سراج الحق بمقابلہ عرفان صدیقی (2)
سراج الحق صاحب نے ایک ایسا اساسی اور بنیادی نوعیت کا مشورہ دیا ہے، جس میں اس مملکتِ خداداد پاکستان کی لاتعداد سیاسی اور انتظامی بیماریوں کا علاج پوشیدہ ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی تقرری کے لئے وزیر اعظم کا صوابدیدی اختیار ختم ہونا چاہئے اور یہ تقرری چیف جسٹس آف پاکستان کی طرح (سنیارٹی کی بنیاد) پر ہونی چاہئے۔
میں نے آغاز میں ہی سراج الحق صاحب کے اس بیان کی مکمل حمایت کر دی تاکہ کالم میں دلائل کی یکسوئی قائم رہے۔ اس مکمل حمایت کے باوجود مجھے اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ سراج الحق صاحب کی یہ خواہش کم از کم موجودہ عالمی اور ملکی حالات کے تناظر میں کبھی بھی پوری نہیں ہو سکتی، مگر ایک اچھی خواہش اور اُمید کو سینوں میں پروان چڑھانے میں کیا حرج ہے۔
پاکستان کی پچھتر سالہ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ "قانوناً" پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ کو تعینات کرنے کا اختیار بظاہر گورنر جنرل، صدر یا وزیر اعظم کو حاصل رہا ہے لیکن یہ اختیار کچھ "ناقابلِ بیان" عوامل کی رسیوں میں ہمیشہ جکڑا رہا۔
لیاقت علی خان جب 26 مئی کو امریکہ کے ڈھائی ماہ کے دورے سے واپس لوٹے تو ان کی "زنبیل" میں لاتعداد وعدوں کے کھلونے تھے، جن کی قیمت اس ملک نے آہستہ آہستہ ادا کرنا تھی۔ امریکی اس دوران اپنے منظورِ نظر کا انتخاب کر چکے تھے جس نے آئندہ "حقیقت میں" (De'-fecto) سربراہ بننا تھا۔
میں نے "حقیقت میں حکمران" اس لئے لکھا ہے کیونکہ تمام امریکی صدور اپنی خفیہ خط و کتابت میں پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ کو ہی پاکستان کا اصل حکمران لکھتے رہے اور اب تو یہ تمام خط و کتابت امریکی سکیورٹی آرکائیوز نے طشت ازبام کر دی ہے۔ اس بڑے عالمی کردار کے علاوہ گزشتہ کافی عرصے سے کچھ دوست و مرّبی ممالک کا کردار بھی اب ڈھکا چھپا نہیں رہ گیا۔ ان ممالک سے ہم مصیبت کی گھڑی میں مدد حاصل کرتے ہیں۔
ویسے بھی جدید سیاسیات میں ریاست کا اہم ترین جزو "اقتدارِ اعلیٰ" ہوتا ہے اور دنیا اس بات پر متفق ہے کہ دنیا کی کمزور ریاستوں کا کوئی"اقتدارِ اعلیٰ" نہیں ہوتا اور کسی حد تک پاکستان ان میں سے ایک ہے۔ اسی لئے کسی بھی ملک میں جو بھی اصل مقتدر یا "حقیقت میں حکمران" ہوتا ہے، اسے مسند پر بٹھانے اور مسند سے اُتارنے، دونوں صورتوں میں عالمی طاقتیں خصوصاً امریکہ ضرور شریک ہوتا ہے۔
