ہمارے لئے امریکی سینیٹ میں پیش ہوئے قانون کا شکنجہ
امریکی افواج کا گزشتہ ہفتے کے وسط میں افغانستان سے انخلاء کا عمل شروع ہوا تو اس کالم میں بارہا دہراتا رہا کہ جس ذلت آمیز انداز میں یہ عمل جاری ہے امریکی اس کو بھولیں گے نہیں۔ اپنی خفت مٹانے کے لئے پنجابی محاورے والے گدھے سے گرنے کا غصہ اس کے مالک کمہار پر نکالا جائے گا اور افغانستان کے تناظر میں امریکی پاکستان کو وہی کمہار ٹھہراتے ہیں۔
منگل کی صبح اٹھا تو واٹس ایپ کے ذریعے ایک قانون کا مسودہ وصول کیا۔ امریکہ کے 22طاقت ور سینیٹروں نے اسے باہم مل کر تیار کیا ہے۔ ان میں دو ایسے افراد بھی شامل ہیں جنہوں نے امریکی صدر کے انتخاب میں بھی حصہ لینے کے جتن کئے تھے۔ قانون تیار کرنے والے تمام سینیٹروں کا تعلق ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی سے ہے۔ پاکستان کی حکمران اشرافیہ 1950کی دہائی سے اس جماعت کو اپنا دوست شمار کرتی رہی ہے۔ اس جماعت کے نمائندہ صدر نکسن کو ہم نے چین سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے عمل میں کلیدی معاونت فراہم کی تھی۔ ریگن کی سرپرستی میں ہم نے افغانستان میں سوویت افواج کو جہاد کی بدولت ناکوں چنے چبوادئیے۔ نائین الیون کے بعد اسی جماعت کے بش ہمارے جنرل مشرف کے جگری یار ہوئے۔ آخری ری پبلکن صدر ٹرمپ نے ہمارے وزیر اعظم کو جولائی 2019میں وائٹ ہائوس مدعو کیا تھا۔ عمران خان صاحب اس کی چکنی چپڑی باتوں سے اتنا مسحور ہوئے کہ انہیں 1992میں ورلڈ کپ جیتنے والی خوشی یاد آگئی۔ یہ الگ بات ہے کہ مذکورہ دورے کے چند ہی ہفتوں بعد مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی شناخت ختم کردی۔ اسے دو حصوں میں بانٹ کر دنیا کو وسیع ترین جیل میں تبدیل کردیا گیا۔
بہرحال جو قانون امریکی سینٹ سے منظوری لینے کے لئے تیار ہوا ہے اس کا نام ہے "افغانستان:دہشت گردی کے خلاف لئے اقدامات، نگرانی اور احتساب"۔ اس کا مسودہ 25صفحات پر مشتمل ہے۔ اس قانون کی منظوری کے بعد امریکی حکومت کو پابند کیا جائے گا کہ وہ افغانستان میں 20برسوں تک جاری رہی جنگ کے بارے میں ایک جامع رپورٹ مرتب کرے۔ اس کے ذریعے امریکی پارلیمان کو بتایا جائے کہ اتنی طویل اور مہنگی جنگ کے باوجود ان کا ملک انتہائی ذلت آمیز انداز میں افغانستان سے انخلاء کو کیوں مجبور ہوا۔ وہ کونسے عناصر اور ممالک تھے جن کی پشت پناہی طالبان کی کامرانی کا باعث ہوئی۔ مشتبہ عناصر اور ممالک کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان کا نام لکھ کر ممکنہ گنہگاروں کی فہرست میں شامل کردیا گیا ہے۔ امریکی سینیٹروں کی نگاہ میں ہمارا جرم ثابت ہوگیا تو ہمارے خلاف اقتصادی پابندیاں لگانے پر زور دیا جائے گا۔
مجوزہ قانون کا مسودہ پڑھتے ہی مجھے ایک فلمی گانا یاد آگیا۔"یہ تو وہی جگہ ہے گزرے تھے ہم جہاں سے" اس کا کلیدی مصرعہ تھا۔ 1965کی پاک-بھارت جنگ ہوئی تو امریکہ نے یاد رکھنے کی زحمت ہی گوارہ نہ کی کہ ہم 1950سے سیٹو اور سینٹو نامی بندوبست کا حصہ ہوتے ہوئے اس کے اتحادی تھے۔ ہمارے ہاں سے چین کی جانب خفیہ پرواز کے باوجود امریکہ نے 1971میں بھی پاکستان کو دولخت ہونے سے بچانے کے لئے دکھاوے کی مدد کرنے سے بھی انکار کردیا تھا۔ 1965کے تجربے کی وجہ سے پاک-امریکہ تعلقات بڑھانے میں قائدانہ کردار ادا کرنے والے فیلڈ مارشل ایوب خان اپنے چہیتے دانشور اور افسر الطاف گوہر سے "جس رزق سے آتی ہو…" والی آپ بیتی لکھوانے کو مجبور ہوئے۔
