عمر شریف : اداکاری کا مصری طلسم
عظیم مصری اداکار عمر شریف کا 10جولائی2015 کو 83 برس کی عمر میں انتقال ہوا، تو یہ کہا گیا کہ مصری فلمی صنعت یتیم ہو گئی۔ دریائے نیل کا ایک گوہر نایاب دریائے معانی میں ڈوب گیا۔ اس وقت یہ راز کھلا کہ عمر شریف شاعر ہفت زباں اداکار، دانشور، اور رند خانہ خراب تھا، جس نے دنیا کے بلند قامت ہدایت کاروں کی خوبصورت ترین فلموں میں اہم کردار ادا کیے۔ عمر شریف مصرکا آئینہ تھے، اس نے ہالی وڈ کو اپنی منفرد اداکاری کا تحفہ دیا۔ مگر کتنی درد انگیز شو بزنس کی دنیا ہے کہ تین بڑے اداکاروں کے بارے میں ایک فلمی نقاد نے لکھا کہ پیٹر او ٹول، مائیکل کین اور عمر شریف کو شراب و شباب نے تباہ کیا۔
آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعدآئے جو عذاب آئے
(فیضؔ)
پیٹر او ٹول برطانیہ کا ایک سٹیج اداکار تھا، 1962ء سے پہلے فلمی دنیا ان سے واقف نہ تھی۔ پہلی بار اس نے ہدایت کار ڈیوڈ لین کی فلم "لارنس آف عربیہ" میں مرکزی کردار ادا کیا، عمر شریف بھی لارنس آف عربیہ کی دریافت تھے، اس سے پہلے وہ مصری فلمی صنعت کے خوبرو ہیرو تھے، مگر دنیا ان سے بھی ناواقف تھی۔ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا جیسی اس کی فلمی دنیا تھی۔ مصری اداکارہ فاطمہ حمامہ اس کی شریک حیات تھی، مصری فلم انڈسٹری میں اس کے حسن کے چرچے تھے، وہ وہاں کی صوفیہ لورین کہلاتی تھی۔ دوسری طرف مائیکل کین سدا بہار ایکٹر تھا، اس کی "افکرس فائل" یادگار فلم تھی۔
اس تکون کے بارے میں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا کہ عظیم اداکار ہونے کے باوجود وہ انسانی لغزشوں، خراب صحبت اور شراب، جوئے اور شباب کی دلدل میں کیسے اترے۔ لوگ عمومی طور پر شوبزکی دنیا کو گناہ کاری کی ایک دلدل سمجھتے ہیں، جس کے بارے میں تصور یہ ہے کہ فن کی بلندی بھی فنکار کی اعلیٰ شخصیت کو بربادی اور اخلاقی زوال سے نہیں بچا سکتی۔ تخلیق فن کی سب سے بڑی بحث فنکارکی ذات، اس کی شخصیت، رویے اور اخلاقی اصولوں سے جاری رہی ہے، کہا جاتا ہے کہ لازم نہیں ایک اچھا اداکار اچھا انسان بھی ہو۔ اگر سماج کے عالمی سیاق و سباق میں دیکھا جائے تو درجنوں ایسی باتیں ملیں گی جہاں فنکارکی تخلیق بلندی پر ہو گی لیکن فنکار اخلاقی پستیوں میں گرا ہوا ملے گا۔ یہ تقابل عمر شریف، پیٹر او ٹول اور مائیکل کین کی شخصی تباہی کا ہے۔ ان کی شخصیت بھی زوال کے سورج گرہن کی زد میں آئی۔
مگر آج کی گفتگو عمر شریف کی یادوں سے مرصع ہے۔ مصر کا یہ دراز قد، وجیہہ، پرکشش اور اہرام مصرکے نظام اقدار سے جڑا ہوا ایک ایسا اداکار تھا جو صدیوں بعد پیدا ہوا۔ اس وقت کے فلمی رسائل لکھتے رہے کہ جب مصرکے صحرا میں عمر شریف کی شوٹنگ ہوئی تو علی ابن خراش کے عرب شیخ کے کردار میں عمر شریف کی انٹری دبنگ تھی، جو فلم "لارنس آف عربیہ" دیکھ چکے ہیں اس صحرا میں پانی کے کنویں پر پیٹر او ٹول، ضیا محی الدین اور دورسے اونٹ پر خراماں خراماں سوار آتے ہوئے عمر شریف کا پہلا سین بتایا جاتا ہے۔