اس عالمی جکڑ بندیوں کے اندر رہتے ہوئے اگر ہم یہ فیصلہ کر لیں کہ پاکستان کی فوج کا سربراہ ان کی "رینک اینڈ فائل" سے ویسے ہی آئے گا، جیسے تمام لیفٹیننٹ جنرل ترقی کرتے ہوئے پہنچتے ہیں اور ان ترقیوں کا کسی سیاسی سربراہ کو علم تک نہیں ہوتا، تو پھر شاید یہ مسئلہ عمر بھر کے لئے حل ہو جائے۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی ایسی ہی شفاف تعیناتی خود سپریم کورٹ نے اپنے مشہور "ججز سنیارٹی کیس" کے فیصلے کے ذریعے حاصل کر لی۔ الجہاد ٹرسٹ کیس والا یہ فیصلہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس اجمل میاں، جسٹس فضل الٰہی خان، جسٹس منظور حسین سیال اور جسٹس میر ہزار خان کھوسہ نے دیا، جس میں یہ اُصول طے کر دیا گیا کہ جو جج سب سے سینئر ہوگا، وہی چیف جسٹس بننے کا حق دار ہوگا۔ اس بینچ کے سربراہ خود سجاد علی شاہ کو بے نظیر بھٹو نے جونیئر ہونے کے باوجود اپنے صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے چیف جسٹس لگایا تھا۔
یہ بہت معرکہ خیز دور تھا۔ اسی سجاد علی شاہ کے خلاف نواز شریف کی مسلم لیگ سپریم کورٹ پر چڑھ دوڑی تھی اور ججوں کو جان بچانے کے لئے اپنے چیمبرز میں گھسنا پڑا تھا۔ ججز سنیارٹی کیس کو بنیاد بنا کر کوئٹہ میں سپریم کورٹ رجسٹری کے تین ججوں ناصر اسلم زاہد، خلیل الرحمن اور ارشاد حسن نے اپنے ہی چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو سنیارٹی کی بنیاد پر نااہل قرار دے دیا تھا۔ اسی دوران ناراض نواز شریف نے فاروق لغاری سے سجاد علی شاہ کو برطرف کر کے قائمقام چیف جسٹس لگانے کے لئے کہا لیکن شریف النفس فاروق لغاری اپنی عزت سمیٹے مستعفی ہو گئے اور رفیق تارڑ صدر منتخب کر لئے گئے جنہوں نے سپریم کورٹ رجسٹری کوئٹہ کے فیصلے کے مطابق سجاد علی شاہ کو 23 دسمبر 1997ء کو برطرف کر کے اجمل میاں کو چیف جسٹس لگا دیا۔
آج پچیس سال گزرنے کے بعد قوم کم از کم دوبارہ کبھی اس بحران سے نہیں گزری کہ آئندہ چیف جسٹس کون ہوگا اور وہ کس کا منظورِ نظر ہوگا۔ عرفان صدیقی صاحب نے عدلیہ کے متنازعہ فیصلوں کو جواز بنایا ہے۔ کاش وہ ان تمام ججوں کے کیریئر پر ایک نظر دوڑائیں اور پھر ان کو ہائی کورٹ کا جج لگانے والے ایسے تمام وزرائے اعظم کے دستخط ملاحظہ فرمائیں تو انہیں اپنے ممدوح نواز شریف کے دستخط سب سے زیادہ ملیں گے۔
تمام وزرائے اعظم نے اپنی پارٹیوں سے سیاسی وابستگی رکھنے والے وکلاء کو جج لگایا اور پھر ان سے جیسی توقعات وابستہ کی تھیں، اگر انہوں نے اس کے برعکس کام کیا تو انہی کو مطعون کر دیا جیسے کوئی غلام حکم عدولی کرے تو بہت غصہ آتا ہے۔ ججوں کی تقرری کی خشتِ اوّل اقرباء پروری، سفارش اور سیاسی وابستگی کی بنیاد پر نہ رکھی جاتی تو آج آپ یہ گلہ کبھی نہ کرتے۔ آج بھی اگر ججوں کی تعیناتی کا نظام سول سروس کی طرح براہِ راست میرٹ پر ہو اور اعلیٰ عدالتوں میں وکلاء کا کوٹہ مکمل ختم کر دیا جائے تو پاکستان کی عدلیہ میں ایک سنہرا دور لایا جا سکتا ہے۔
