی اقتصادی منصوبے کو اس تناظر میں دیکھا ہے کہ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوگیا تو اسکے نتیجے میں دو تہائی دنیا سے امریکہ اور اسکے حواریوں کی بالادستی ختم ہو جائے گی۔ اسی لیے گزشتہ دس سالوں سے امریکہ کے عالی دماغ پالیسی سازوں کی توجہ صرف اور صرف اس منصوبے کو ناکام بنانے کی جانب مرکوز ہے۔
پاکستانی میڈیا میں گذشتہ ہفتے کی ہوشربا اطلاعات کے طوفان میں کیا کسی کو یہ خبر بھی سننے کو ملی کہ امریکی افواج کے ہیڈ کوارٹر پنٹاگون نے ایک لاکھ اٹھائیس ہزار ڈالر کی لاگت سے ہندو چینی (Indo-Pacific) ممالک کے لئے ایک حکمت عملی بنوائی اور یکم جون کو اسے دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ یہ معاشی نہیں بلکہ جنگی حکمت عملی ہے۔ امریکی جنگی محاذ کے لیے بھارت سے لے کر آسٹریلیا تک ایک نئی حد بندی کی گئی ہے۔ اس ہندو چینی خطے کا نام گزشتہ سال اگست میں اسوقت سامنے آیا جب امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اس علاقے میں امریکی موجودگی کو بہتر بنانے کے لیے 30 کروڑ ڈالر کا اعلان کیا۔
اس اعلان کے ایک ماہ بعد ستمبر 2018ء میں امریکہ نے بھارت کے ساتھ ایک بہت بڑے عسکری و اطلاعات کے معاہدے پر دستخط کیے جسے "COMCASM" کا نام دیا گیا۔ اسی معاہدے کے تحت دسمبر 2018ء میں بھارت نے امریکہ کی مدد سے سمندروں کی نگرانی کے لیے "میری ٹائم انفارمیشن فیوژن سینٹر" قائم کیا۔ اس نئی حکمت عملی کا پہلا باب اس پورے خطے میں امریکی مفادات کی تاریخ بیان کرتا ہے۔
یہ خطہ جس میں اسوقت امریکہ کے 200 بحری جہاز، 2000 جنگی طیارے، آبدوزیں اور تین لاکھ ستر ہزار فوجی موجود ہیں، لیکن اس کے باوجود امریکی فوج یہ سمجھتی ہے کہ یہ تعداد کم ہے اور دوست ممالک کو بھی ساتھ ملا کر قوت میں اضافہ کرنا چاہئے۔ یہ دوست ممالک جن میں جاپان، گوام، جنوبی کوریا، آسٹریلیا، فلپائن، تھائی لینڈ، سنگاپور، تائیوان، نیوزی لینڈ، بھارت، سری لنکا، مالدیپ، بنگلہ دیش، ویتنام، انڈونیشیا، ملائیشیا، برونائی اور کمبوڈیا شامل ہیں۔ اس نئی صف بندی میں امریکہ نے پاکستان کو اپنے دوستوں کی فہرست سے خارج کردیا ہے۔ اس حکمت عملی کا دوسرا باب اہم ترین دشمن، چین کے بارے میں ہے جسے ایک "رجعت پسند" قوت کہا گیا ہے۔
حکمت عملی بتاتی ہے کہ چین اپنی معیشت، ٹیکنالوجی اور فوجی قوت کے استعمال سے علاقے میں اثر و نفوذ بڑھا چکا ہے اور اسکو مزید ایسا کرنے سے روکنا اس خطے میں موجود امریکی افواج کی اولین ذمہ داری ہے۔ لیکن سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ حکمت عملی میں تذکرہ تو ہندو چینی کے علاقے کا ہو رہا ہے لیکن رپورٹ میں دوسرا بڑا دشمن روس کو قرار دیا گیا ہے جو یورپ میں واقع ہے۔
روس کو "دوبارہ قوت پکڑنے والا مہلک کردار" (Revitalized malign Actor) بتایا گیا ہے۔ اسکی بڑھتی ہوئی فوجی صلاحیت کو امریکہ اور یورپ کے لیے خطرے کی گھنٹی قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ اور چین مل کر ہندو چینی علاقے سے امریکہ کو بے دخل کر دیں گے۔ پینٹاگون کی حکمت عملی یہ بتاتی ہے کہ تمام دوست ممالک (جن میں پاکستان شامل نہیں ) کو اس بات پر اکٹھا کیا جائے کہ "fight and win together"لڑو اور اکٹھے فتح حاصل کرو۔ اسوقت دنیا کا ہر اخبار اور نیوز چینل جنگ کی خبروں کے سوا کچھ اور سوچ ہی نہیں رہا۔
جون کی نو تاریخ کو عالمی سیکورٹی اور فوجی تاریخ کے ماہر سبسٹین روبلین(Sebastain Roblien) نے ایک طویل مضمون میں امریکہ کی ان جنگی تیاریوں کا ذکر کیا ہے جنکا ہدف روس اور چین کو دنیا کے نقشے سے غائب کرنا ہے۔ ان تیاریوں کو اس نے چھ حصوں میں تقسیم کیا ہے اور اسے (Big six) کہا ہے۔ چین کے ہاں ایک جنگی ماحول بن چکا ہے۔ روس کے اخبارات اسے نئی عالمی جنگ کا آغاز سمجھ رہے ہیں۔ ایسی جنگ جو یوکرین سے شروع ہو سکتی ہے۔
ایران میں ریلیاں ہیں جو جنگی ترانے گا رہی ہیں لیکن اس آنے والی ساری جنگ میں جس ملک کی سرزمین تختہ مشق بننے والی ہے اور جو چین کا سی پیک پروگرام کی شہ رگ ہے، اور جسے کاٹنا بہت ضروری خیال کیا جا رہا ہے، اس ملک یعنی پاکستان کا دانشور، سیاستدان اور صحافی آج واقعی ان بغداد کے نام نہاد فلسفیوں کی طرح دکھائی دیتا ہے جو یہ بحث کر رہے تھے کہ سوئی کے ناکے پر کتنے فرشتے آتے ہیں۔
کسی کو اندازہ ہے کہ ہمارے چاروں طرف سمندروں میں جنگ کے عفریت گھوم رہے ہیں۔ لیکن میرا دانشور اس بات میں مصروف ہے کہ عمران خان کے یو ٹرن کتنے ہیں یا پھر مریم اور حمزہ میں کون قیادت کا اہل ہے۔ بغداد کے دانشور تو مانتے تھے کہ ہم کچھ نہیں جانتے لیکن میرے ملک کا روشن خیال دانشور تو سب کچھ جاننے کا دعویٰ کرتا ہے۔