اس منظر میں ضیا محی الدین کو عمر شریف گولی مار دیتا ہے، اور لارنس آف عربیہ کو صحرا میں بھٹکنے سے بچانے کیلے شریف حسین کے خیمے تک لے آتا ہے، شریف حسین کا کیریکٹر دنیائے فلم کے عہدآفریں اداکار سر ایلک گینس نے ادا کیا۔ دیگر اداکاروں میں انتھونی کوئن، جوز فیرر، انتھونی کوائل، بھارتی اداکار آئی ایس جوہر، رابرٹ کینیڈی اور جیک ہاکنز شامل تھے۔ عمر شریف کو لارنس آف عربیہ میں بہترین معاون اداکار کا گولڈن گلوب ایوارڈ دیا گیا، معروف اخبار نویس سٹیون چارلس نے اپنی کتاب میں لکھا کہ وہ مر جائے گاتو بھی فلم لارنس آف عریبیہ میں یاد رکھا جائے گا۔ ڈیوڈ لین ایک لیجنڈ فلمی ہدایت کار تھے، ان کے کریڈٹ پر ڈاکٹر ژواگو، بریف انکاؤنٹر، اے پیسج ٹو انڈیا، ریانز ڈاٹر، برج آن دی ریور کوائی، اولیور ٹوئسٹ سمیت دیگر دلنشیں فلمیں ہیں۔ عمر شریف نے کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی فلمی زندگی کے 30 برس ہوٹلوں میں گزارے، لارنس آف عربیہ میں صحرا میں سو دن صرف تو کیے مگر آپ کو یہ سن کر تعجب ہو گا کہ ہمارے درمیاں کوئی عورت نہیں تھی۔
عمر شریف نے کہا کہ وہ اداکار کی حیثیت میں پیٹر اوٹول کی بے حد عزت کرتے ہیں، یہ دلچسپ حقیقت ہے کہ صحرا کی اداکاری نے نہ صرف عمر شریف کی صحت متاثر کی، لارنس کا رول کرنے کے بعد جب فلم کی عکس بندی مکمل ہوئی اور فلم کے عکس بند ڈبے تدوین کے لیے لندن اسٹوڈیو پہنچے تو پیٹر او ٹول کی حالت بھی خراب تھی، وہ چھ ماہ تک اسپتال میں زیر علاج رہے، انھیں بخار، تھکن، ریت، گرمی اور ناموافق موسم نے نڈھال کر دیا تھا۔ عمر شریف اور پیٹر اوٹول دو ایسی اداکار تھے جو لارنس آف عربیہ کی ریلیز کے بعد آسمان فلم پر ستارے بن کر چمکے، انھوں نے کئی فلموں میں کام کیا۔ ڈاکٹر ژواگو عمر شریف کی بہترین فلموں میں شمار کی جاتی ہے.
معروف روسی ادیب بورس پیسٹرنک کے ناول پر مبنی اس جنگجویانہ رومانی داستان میں عمر شریف کے مقابل جولی کرسٹی نے ہیروئن کا کردار ادا کیا، ناقدین اس فلم میں جولی کرسٹی کو اس وقت کی دیوی قرار دیتے ہیں، کرسٹی نے اپنے کردار میں فلم بینوں کوگرفت میں لینے والی اداکاری کی، عمر شریف اور جولی کرسٹی نے مل کر جذبات و احساسات کی نئی تاریخ رقم کی، گریٹ ایکٹنگ کے نصاب میں ڈاکٹر ژواگو ایک اہم باب ہے۔ عمر شریف نے چی گویرا کا کردار بھی خوب نبھایا، اسی طرح وہ "چنگیز خان" میں سٹیفن بائڈ کے مقابل جلوہ گر ہوئے۔ فلمی ایجنٹوں کے مطابق ہالی وڈ نے عمر شریف کو مطلوبہ کردار میں کاسٹنگ کے دوران ان کی ہفت زبانی کو بھی پیش نظر رکھا۔ عمر شریف کہتے ہیں کہ میں عربی میں تو طاق تھا ہی لیکن انگریزی، فرانسیسی، یونانی، اسپینش، اطالوی زبان بھی روانی سے بول لیتا تھا، عمر شریف کے نیٹ پر آپ ویڈیوز ملاحظہ کریں اور ان کے فلمی ہدایتکاروں، فلم سازوں اور ساتھی اداکاروں سے فلمی سیٹ یا خلوت میں بات چیت، انٹرویوز سنیں تو وہ ایک مکالمہ یاد کرنے والے ایکٹر نظر نہیں آتے، ان کی نگاہ میں پوری ایکٹنگ آرٹ کے محور پر گھومتی دنیا ہے.
