مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
ڈاکٹر صفدر محمود رخصت ہوئے۔ تصنیف و تالیف اور بے مثال طرزِ تحقیق کا ایک شاندار باب اختتام کو پہنچا۔۔ اک عہد تمام ہوا۔ معروف انگریزی شاعر اور نقاد میتھیو آرنلڈ نے شاعر فطرت ولیم ورڈز ورتھ کے بارے میں کہا تھا کہ ادیب اور شعرا تو اور بھی ہیں لیکن ہمارے اندر احساس کی لو صرف ورڈز ورتھ ہی جگاتا ہے۔ ڈاکٹر صفدر صاحب کے پڑھنے والوں، اُن سے ملاقات کرنے والوں کو اندازہ ہے کہ ہمارے ہاں ڈاکٹر صاحب بھی یہی فریضہ انجام دے رہے تھے۔
ڈاکٹرصفدر محمود سے میرا عقیدت بھرا نیازمندانہ تعلق تھا۔ اُن سے نیازمندی کا یہ سلسلہ کوئی بارہ چودہ سال پہلے شروع ہوا اور اُن کی وفات تک جاری رہا۔ گزشتہ برس وہ علاج کی غرض سے امریکہ تشریف لے گئے تو بھی اُن رابطہ رہا اور میں گاہے بگاہے اُن کی خیریت دریافت کرتا رہا۔ لاہور میں موجود اُن کے دولت کدے پر اُن سے بے شُمار ملاقاتیں رہیں۔ گھر کی بالائی منزل پہ واقع اُن کی " سٹڈی " میں گھنٹوں اُن کے ساتھ ملاقاتیں رہتیں۔ وہ تاریخی واقعات کا انسائیکلو پیڈیا تھے۔ تحریکِ پاکستان اور تاریخِ پاکستان کے متعلق چھوٹے بڑے واقعات انہیں تمام جزئیات کے ساتھ یاد تھے۔ اُن کے ہاں ہر چیز میں ایک نفاست اور ترتیب نظرآتی۔ خوش سلیقگی اور اُجلا پن اُن کی شخصیت کا مستقل حصہ تھے۔ اُن کی گفتگو سچّے اور دلچسپ واقعات سے بھرپور ہوتی ایسی عمدہ کہ انہیں گھنٹوں سُنتے رہیئے اور بوریت نہ ہو۔ یہ گفتگو ہمیشہ بامقصد، مدلل اور متانت بھری ہوتی۔ میں نے اُن جیسا ڈسپلنڈ اور وقت کا خیال رکھنے والا بہت کم دیکھا۔ دورانِ ملاقات اُن کی اپنائیت اور تعلق داری کا احساس ہمہ وقت گھیرےرہتا۔ اُن کی ایک صفت تھی کہ ہمارے جیسے نئے لکھنے والوں کی تعریف اور کشادہ دلی سے حوصلہ افزائی کرتے۔ اپنی والدہ کی وفات پر میں نے ایک مضمون لکھا تو وہ انہیں اتنا پسند آیا کہ انہوں نے اسے اپنے کالم میں مکمل چھاپ دیا۔ وہ بڑے فراخ دل اور اعلیٰ پائے کے مہمان نواز تھے۔ دسترخوان پرکسی ڈِش کی تعریف کرنا اور پھر خود اُسے مہمان کو پیش کرنا اُن کی عادت تھی۔ کُچھ عرصہ پہلے اُن کے پاس ایک ملازم تھا جس کا حلیہ اور عادات قدرے علامہ اقبال والے " علی بخش " سے ملتی تھیں۔ اسی بنا پر میں اُسے علی بخش، کہہ کر بلاتا تو ڈاکٹر صاحب مسکرا دیتے۔ اُن کی زندگی پُروقار سادگی اور بااُصول شرافت کا لاجواب نمونہ تھی۔ اپنی گفتگو میں اکثر وہ اپنی ہڈ بیتی پر مبنی بہت پُرلطف اور سبق آموز قصے سناتے رہتے۔ وہ اکثر بتاتے کہ جوانی میں اُن کی دوستی بزرگوں سے رہی۔ اسلام آباد قیام کے دوران اُن کی ملاقاتیں نامور مزاح نگاروں کرنل محمد خان، شفیق الرحمن اور ضمیر جعفری سے رہتیں۔ یہ عظیم لوگ اکثر اُن کے ڈیرے (دارا) پر تشریف لاتے رہتے۔
