شہباز شریف کو انڈر ایسٹیمیٹ نہ کریں

شہباز شریف کو ہمیشہ نواز شریف کا چھوٹا بھائی سمجھا گیا ہے۔ یہ درست بھی ہے کہ وہ تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے میاں نواز شریف کے ہی چھوٹے بھائی ہیں مگر اب وہ صرف میاں نواز شریف چھوٹے بھائی نہیں ہیں بلکہ پاکستانی تاریخ کے ایسے وزیراعظم ہیں جن کی قیادت میں بدترین دشمن بھارت سے ایک تاریخی جنگ جیتی جا چکی ہے اور معاملہ صرف جنگ کے میدان کا نہیں بلکہ سفارتکاری کا بھی ہے۔
شہباز شریف آج چار ملکوں ایران، ترکیہ، آذربائیجان اور تاجکستان کے پانچ روزہ دورے پر بھی روانہ ہو رہے ہیں۔ اس دورے میں بنیادی طور پر ان ملکوں کا جنگ میں ساتھ دینے پر شکریہ ادا کیا جائے گا اور تاجکستان میں گلیشئرز پر بین الاقوامی کانفرنس عالمی رہنمائوں سے ایک اور انٹریکشن کا ذریعہ بن جائے گی۔
شہباز شریف کو ایک طویل عرصے تک انڈر ایسٹیمیٹ کیا گیا اور یہ کام خود ان کی اپنی پارٹی میں بھی ہوا جب میاں نواز شریف کو نااہل کیا گیا تھا تو اس وقت شاہد خاقان عباسی جیسے احسان فراموش اور کم ظرف شخص کو وزارت عظمیٰ دے دی گئی۔ اگر اس وقت شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کے فیصلے پر عمل کر لیا جاتا تو اس صورت میں بھی ایک بدترین دور کا راستہ روکا جا سکتا تھا اور جب شہباز شریف کو کھیل کی کمان دی گئی تو ایوان وزیراعظم میں بیٹھا ہوا عمران خان پہلے زمان پارک اور پھر اڈیالہ پہنچ گیا۔
عمران خان اپنے آپ کو سیاست کا بڑا کھلاڑی کہتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ شہباز شریف کے مقابلے میں اس کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ اس نے سیاست کے میدان میں نو مئی ہی نہیں بلکہ اس سے پہلے اور اس کے بعد بھی ایسے ایسے فائول کئے کہ اسے میدان سے ہی باہر ہونا پڑا۔ خود کو شاطر سمجھنے والا عمران خان بری طرح گھبرا چکا تھا اور اسی گھبراہٹ میں اس نے بہت سارے فیصلے کئے جیسے جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تقرری کے موقعے پر پنڈی کی طرف لانگ مارچ کا فیصلہ۔ باکسنگ کے رنگ میں جب آپ کو مسلسل گھونسے پڑ رہے ہوں تو آپ کو بریک لے لینی چاہئے۔ مسلسل گھونسے کھاتے رہنا، اپنے دانت تڑواتے رہنا کون سی عقل مندی ہے؟
بہرحال میرا موضوع شہباز شریف ہیں اور جب ان کے پاس فیصلہ سازی آئی تو نواز شریف کوٹ لکھپت جیل سے لندن پہنچے اور مریم نواز اڈیالہ سے جاتی امرا۔ مسلم لیگ نون نے گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کے انتخابات میں بری طرح شکست کھائی تھی مگر پالیسی بدلتے ہی حیرت انگیز طور پر ان کے کچھ ماہ بعد ہونے والے کنٹونمنٹ بورڈ کے انتخابات میں کلین سویپ کر لیا۔ یہ شہباز شریف کے ذریعے آنے والی تبدیلی کا آغاز تھا۔ عمران خان نے بدتمیزی اور بے ہودگی کے ساتھ شہباز شریف کے لئے اردلی کی جگت لگانے کی کوشش کی مگر کہہ وہ رہا تھا جس کے اپنے کریڈٹ پر چند جرنیلوں کے بوٹ پالش کرکے ایک مرتبہ وزیراعظم بننے کے سوا کوئی سیاسی کامیابی نہیں ہے۔
مجھے پورے یقین سے کہنے دیجئے کہ وہ لوگ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ عمران خان دو، پونے دو سال کی جیل پورے استقامت کے ساتھ کاٹ گیا ہے وہ غلط کہتے ہیں، وہ مسلسل فوج سے رابطوں اور این آر او لینے کی کوشش میں ہے مگر اس کی دال نہیں گل رہی۔ جو کہتے ہیں کہ عمران خان باہر نہیں جا رہا تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ ملک سے باہر جا بھی نہیں سکتا کیونکہ نواز شریف جیسے بھلے آدمی کا ساتھ دینے کے لئے بہت سارے اسلامی ممالک موجود تھے مگر انصافیوں کے عالم اسلام کے لیڈر کے لئے اگر کوئی آواز ہے تو امریکہ کے اسرائیل نواز ارکان کی ہے، کسی ایک اسلامی ملک کے رہنما کی نہیں۔
