سیندِک سے ریکوڈک تک (4)
ریکوڈک کا آسٹریلوی کمپنی بی ایچ پی کے ساتھ ہونے والا یہ معاہدہ 19 جولائی 1993ء کو بلوچستان میں نگران حکومت کے آنے کے صرف دس دن کے اندر اندر منظور کرلیا گیا۔ اس معاہدے پر عمل درآمد یکم فروری 1994ء کو شروع ہونا تھا، لیکن معاہدے کے آغاز سے ساڑھے چار ماہ قبل بی ایچ پی کے وکیل نے بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین عطاء جعفر کو ایک خط لکھا۔
اس خط کے ذریعے مانگی گئیں بے شمار مراعات اور رولز میں ترامیم بلوچستان حکومت نے مان لیں جسکے بعد 20 جنوری 1994ء کو حکومت بلوچستان نے بی ایچ پی کے لئے بلوچستان منرل رولز (BMR) میں تیرہ شقوں میں نرمی (Relax) کا حکم نامہ جاری کردیا۔ اس حکم نامے نے بنیادی معاہدے کی شکل ہی بدل کر رکھ دی۔ اسکے تحت اب کمپنی صرف دس کلو میٹر تک محدود نہیں رہی تھی بلکہ اسے اس پورے علاقے میں بلا شرکت غیرے (Monopoly) کا درجہ مل گیا۔
یوں دس کلو میٹر پر کام کرنے والا معاہدہ 8 دسمبر 1996ء تک ایک ہزار مربع کلومیٹر تک پھیل گیا۔ کچھ اور کمپنیوں کو بھی اس علاقے میں سروے کا لائسنس ملا تھا، جن میں سے ایک امریکی کمپنی کا نمائندہ چاغی میں میرے پاس آیا اور اس نے بی ایچ پی پر خصوصی عنایات کے بارے میں شکایت کرتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے صوبائی حکومت کو کچھ علم نہیں ہے یا پھر کرپشن اور کک بیک کی وجہ سے حکومت ان سے ملی ہوئی ہے۔
بی ایچ پی کمپنی پر اسقدر عنایات کی گئیں کہ اسے 34 لاکھ ایکڑ علاقے پر سونے کی تلاش پر عائد معمولی فیس جوتین سال کے لئے چونتیس لاکھ بنتی تھی، اسے بھی محکمہ معدنیات و صنعت نے وصول نہ کیا۔ سیندک جب چینیوں کے حوالے ہوگیا تو میں ایران میں ایک میٹنگ سے واپسی پر ریکوڈک پر رکا تاکہ دیکھوں کہ وہاں موجود سروے ٹیم کے سائنسدانوں کی اس ذخیرے کے بارے میں کیا رائے ہے۔ کیونکہ سرکاری میٹنگوں میں بڑے اہلکار کاروباری مفاد کے تحت بہت کچھ چھپاجاتے ہیں۔ میں نے ان سے معصومیت کے ساتھ سوال کیا کہ کیایہاں سیندک جتنے ذخائر ہونگے تو انکی ٹیم کا چیف ایک دم بولا، سیندک! اگر ہم نے سیندک ہی ڈھونڈنا تھا تو ہم ایک ہفتے بعد ہی یہاں سے اپنا بوریا بستر سمیٹ لیتے۔
یہ دنیا میں کم ازکم تیسرے بڑے سونے اور تانبے کے ذخائر ہیں۔ مشرف کی حکومت آگئی اور چاغی ضلع سے ہی تعلق رکھنے والے سابق چیف جسٹس امیرالملک مینگل کو گورنر بلوچستان لگا دیا گیا۔ 1993ء کے نگران دور میں معاہدہ کرنے والی کمپنی کو شاید ایک بار پھر کسی نگر ان دور کا ہی انتظار تھا۔ امیرالملک مینگل صاحب سے بھی ایک بار پھر معاہدے میں بہت سی ترامیم کی درخواست کی گئی۔
یہ ترامیم حیران کن تھیں اور ایسی تبدیلیوں کی کاروباری معاہدات کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ سب سے اہم یہ کہ دستاویز کے اصل دستخط کنندہ ہی بدل دیے گئے۔ اب یہ معاہدہ بی ڈی اے کی بجائے حکومت بلوچستان اور بی ایچ پی کے درمیان تھا۔ مقصد یہ تھا کہ حکومت سے براہ راست جب چاہیں رولز میں ترمیم کروا لی جائے۔ لیکن جس شق نے اس معاہدے کی شکل بدل کر رکھ دی، وہ یہ تھی کہ بی ایچ پی کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ دنیا بھر میں کسی بھی کمپنی کو اپنا پارٹنر بنا سکتی ہے یا اسے اپنے تمام حقوق بھی بیچ سکتی ہے۔ یہاں سے اس عالمی کارپوریٹ مافیا کی عیاری کا راستہ کھلا۔
