طالبان ایران بھائی بھائی اور اسرائیلی عزائم
میں ذاتی طورپر ایسی اصطلاحات استعمال کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ مذاہب کے مابین یقینا تعصبات بھرے تنائو دنیا بھر میں کئی صدیوں سے موجود ہیں۔ تاریخ میں اس کی وجہ سے بار ہا تخت یا تختہ والی جنگیں بھی ہوئیں۔ نائن الیون کے بعد امریکہ اور یورپ کے بے شمار نسل پرست مسلمانوں کو بلااستثناء "انتہا پسندتخریب کار" بھی ٹھہرارہے ہیں۔ دور حاضر کی جنگیں تاہم میری دانست میں بنیادی طورپر ریاستی مفادات کی وجہ سے سنگین تر ہوجاتی ہیں۔
بہرحال ہمارے وطن کے خلاف مذموم سازشوں کا ذکر ہو تو "یہود وہنود" ان کے کلیدی کردار تصور ہوتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کی حالیہ فتح اسی باعث وطن عزیز میں امریکہ کے علاوہ بھارت کی ذلت ورسوائی بھی ٹھہرائی جارہی ہے۔ بھارتی میڈیا بھی جس انداز میں طالبان کو ان دنوں منفی خبریں گھڑنے کے لئے استعمال کررہا ہے وہ کئی پاکستانیوں کی شادمانی کو ٹھوس جواز فراہم کررہا ہے۔ بھارتی میڈیا میں افغانستان کے حالیہ واقعات کی رپورٹنگ کا مشاہدہ کرتے ہوئے لیکن مجھے اچانک خیال آیا کہ اسرائیل نام کا بھی ایک ملک ہے۔ ٹھوس جغرافیائی حقائق کی بنا پر اسے افغانستان کے بارے میں غالباََ لاتعلق رہنا چاہیے۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔ افغانستان کا اسرائیلی میڈیا میں بھی بہت چرچا ہے۔ گزشتہ دو دن میں نے وہاں کے "ذہن ساز" تصور ہوتے کالم نگاروں اور مبصرین کے خیالات کو گوگل کے ترجمے والی سہولت سے جاننے کی کوشش کی۔ اسرائیل کے انگریزی میں چھپنے والے اخبارات کو بھی تجسس کی نگاہ سے دیکھا۔
جوبائیڈن کی انتظامیہ سے اسرائیل خوش نہیں۔ اسے خدشہ ہے کہ ایران کے ساتھ وہ اس معاہدے کو بحال کردے گی جو ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی منسوخ کردیا تھا۔ اس معاہدے کی بدولت ایران کے ایٹمی پروگرام پر کڑی نگاہ رکھتے ہوئے اسے محدود تر رکھنا مقصود تھا۔ اسرائیل مگر یہ طے کرچکا ہے کہ ایران کو ایٹمی ہتھیار تیار کرنے سے مذاکرات کے ذریعے روکا ہی نہیں جاسکتا۔ امریکہ اور یورپ ان سے نبھاہ کرنے کو آمادہ ہو بھی جائیں تو اسرائیل بذات خود انہیں تباہ کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو ڈٹا ہوا ہے۔
بھارتی میڈیا میں طالبان کی حالیہ کامرانی کو درحقیقت پاکستان کی کامیابی بناکر اجاگر کیا جارہا ہے۔ اسرائیل کا میڈیا اس کے برعکس بضد ہے کہ طالبان کی حالیہ فتح بالآخر پاکستان نہیں بلکہ ایران کو توانا تر بنائے گی۔ 1990کی دہائی میں جب طالبان نمودار ہوئے تو مسلکی وجوہات کی وجہ سے انہیں ایران کا حتمی "شریک" یا دشمن تصور کیا جاتا رہا۔ 1997میں اقتدار پر قابض ہوجانے کے بعد طالبان نے بھی اس تاثر کو ٹھوس جواز فراہم کئے۔ افغانستان کے شہر مزار شریف میں قائم ایرانی قونصل خانے پر ایک حملہ بھی ہوا۔ اس کی وجہ سے ایران اور افغانستان کے درمیان جنگ بہت مشکل سے ٹالی گئی تھی۔
ایسے ہی واقعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایران نے سفارت کارانہ مہارت سے امریکہ کی جانب سے نائن الیون کے بعد افغانستان پر مسلط ہوئی جنگ کو ناکام بنانے میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ 2003میں وہ بلکہ اس وقت امریکہ کا بغیر اعلان کئے قریب تر اتحادی بن گیا جب اسے اس نے صدام حسین کے عراق پر حملہ کیا۔ صدام حکومت کے خاتمے کے بعد ایران عراق میں حکومتی فیصلہ سازی کے عمل پر حتمی اثرورسوخ کی حامل قوت بن چکا ہے۔