سیاسی مداخلت اور وزیر اعظم کے صوابدیدی اختیار نے اس ملک کے سب سے قابل ادارے سول سروس کو جس طرح تباہ و برباد کیا ہے، اس کی کہانی المناک ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر 1973ء تک اس ملک پر جو بھی سیاسی افتاد آئی، حکومتیں بدلیں مارشل لاء آئے لیکن سول سروس کے مضبوط ڈھانچے نے اس ملک کو جو 1947ء میں ایک پسماندہ اور بے یار و مددگار ملک تھا، اسے دنیا میں ایک ایسے مقام پر لا کھڑا کیا کہ انگلینڈ کی گریجویشن میں ترقیاتی معاشیات(Development Economics) کے کورس کی کتاب میں پاکستان صنعتی اور زرعی ترقی کی ایک مثال کے طور پر پڑھایا جاتا تھا۔
چودہ اگست 1947ء کو یہ سول سرونٹ جو کامن پن نہ ہونے کی وجہ سے جھاڑیوں سے کانٹے چن کر فائلیں مرتب کیا کرتے تھے انہی کی شبانہ روز محنتوں نے صرف 25 سال میں پاکستان کو دنیا بھر میں صنعتی، زرعی اور اقتصادی شعبے میں ایک روشن مثال بنا دیا اور پاکستان پر کل قرضہ بھی صرف 3.5 ارب ڈالر تھا۔ لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء میں جو متفقہ آئین اس ملک کو دیا اس میں سے وہ تمام آئینی ضمانتیں (Guarantees) ختم کر دیں جو ایک سول سرونٹ کو حاصل تھیں جس کی وجہ سے وہ اپنی ایمانداری کو برقرار رکھ سکتا تھا۔
بھٹو کے آئین نے ان سول سرونٹس کو سیاسی آقائوں کے رحم و کرم پر ڈال کر انہیں ان کا غلام بنا دیا اور آج اس ادارے کی تباہی اور بربادی سب کے سامنے واضح ہے۔ ایک ناکام، ناکارہ اور سیاسی آقائوں کے اشارے پر چلنے والی سول سروس جس میں نہ ایمانداری ہے اور نہ اخلاق، نہ خود پر یقین ہے اور نہ ہی اپنے مستقبل پر بھروسہ۔
پاکستان کی افواج ابھی تک صرف ایک آرمی چیف کی تعیناتی کے علاوہ باقی ہر معاملے میں کسی بھی قسم کے تنازعے سے پاک ہیں۔ یہ عہدہ بھی اس لئے متنازعہ ہوا کیونکہ طالع آزما جرنیلوں نے اقتدار پر قبضہ کر کے اسے خود متنازعہ بنایا۔ پچھتر سال ان کی نرسری میں سیاستدان دانا دُنکا چُگتے رہے۔ اگر یہ خود برسراقتدار نہیں ہوتے تھے تو جس کے سر پر ان کا "ہُما" بیٹھ جاتا وہ اقتدار میں آ جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک میں گزشتہ پچاس سالوں میں ایک ایسی تباہی پھیلی، ایسا زوال آیا کہ اب چاروں اور ماتم برپا ہے۔
جب تک سیاستدان اس مرکز طاقت کو رام کرنے کے چکر میں رہیں گے، یہ وہ خواہ اس کا سربراہ لگا کر کریں یا ان سے مدد کی بھیک مانگ کر، اور جب تک سول بیوروکریسی کبھی سیاستدانوں اور کبھی فوجی سربراہوں کی دستِ نگر، زیرِ سایہ اور محتاجِ محض رہے گی یہ ملک نہ ترقی کر سکتا ہے اور نہ ہی پُرامن رہ سکتا ہے۔
پاکستانی فوج کے سربراہ کی تعیناتی بھی ویسا ہی معمول کا عمل ہونا چاہئے جسے ایک پاکستان کے چیف جسٹس کی تعیناتی ہے ورنہ ہر تین سال بعد رونق تو خوب لگتی رہے گی۔ (ختم شد)