بی ایچ پی نے آسٹریلین کمپنی منکورہ (Mincora) جو کان کنی کے شعبے سے وابستہ تھی، اسے تانبے کی دریافت والی کمپنی بنانے کے لیے کہا۔ اپریل 2000ء میں تیتھیان کاپر کمپنی بنا دی گئی۔ اسکے ساتھ چلی اور کینیڈا کی دو کمپنیوں Antofagasta اور Barrick Goldنے مل کر برطانیہ میں ایٹا کاما (Atacama) نام سے ایک اور کمپنی بنائی اورپھر اس کمپنی نے آسٹریلیا کے سٹاک ایکسچینج سے تیتھیان کمپنی کے سو فیصد حصص خرید لیے۔ اب یہ سب تیتھیاں کمپنی کے نام کو استعمال کر سکتے تھے۔
یہاں سے ریکوڈک میں دنیا بھر کے کارپوریٹ مافیا کا عیارانہ مفاد منسلک کر دیا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ اگر حکومت اس غیر مناسب ڈیل پر اعتراض بھی کرے تو عالمی سطح پر اسے دبا دیا جائے۔ اس کے بعد، 2006ء میں بی ایچ پی جس نے 1993ء میں اصل معاہدہ کیا تھا، اپنا بوریا بستر سمیٹ کر چلی گئی اور اس کی جگہ تیتھیان کمپنی نے لے لی۔ اب یہ ساری کہانی بلوچستان کی عالمی تجارتی معاملات میں ناتجربہ کار بیورو کریسی اور سادہ لوح عوام کو مکارانہ طریقے سے لوٹنے کی داستان ہے۔
تیتھیان کمپنی نے پاکستان میں اپنا دفتر 2006ء میں قائم کیا۔ اسکے پاس اب تک کی تمام سروے رپورٹ موجود تھیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ ایک پارٹنر کی حیثیت سے یہ تمام رپورٹیں حکومت بلوچستان کو دکھاتی کیوں کہ وہ اسکی برابر کی شریک تھی۔ لیکن انکو خفیہ رکھ کر کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ارد گرد کے باقی تمام علاقوں کے لائسنس حکومت بلوچستان کو واپس کر دیے اورصرف EL-5 کو اپنے پاس رکھا۔
یہ علاقہ تیرہ ہزار مربع کلومیٹر پر مشتمل تھا۔ تیتھیاں کمپنی کے پاس موجود چودہ سال کی محنت اور سروے نے بتا دیا تھا کہ سونا کہاں اور کتنا موجود ہے، اس لئے اس نے صرف وہی علاقہ منتخب کیا۔ یہ رپورٹ آج تک بلوچستان حکومت کو نہیں دکھائی گئی۔ ابھی تک تیتھیان کمپنی کے پاس علاقے میں کان کنی کرکے باقاعدہ سونا اور تانبہ نکالنے کا کوئی معاہدہ یا لائسنس موجود نہیں تھاصرف سروے کا لائسنس تھا۔ حکومت بلوچستان کو یہ پورا حق حاصل تھا کہ وہ سروے کی رپورٹ کے مطالعے کے بعد جب یہ اندازہ کر لے کہ وہاں کس قدر سونا موجود ہے تو پھر کان کنی کا لائسنس جاری کرے۔ اسکے بغیرکوئی معاہدہ تو اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف تھا۔
اگر سونے کی مقدار کا علم نہ ہو تو کمپنی کچھ بھی نہیں بتا کر سودا کر سکتی تھی اور ایسا عالمی اصول تجارت کے منافی تھا۔ تیتھیان نے 2007ء میں لائسنس کے لیے بلوچستان حکومت کو درخواست دی اورساتھ ہی ایک ڈرافٹ بھی جمع کروایا جس میں کہا گیا کہ ہم بلوچستان حکومت کو صرف دو فیصد رائلٹی دیں گے، جبکہ عالمی سطح پر کان کنی کی رائلٹی چھ فیصد ہوتی ہے۔