وہ کرداروں کے اندر گھسنے، باہر نکلنے اور پھر ڈوب جانے کے سارے عمل میں سوچ بچار کی کشمکش میں گزارتا رہا ہے، وہ فلمی منظر سے خود کو الگ کر کے اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا سراغ لگاتا رہا ہے، اس کا کہنا تھا ایکٹنگ انسانی کردار میں ڈھلنے کی فطری کوشش اور تخلیقی پہلو کے نئے جہتوں کی بازیافت ہے۔ بعض نقادوں نے عمر شریف کی کامیابی اور مقبولیت میں ان کے اساطیری قد و قامت اور چہرے کی بناؤٹ کو منفرد بتایا۔ اس شناخت کو آپ مصری فلمی صنعت کے آئینہ میں دیکھ سکتے ہیں، وہاں تو آپ کو مذہبی اور تاریخی فلموں میں ایک سے بڑھ کر ایک دراز قد، وجیہہ اور کرخت چہرے والے سیکڑوں کردار ملتے ہونگے۔
عمر شریف کی گفتگو دانشورانہ ہوتی تھی، وہ فلمی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہوئے بھی تاش کے پتے بیگ میں ضرور رکھتے، ان کا کہنا تھا کہ عادت سی ہو گئی ہے کہ کوئی بری فلمی کرنے سے بہتر ہے کہ تاش ہی کھیل لی جائے۔ وہ فٹ بال بھی کھیل لیتے تھے، آج کل انگلینڈ کے لیور پول فٹبال کلب کے محمد صلاح مصر کے مشہور فٹبالر مانے جاتے ہیں۔
عمر شریف نے اپنی والدہ کے بارے میں بتایا کہ وہ مصر کے شاہ فاروق کے ساتھ اکثر تاش کھیلنے پہنچ جاتی تھی، ان سے گھر جیسے تعلقات تھا۔ کہتے ہیں کہ میں چھوٹا تھا تو بہت موٹو تھا، امی نے کہا کہ چلو تمہیں انگلش بورڈنگ اسکول میں داخل کرا دیتی ہوں، ان کے خراب اور بد مزہ کھانے کھا کر خود ہی سلم ہو جاؤ گے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نصیحت کرنے والا شخص نہیں اور ان کو کیا نصیحت کروں جن کو زمانے سے جانتا ہوں۔ اداکاروں کی انفرادیت اور تخصیص پر گہری نظر تھی، ایک بارکہنے لگے کہ اٹلی میں بہت سے بلند پایہ اداکار ہیں تو کیا ضروری ہے کہ میں اطالوی کردار کروں۔ جنسی کشش پر ان کا انداز نظر خود ان شخصیت سے متضاد تھا، کیونکہ ایک مصری اداکار کے بقول وہ فنا فی الجنس تھے، مگر وہ یہی کہتے تھے کہ جن کو اپنی سیکس اپیل کا شعور یا چسکا تھا انھیں خبر ہی نہیں ہوتی تھی کہ اس اپیل کی دوسروں کی نگاہ میں کیا وقعت ہے۔
کیریکٹر کے جزیات اور اس کی کیمسٹری پر ان کا فلسفہ یہ تھا کہ کسی سین کی ساخت کو میں نہیں دیکھتا، صرف اپنی غلطیوں پر نگاہ رکھتا ہوں، دوسرے اداکاروں کو بھی نہیں دیکھتا، یہ بات مجھے تھیٹر نے سکھائی ہے۔ یہی اصول رچرڈ بولسلے فسکی نے اپنی کتاب "ایکٹنگ" میں کہی کہ تھیٹر اداکار میں شائستہ سنجیدگی اور جذبہ سپردگی پیدا کرتا ہے۔ عمر شریف کے مطابق کوئی بھی اداکار جب اپنی کوئی فلم دیکھتا ہے تو اپنے آپ کو اصل میں دیکھ رہا ہوتا ہے، فلم کی باقی چیزوں کی اسے پرواہ نہیں ہوتی۔ کیونکہ اداکار تو نرگسیت پسند ہوتا ہے۔ ایک فلم میں عمر شریف مخالف ایکٹر کی آنکھوں کے بیچ پستول رکھ کر جب کہتا ہے کہ اگر گولی چلا دوں تو تمہارا وژن ففٹی ففٹی ہو جائے گا۔ اس سین میں عمر شریف کا غصہ انسانی جذبات و احساسات کی نصاب کا ایک انوکھا باب بن جاتا ہے۔
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