یہ شہباز شریف ہی تھا جس نے ایک مدت پوری کی اور جب دوبارہ انتخابات ہوئے تو ایک مرتبہ پھر وزیراعظم کا عہدہ سنبھال لیا۔ شہباز شریف کے لئے وزارت عظمیٰ میری نظر میں میاں نواز شریف سے بھی زیادہ مشکل تھی کیونکہ شہباز شریف کو دونوں مرتبہ اتحادی حکومت ملی۔
شہباز شریف نے اپنی پارٹی یعنی باپ کی طرح محترم بڑے بھائی کو بھی مطمئن رکھنا ہے اور اپنے اتحادیوں کو بھی۔ شہباز شریف نے عوام کے لئے ریلیف بھی لانا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہترین ورکنگ ریلیشن شپ کو بھی برقرار۔ آپ اس کی ترتیب کو آگے پیچھے کر سکتے ہیں مگر بہرحال یہ چومکھی لڑائی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے عدلیہ کو بھی شہباز شریف کے زمانے میں آئینی، کردار میں لایا گیا ہے ورنہ اس سے پہلے جج بھی وزیراعظم خور ہوا کرتے تھے۔ یہ ایک ایسی بڑی کامیابی ہے جس کے بارے کوئی حکومتی رہنما نہ بات کرسکتا ہے اور نہ ہی کریڈٹ لے سکتا ہے مگر یہ عملی صورتحال ہے۔
مان لیجئے، بھارت کے ساتھ جنگ صرف فوجی میدان میں نہیں جیتی گئی بلکہ اس جنگ کو سفارتی سطح پر بھی جیتا گیا ہے اورا س کا کریڈٹ بھی وزیراعظم شہباز شریف اور جنرل عاصم منیر کی مشترکہ ٹیم کو ہی جاتا ہے۔ شہباز شریف نے نریندر مودی کے آبادی اورمعیشت میں چھ گنا بڑے ملک کو جنوبی ایشیاء ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں تنہا کرکے رکھ دیا ہے۔ جنوبی ایشیا میں آٹھ ممالک ہیں جن میں سے ایک پاکستان اور دوسرا ہندوستان ہے اور باقی چھ کے چھ پاکستان کے ساتھ ہیں۔
مجھے علم ہے کہ آپ کہیں گے کہ افغانستان نہیں ہے تو میں آپ کو اپڈیٹ کرتا چلوں کہ افغانستان کے وزیر خارجہ کا چین نے ہمارے وزیرخارجہ کے ساتھ بلا کے سافٹ وئیر اپڈیٹ کر دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ اگر وہ پاکستان کے ساتھ چلے گا تو اسے انعام میں سی پیک ملے گا۔
یہ سمجھا جا رہا تھا کہ ا مریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پاکستان کے لئے بڑا خطرہ ثابت ہوں گے، بقول مشاہد حسین وہ آتے ہیں اڈیالہ جیل کا تالہ کھلوا دیں گے مگر وہ اور ان کا سٹیٹ آفس عمران خان کا نام تک لئے بغیر پاکستان کی تعریفوں پر تعریفیں کئے جا رہا ہے۔ یہاں میں اگر شہباز شریف کی معاشی کامیابیوں کا حوالہ نہ دوں تو یہ کالم ادھورا رہ جائے گا۔ شہباز شریف نے ملک کو ڈیفالٹ کے خطرے سے نکال کر تیزی سے ترقی کرتی معیشتوں میں لا کھڑا کیا ہے۔
میں مانتا ہوں کہ اس میں جنرل عاصم منیر، اورنگ زیب اور اسحق ڈار کی بھی محنت ہے مگر آپ شہباز شریف کی قیادت سے انکار نہیں کر سکتے جیسے بیانئے کی جنگ کے کور کمانڈرز عطاتارڑ اور احمد شریف رہے۔ بات دوبارہ اندرونی سیاست پر لے آئیں تو ذرائع کے مطابق جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل پروسیجر مکمل ہوچکا ہے، ان پر نو مئی کے معاملات ثابت ہو گئے تواس کے بعد عمران خان کے مستقبل بارے آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کیونکہ سپریم کورٹ فوجی عدالتوں میں سیویلننز کے مقدمات اور سزاؤں کو عین آئینی قرار دے چکی ہے۔ چیزیں سب ایک ہی ڈائریکشن میں ہیں اور میں کہنا چاہتا ہوں کہ آپ سیاسی تجزیہ کر رہے ہیں تو شہباز شریف کو ہرگز انڈر ایسٹیمیٹ نہ کریں۔