نواب اسلم رئیسانی کی حکومت آگئی۔ اس وقت بلوچستان کے عوام، سیاستدانوں اور بیورو کریسی کو اندازہ ہو چلا تھا کہ ان کے ساتھ کیا مکاری کی جارہی ہے۔ اسی دوران ریکوڈک سے تین کلومیٹر دور ایک کمپنی تنجیل (Tanjeel) نے ایک چھوٹے سے علاقے میں کام کرنے کے بعد ایک سروے رپورٹ جمع کروائی اور بتایا کہ یہاں کے ذخائر دس ارب ڈالر کے ہیں اور انکی عمر بیس سال کے قریب ہے۔ جبکہ تیتھیان کے پاس تو اس سے ہزار گنا زیادہ رقبہ تھا۔
جب رپورٹ کو غور سے دیکھا گیا تو پتہ چلا کہ تیتھیاں کمپنی نے الاٹ شدہ تیرہ ہزار مربع کلومیٹر میں سے صرف چھ مربع کلومیٹر کے بارے میں اپنی رپورٹ حکومت کو جمع کروائی تھی اور باقی علاقے کے بارے میں خاموشی اختیار کی تھی۔ یہاں سے کمپنی کے ساتھ دھواں دار میٹنگوں کا آغاز ہوا اور 24 دسمبر 2009ء کو حکومت بلوچستان نے کمپنی کو کان کنی کا لائسنس جاری کرنے سے انکار کردیا۔
اسکے ساتھ ساتھ دنیا بھر کی عالمی خفیہ تنظیموں میں یہ رپورٹیں گردش کرنے لگیں کہ تیتھیان کمپنی کو سروے کے دوران بہت بڑی تعداد میں یورینیم اور دیگر دفاعی دھاتوں کے ذخائر بھی ملے ہیں، جسے جیولوجیکل سروے اور دیگر کام کرنے والی کمپنیوں کی معلومات سے ملا کر دیکھا گیا تو اس نے سب کو چونکا دیا۔ اس سارے معاملے کو اس ثبوت نے مزید الجھا دیا کہ پورے بلوچستان میں شورش کی وجہ سے کوئی پنجابی یا سندھی بھی ان علاقوں میں بی ایل اے کی دہشت گردی کے باعث سفر نہیں کر سکتا تھا جبکہ تیتھیان کمپنی کے امریکی، آسٹریلوی اور برطانوی شہری بغیر کسی سیکورٹی پورے بلوچستان میں گھومتے پھرتے تھے۔ جس سے یہ نتیجہ نکلنا آسان تھا کہ یہاں ایک دن وہی کیا جائے گا جو انگولا اور دیگر افریقی ملکوں میں کیا گیا کہ آزادی کی تحریکوں کو سپورٹ کرکے معدنیات کے کچھ پہاڑ گوریلوں کو دے کر وہاں سے لیتھیم سستے داموں خرید کرانہیں اسلحہ بیچا گیا اور دہشت گردوں کو مسلسل سپورٹ کیا گیا۔
تیتھیاں کو لائسنس دینے سے انکار سے لے کر سپریم کورٹ کے فیصلے تک سب کچھ ملکی سالمیت، خودمختاری اور آزادی کی ایک داستان ہے۔ جسٹس افتخار چوہدری کا فیصلہ کسی بھی خود مختار ملک کے لیے باعث فخر ہے۔ لیکن اس فیصلے کے بعد نااہلی، بدیانتی اور بے حسی کی ایک طویل داستان شروع ہوتی ہے۔ زرداری اور نوازشریف دونوں کی حکومتوں نے جس طرح عالمی عدالت میں عدم توجہی سے اس اثاثے اور قومی دولت کو لٹنے دیا، وہ بے حسی اور بددیانتی کا بہت بڑا باب ہے۔ اب بھی میرے ملک کا میڈیا چھ ارب ڈالر جرمانے کو رو رہا ہے۔
میں کئی ایک عالمی کمپنیوں میں سے کم از کم ایک کو جانتا ہوں جنکے پاس ریکوڈک سے چند کلومیٹر دور کا لائسنس موجود ہے اور وہ تیتھیان کا پورا جرمانہ ادا کرنے کو بھی تیار ہیں اور پہلے سال پاکستان کو اس سے دوگنی رقم بھی دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ لیکن مجھے اندازہ ہے کہ اس ملک کی قسمت میں ابھی ایسی ایماندارانہ ڈیل بہت دور ہے۔ ابھی عمران خان کے اردگرد عالمی سودی، عیار کارپوریٹ مافیہ کا گھیرا بہت سخت ہے۔ (ختم شد)