جب عدالتیں کام نہ کر رہی ہوں
1970ء کی دہائی میں لاہور کے چائے خانوں اور کالج کینٹین میں خود کو دانشور ثابت کرنے کے لئے لازمی تھا کہ آپ کو فلسفہء وجودیت کا علم ہو۔ اس فلسفے کو فرانس کے دو نامور لکھاریوں نے ہمارے دور میں مشہور کیا تھا۔ نام تھے ان کے ژاں پال سارتر اور البرٹ کامیو۔ کامیو نسبتاََ جواں سالی ہی میں اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ اس کی موت سے قبل تاہم اس کے اکثرمداحین کو گلہ تھا کہ اس نے "انقلابی" نظریات سے توبہ کرلی تھی۔
اس تصور کی وجہ "باغی" کے نام سے لکھی ہوئی ایک کتاب تھی جس میں نہایت خلوص سے کامیو نے فرانس کے علاوہ دیگر ممالک میں ہوئے "انقلابوں" کا فکرمندی سے جائزہ لیتے ہوئے نتیجہ یہ نکالا کہ نظام بدلنے اور مظلوموں کو ظالموں سے نجات دلانے کے نام پر برپا ہوئے تمام انقلاب بالآخر ظالموں کے ایک گروہ کی جگہ دوسرے گروہ کی بالادستی کا راستہ بناتے ہیں۔ خلق خدا کے لئے البتہ دنیا ویسے کی ویسی رہتی ہے۔
"انقلاب" کے نام پر ہوئے کشت وخون اگرچہ انسان کی جبلت میں موجود وحشی کو خوفناک حد تک عیاں کردیتے ہیں۔ مختصر لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ ہمارے بلھے شاہ نے اگر تمام عمر کی ریاضت کے بعد فیصلہ یہ سنایا کہ "علموں بس کریں اویار" توکامیو کا نہایت خلوص سے ہوئی تحقیق کے بعد کلیدی پیغام یہ تھا کہ "انقلابوں بس کریں اویار"۔
کامیو کو لیکن میں نے 1980ء کی دہائی کے وسط میں سنجیدگی سے پڑھا تھا۔ اس سے قبل میں کئی برسوں تک "انقلاب" کا دلدادہ رہا۔ اس حوالے سے ژاں پال سارتر مجھے بہت پسند آیا۔ اسے پسند کرنے کی وجہ یہ بھی تھی کہ اس کی لکھی کتابوں کے انگریزی تراجم پڑھنے سے قبل میں نے اسی کی لکھی ایک اور تحریر پڑھی۔ جس تحریر کا ذکر ہے وہ درحقیقت ایک کتاب کا دیباچہ تھا۔ کتاب فرانزفینن نے لکھی تھی۔
فینن افریقہ کا حیران کن حد تک تخلیقی فرزند تھا۔ سامراجی نظام سے نفرت کرتا تھا۔ پیشہ وارانہ اعتبار سے ایک ماہر نفسیات تھا۔ اپنے ہاں آئے مریضوں کا بغور جائزہ لیتے ہوئے اس نے دریافت کیا کہ ان کی جبلت تشدد کو بے چین رہتی ہے۔ وہ انسانی رگوں سے بہتے خون سے لطف اٹھاتے ہیں۔ نفسیاتی اعتبار سے عام زندگی بسر کرنے کے ناقابل ہوئے مریضوں کے رویوں پر کڑی نگاہ رکھنے کے بعد اس نے دریافت کیا تھا کہ افریقہ کے باسی کسی زمانے میں بنیادی طورپر بہت معصوم صفت تھے۔ فرانس اور بلجیئم جیسے "مہذب" کہلاتے ممالک مگر ان کی زرخیز زمینوں اور معدنی وسائل پر قابض ہونا چاہتے تھے۔
افریقہ کو غلام بنانے کے لئے سامراجیوں نے جو جنگیں مسلط کیں اس نے اس خطے کے باسیوں میں"انتقام" کی خواہش اجاگر کی۔ بطورفرد عام افریقی انسان دیوہیکل سامراجی ڈھانچے سے اپنی ذلت کا بدلہ لے نہیں سکتا تھا۔ اس کی اپنی شخصیت ہی لہٰذا اس کے دل میں ابلتے غصے اور نفرت کا نشانہ بنتی رہی۔ وہ اپنے بیوی بچوں پر رعب جھاڑتے یا تشدد کرتے ہوئے بھی دل میں جمع ہوئے غبار کو نکالنے کی کوشش کرتا۔
فرانزفینن کی کتاب کا لاہور کے ایک متین استاد جناب سجاد باقر رضوی نے نہایت آسان اور رواں اردو زبان میں ترجمہ کیا تھا۔ ژاں پال سارتر کا لکھا دیباچہ بھی اسی ترجمے کی بدولت اکثر میرا خون کھولادیتا۔ میں کئی بار اسے یوں پڑھتا جیسے میرتقی میر یا دیوان غالب کو کھول کر پڑھاجاتا ہے۔
بہرحال سجاد باقر رضوی صاحب کے طفیل ژاں پال سارتر کی تحریر سے آگہی میسر ہوگئی تو میں نے اس کے ناولوں کے انگریزی ترجمے خرید لیے۔ سچی بات ہے کہ محض ایک ناول ہی توجہ سے ختم کرپایا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ جو ناول میرے ہاتھ لگے وہ ان دنوں کے واقعات وکردار بیان کرتے تھے جب دوسری جنگ عظیم سے قبل فرانس ہٹلر کی بنائی ایک کٹھ پتلی حکومت کے کنٹرول میں تھا۔ تاریخی اور ثقافتی تناظر سے اجنبیت سارتر کا ادبی کام سراہنے میں مشکل کا سبب ہوئی۔