ایران کا اثر فقط عراق تک ہی محدود نہیں۔ شام کے تناظر میں بھی وہ اہم ترین فریق ہے۔ اس کے علاوہ لبنان ہے جہاں ایران کی اتحادی حزب اللہ اسرائیل کو مستقل پریشان رکھتی ہے۔ اسرائیل کا اصرار ہے کہ طالبان کے کابل پر قابض ہوجانے کے بعد ایران کا اثرورسوخ اب لبنان سے افغانستان تک پھیل گیا ہے اور یہ اسے ہرگز گوارہ نہیں۔
طالبان کے ایران کے ساتھ تعلقات میں تبدیلی کا حقیقی سبب عراق اور شام میں ابوبکر بغدادی کی اعلان کردہ "خلافت" تھی۔ اس "خلافت" سے افغانستان کے کئی امریکہ دشمن عناصر بھی رہ نمائی کے طلب گار ہوئے۔ داعش کی "خراسان" سے متعلق ایک شاخ بھی قائم ہوگئی۔ یاد رہے کہ "خراسان" موجودہ افغانستان اور ایران کے کئی علاقوں کی تاریخی شناخت رہا ہے۔ وسطی ایشیاء سے بھاگ کر افغانستان میں پناہ گزین ہوئے کئی انتہاپسند بھی اس شاخ سے وابستہ ہوگئے۔ ملاعمر کی وفات کو طالبان نے دو سے زیادہ برس تک چھپائے رکھا۔ ان کی وفات کے بعد بھی ملاعمر کے نام سے افغان عوام کے نام عید کے پیغامات جاری ہوتے رہے۔ بالآخر ازبکستان سے تعلق رکھنے والے ایک جنگجو نے ملاعمر کی موت والے راز کو پہلی بار افشاکیا۔ طالبان بالآخر اس کی تصدیق کو مجبور ہوئے۔ یہ تصدیق ہوگئی تو داعش کی خراسان شاخ کے رہ نمائوں نے اپنے حامیوں کو قائل کرنا شر وع کردیا کہ چونکہ قندھارسے ابھرے "امیر المومنین" کا انتقال ہوگیا ہے اس لئے ابوبکربغدادی کو اب مسلم امہ کا نیا امیر المومنین تسلیم کرلیا جائے۔ طالبان اور ایران مذکورہ سوچ کی سرکوبی کے لئے یکجا ہوگئے۔ ملاعمر کے بعد طالبان کا امیر ہوا ملامنصور اختر اسی وجہ سے بارہا ایران جاتا رہا۔ آخری بار وہاں سے لوٹ رہا تھا تو اسے اوبامہ حکومت نے پاکستان کی زمین پر بلوچستان میں ڈرون حملے کے ذریعے ہلاک کردیا تھا۔
طالبان اس مہینے کی 15اگست کو جب کابل میں داخل ہوئے تو عشرہ محرم کا اختتام بھی ہونے والا تھا۔ کابل کا مغربی علاقہ کئی دہائیوں سے ہزارہ قوم کے لئے وقف ہوچکا ہے۔ وہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ کابل میں داخل ہوتے ہی طالبان رضا کاران کے علاقوں میں گئے اور ہزارہ برادری کو یقین دلایا کہ عاشورہ کی رسومات میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں ہوگی۔ طویل عرصے کے بعد بلاخوف وخطر ہزارہ برادری نے اس برس محرم کی رسومات میں بھرپور حصہ لیا۔ افغانستان کے وسط میں واقع ہزارہ جات میں بھی طالبان کا خیرمقدم ہوا ہے۔ اسرائیل کو افغانستان کے مختلف مسالک کے مابین ایسی خوش گوار ہم آہنگی مگر برداشت نہیں ہورہی۔ وہ اسے "طالبان-ایران، بھائی-بھائی" والا پیغام اجاگر کرنے کے لئے استعمال کررہا ہے۔
طالبان کی حالیہ کامیابی قطر کے دوحہ میں ہوئے مذاکرات کی وجہ سے بھی ممکن ہوئی ہے۔ اسرائیل مگر قطر کو بھی شک وشبے کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ وہ مصر ہے کہ قطر خلیجی عرب ممالک کو اپنے تھلے لگانے کے لئے ایران کے بہت قریب جاچکا ہے۔ اسرائیل کے خلاف غزہ کی پٹی میں مزاحمت کی حتمی قائد ان دنوں حماس نامی تنظیم ہے۔ اس کے رہ نما بھی ان دنوں جلا وطن ہوئے قطر میں مقیم ہیں۔ اسرائیلی اخبارات میں ایک تصویر ان کے صفحۂ اوّل پر چھاپی گئی۔ اس کے ذریعے دعویٰ ہوا کہ قطر سے قندھار کے لئے پرواز کرنے سے قبل طالبان رہ نما ملاعبدالغنی برادر نے حماس کے رہ نما سے ایک خصوصی ملاقات کی۔ مبینہ ملاقات کو جواز بناتے ہوئے اسرائیل بضد ہے کہ اسے طالبان پر بھی نگاہ رکھنا ہوگی۔ مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو وہ اس ضمن میں اپنا "اتحادی" بنانے کو بے چین ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو اسرائیلی عزائم پر لہٰذا سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