ایوب خان کے تلخ تجربے کو تاہم جنرل ضیاء نے فراموش کردیا۔ صدر ریگن کے ساتھ مل کر افغانستان میں سوویت یونین کو تباہ کرنے پر ڈٹ گئے۔ ہمارے ہاں ڈالروں کی ریل پیل ہوگئی۔ جنرل ضیا کی آمریت کو بھی امریکہ کی منافقانہ جمہوریت پرستی نے بخوشی نظرانداز کئے رکھا۔ جنرل ضیاء کے انتقال کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں طویل عرصے بعد ہمارے ہاں جمہوری حکومت قائم ہوئی۔ ابھی اس حکومت کو برسراقتدار آئے ایک برس بھی مکمل نہیں ہوا تھا کہ 1989میں ہمارے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کردی گئیں۔ الزام لگا کہ ہم چپکے چپکے ایٹم بم بنانے کی تیاری کررہے ہیں۔ مذکورہ پابندیاں محترمہ کی حکومت کے بعد نواز شریف کی دونوں حکومتوں کے خلاف بھی جاری رہیں۔
اکتوبر1999میں نواز شریف کی دوسری حکومت کو جنرل مشرف نے برطرف کیا تو امریکی صدر کلنٹن نے پاکستان میں پانچ گھنٹے قیام کے دوران فوجی آمر سے کیمروں کے روبرو ہاتھ ملانے سے بھی انکار کردیا تھا۔ اس کے بعد مگر نائن الیون ہوگیا۔ پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے کے ایک بار پھر بھائی بھائی ہوگئے۔ بش اور مش ایک دوسرے کو بڈی (Buddy)یعنی جگری یار پکارنے لگے۔ امریکی سینٹ میں لیکن اس ہفتے کے آغاز کے ساتھ ہی جو قانون منظوری کے لئے پیش ہوا ہے وہ پاک-امریکی تعلقات کے تناظر میں 1990کی دہائی کی جانب واپسی کا سفر ہے۔
1990کی دہائی میں عائد ہوئی پابندیوں کو پاکستان نے سو حکومتی خامیوں کے باوجود بہادری سے برداشت کرلیا تھا۔ اب کے برس معاملہ کہیں زیادہ سنگین ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں سے ہم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(FATF)کی گرے لسٹ میں اٹکے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ سے ہمارے ہاں بینکاری کے شعبے کو شدید دھچکے لگے۔ کاروبار میں مندی بھی آئی۔ عمران حکومت مگر مصر ہے کہ 1990کی دہائی اور 2008سے 2018تک ہمارے حکمران رہے افراد "چور اور لٹیرے" تھے۔ ان کی وجہ سے قومی خزانہ خالی ہوگیا۔ اس خزانے کو بھرنے کے لئے چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے آئی رقوم ناکافی ثابت ہوئیں۔ پاکستان کو بالآخر سرجھکا کر آئی ایم ایف سے رجوع کرناپڑا۔ آئی ایم ایف نے ہمیں 6ارب ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کررکھا ہے۔ یہ رقم قسطوں میں ستمبر2022تک ملتی رہے گی۔ انہیں حاصل کرنے کے لئے مگر لازمی ہے کہ ہم بتدریج بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھاتے رہیں۔ اپنے شہریوں سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کریں۔ جو بندوبست طے ہوا تھا اس کے مطابق تازہ قسط وصول نہیں ہوئی ہے۔ شوکت ترین صاحب آئندہ ہفتے واشنگٹن جاکر آئی ایم ایف کو ہتھ ہولارکھنے پر رضا مند کرنے کی کوشش کریں گے۔
امریکی سینٹ میں پیش ہوئے قانون کے منظر عام پر آنے سے قبل ہی مجھے یہ خدشہ لاحق تھا کہ افغانستان میں ہوئی ذلت کا بدلہ آئی ایم ایف کے سخت گیر رویہ کے ذریعے لینے کی کوشش ہوگی۔ مجوزہ قانون ایک حوالے سے میرے خدشات کی توثیق فراہم کرتا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ جو قانون امریکی سینٹ میں جمع کروایا گیا ہے وہ فی الفور منظور کرلیا جائے گا۔ ہم پر دبائو بڑھانے کے عمل کا البتہ اس کے ذریعے باقاعدہ آغاز ہوگیا ہے۔ یہ عمل ہمارے لئے مہنگائی کی لہر کو تیز تر بنائے گا۔ بازار کسادبازاری کی نذر ہوجائے گا۔ مجھے ہرگز خبر نہیں کہ جو مسائل نمودار ہورہے ہیں ان سے نبردآزما ہونے کے لئے عمران حکومت نے کونسی حکمت عملی تیار کررکھی ہے۔ فی الوقت تو اس کی سوئی فقط اس خواہش پر اٹکی نظر آرہی ہے کہ آئندہ انتخابات کے دوران بیلٹ پیپروں پر ٹھپے لگانے کے بجائے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر نصب بٹنوں کو انگلی سے دبایا جائے۔