کافی وقت گزر گیا تو اسلام آباد میں پرانی کتابوں کی دوکان سے مجھے سارتر کا لکھا ایک ڈرامہ بھی مل گیا۔ انگریزی زبان میں اس کا عنوان تھا Hell(جہنم)۔ بعدازاں یہ بھی دریافت ہوا کہ اسی ڈرامے کا ایک اور انگریزی ترجمہ Exit Noیعنی "باہر جانے کا کوئی راستہ نہیں" کے نام سے بھی ہوا تھا۔ جب میں نے یہ ڈرامہ خریدا تو بے روزگار تھا۔ ذوالفقارعلی بھٹو پھانسی پر چڑھائے جاچکے تھے۔ صحافت میں کوئی نوکری دینے کو تیار نہیں تھا۔ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ زندگی کے باقی دن کیسے گزارے جائیں گے۔ اس شش وپنج میں یہ فیصلہ بھی نہ کرپایا کہ لاہور لوٹ جاں یا اسلام آباد ہی میں قیام پذیر رہوں۔
چند ماہ گزرنے کے بعد مجھے پاک ٹی وی کے چند مشفق دوستوں نے مشورہ دیا کہ میں ٹی وی کے لئے ہر ہفتے آدھے گھنٹے کا ایک ڈرامہ بچوں کی تفریح کے لئے لکھوں۔ بچوں کے لئے میں لکھنے کے قابل نہیں تھا۔ ایک اور شفیق دوست نے مشہور برطانوی لکھاری BlytonEnid کی جانب توجہ دلادی۔ اس خاتون نے بچوں کے لئے بے شمار ناول لکھے ہیں۔ میں نے راولپنڈی کی ایک مشہور دوکان سے اس کے کئی ناول خرید لئے۔ انہیں توجہ سے پڑھنے کے بعد مقامی مزاج سے ملتے جلتے چند کردار ایجاد کئے اور یوں سلسلہ وار ڈرامے لکھنا شروع ہوگیا۔ یہ سلسلہ اتنا مقبول ہوا کہ تین کے بجائے چھ مہینے چلا اور میں اسلام آباد رہنے کے لئے تقریباََ ایک سال کا خرچہ جمع کرنے کے قابل ہوگیا۔
رزق کمانے سے قبل جو وقفہ آیا تھا اس کے دوران میں نے سارتر کے ڈرامے کو بارہا بہت غور سے پڑھا۔ اس میں تین کردار ہیں۔ دو عورتیں اور ایک مرد۔ تفصیل بیان کئے بغیر تاثر یہ ملتا ہے کہ وہ مرنے کے بعد غالباََ جہنم کے ایک کمرے میں بند کردئیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ گماں بھی ہوتا ہے کہ تینوں سے کوئی جرم سرزد ہوا تھا جس کی وجہ سے انہیں اس کمرے میں بند کردیا گیا۔ وہاں سے باہر جانے کا کوئی راستہ موجود نہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ مستقل رہتے ہوئے تینوں کردار انسانی نفسیات کی بے شمار جہتوں کو عیاں کرتے ہیں۔ ان کے اکٹھے رہنے کا بنیادی پیغام بالآخر یہ ملتا ہے کہ "جہنم درحقیقت دوسرے لوگ ہیں" جن کے ساتھ زندگی گزارنا آپ کے اعصاب کو مفلوج بنادیتا ہے۔ میں کئی برسوں تک اس ڈرامے کے طلسم سے حیرت زدہ رہا۔
1996ء میں ایک بار فرانس جانے کا موقع ملا تو میں نے بہت کوشش سے اس کیفے کو ڈھونڈ کر وہاں بیٹھنے کی کوشش کی جہاں ژاں پال سارتر مستقل بیٹھا کرتے تھے۔ سنا ہے کہ وہ اسی کیفے میں بیٹھ کر اپنے مضامین وناول وغیرہ بھی لکھتے۔ اس کیفے میں ایک خاتون پروفیسر سے گفتگو کا موقع ملا۔ اسے جب سارتر سے اپنی عقیدت بتائی تو اس نے یہ جاننا چاہا کہ میں اس کی کونسی تحریر کو سب سے زیادہ پسند کرتا ہوں۔ میں نے Hellکے عنوان سے پڑھے ڈرامے کا ذکر کردیا۔ استادوں سے مختص شفقت سے مادام نے سوال کیا کہ مجھے اس کا فرانسیسی زبان میں عنوان کا علم ہے۔
شرمندگی سے محض یہ بتاسکا کہ مجھے فرانسیسی زبان کا ایک لفظ بھی نہیں آتا۔ ان محترم خاتون نے اس کا فرانسیسی عنوان بتایا اور ترجمہ بھی۔ عنوان ایک اصطلاع پر مبنی ہے جس کا مطلب ہے کہ "جب عدالتیں بند ہوں"۔ مختصر معنوں میں سارتر کے ڈرامے کا حقیقی پیغام یہ تھا کہ انسانوں کی زندگی اس وقت جہنم بن جاتی ہے جب عدالتیں چھٹی پر ہوں یا کام نہ کررہی ہوں۔ برائے مہربانی سارتر کی محبت میں جو بات برجستہ انداز میں لکھ بیٹھا ہوں اسے پاکستان کے موجودہ حالات پر تبصرہ شمار نہ کیا جائے۔