ڈاکٹر صاحب کی گفتگو ہو یا تحریر متانت اور سنجیدگی اُن کا خاصہ تھی۔ اپنی کہی ہوئی بات یا لکھے ہوئے حرف کا وہ پہرہ دیتے تھے۔ اُن کے مطالعے کی وسعت قابلِ رشک تھی۔ میں نے اُن جیسے صاحبِ مطالعہ ادیب جو اپنے وسیع مطالعے کو بڑے باکمال انداز میں اپنی تحریر کا حصہ بھی بنائے، بہت کم دیکھے ہیں۔ وہ تحقیق کے شیدائی تھے۔ کسی بھی معاملے پر اپنی رائے دیتے ہوئے وہ مکمل چھان بین اور کھوج کے قائل تھے۔ جب کبھی کسی فتنہ خُو نے تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی ڈاکٹر صاحب اپنا قلم بااندازِ شمشیر اُٹھائے میدان میں آ جاتے اور پھر باقاعدہ مورچہ لگا کر پورے تیقّن کے ساتھ اُس سچ اور حقیقت کا ناصرف دفاع کرتے بلکہ اپنے پڑھنے والوں کو بھرپور انداز میں قائل بھی کرتے۔ جگن ناتھ آزاد کے ساتھ پہلے قومی ترانے کو منسوب کرنے کی کوشش کی گئی تو آپ نے اس کے خلاف ایسے ٹھوس اور ناقابلِ تردید ثبوت دیے کہ مزا آگیا۔ اندازِ تحقیق اتنا منظّم اور convincing تھاکہ یہ افواہ پھیلانے والے بھی مرعوب ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔
ڈاکٹر صاحب کی سب سے خاص بات اُن کی پاکستان اور بانی پاکستان سے بے مثال محبت تھی۔ قائدِ اعظم سے اُن کی عقیدت اور لگائو کا یہ عالم تھا کہ اُنکے صاحبزادے نے مجھے بتایا کہ ہم انہیں مزاقاً کہا کرتے کہ آپ ہم سے زیادہ قائد اعظم سے محبت کرتے ہیں۔ اسی لگائو کی بنا پر کوئی سستی شہرت کا رسیایا کسی دیگر مفاد کی خاطر کوئی دوسرا قائد کی ذات پر کوئی منفی بات کرتا تو ڈاکٹر صاحب اس کا فوری اور مدلل جواب دیتے۔ قائد کی گیارہ اگست کی معروف تقریر ہو یا اسلامی فلاحی ریاست کے متعلق اُن کے نظریات ڈاکٹر صاحب نے ہمارے لبرل اور سیکولر احباب کے تمام اعتراضات کا ہمیشہ باوزن، مدلل اور تسلی بخش جواب دیا ہے۔ اس حوالے سے اُنکے کئی کالم بعنوان " چھیڑ خوباں سے " وغیرہ پڑھنے کے لائق اور ہماری علمی تاریخ کا قیمتی حصہ ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو صاحبانِ باطن سے خاص لگائو تھا۔ کسی ایسی ہستی کا ذکر ہوتا تو اُن پر عجیب رقّت طاری ہوجاتی آواز رُندھ جاتی اور وہ کافی دیر سر جھکائے خاموش اور بڑے مودّب بیٹھے رہتے۔ اُن کا شائع شُدہ آخری کالم " روحانی کتاب کے دو صفحے " بھی اُن کے اسی پسندیدہ یعنی روحانیت کے موضوع پر تھا۔ اس کالم میں انہوں نے جناب مسعود الحسن کی کتاب " حضرت داتا گنج بخشؒ، روحانی سوانح عُمری " پر بڑا پُر اثر اور خوبصورت تبصرہ کیا ہے۔ ڈاکٹر صفدر محمود ایک بڑے دانشور اور بے حد قیمتی انسان تھے۔ پاکستان سے آپ کی بے پناہ اور قابلِ رشک محبت انتہائی متاثر کن ہے۔ پاکستانیت اور روحانیت کے موضوع پر آپ کی لاجواب تحریریں اردو علم و ادب کا عظیم سرمایہ ہیں۔ انسان فانی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی خوبصورت زندگی کا سفر گجرات کے ایک چھوٹے سے قصبے " ڈِ نگہ " سے کیا تھا اور آج یہ عظیم مصنف، محقق، ادیب اور قائدِ اعظم کے بے مثال عاشق اسی قصبے کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔ اُن کے درجات کی بلندی کی دعا کے ساتھ ہمیں غالبؔ یاد آتا ہے:
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے