ٹرمپ کو نظر انداز کون کرے
صدر ڈونلڈ ٹرمپ مواخذہ کی تھرتھلی کے بعد خاصے اعصاب شکن بیانات دینے لگے ہیں، ان کے سخن گسترانہ انداز بیان کی شہرت تو چار دانگ عالم میں پھیل چکی ہے۔ اب تو دنیا عادی بھی ہوچکی ہے کہ ٹرمپ معروف صحافتی مقولہ "کتا انسان کوکاٹ لے تویہ خبر نہیں، اگر انسان کتے کوکاٹ لے اسی کو خبر کہتے ہیں " یعنی ٹرمپ اگرکوئی غالبؔ کا شعر درست سنا دیں تو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ہاں اگر وہ فیضؔ صاحب کے شعر کو جوشؔ کا کلام عارفانہ کہہ دیں تو اسی سے خبر نکلتی ہے۔
میڈیا کے مطابق اسی نفسیاتی کشمکش میں ٹرمپ نے گزشتہ دنوں ڈنمارک کا دورہ منسوخ کردیا کہ کوپن ہیگن نے ٹرمپ کی اس تجویز کو رد کر دیا کہ وہ گرین لینڈ خریدنا چاہتے ہیں۔ خبرکے بین السطور میں واضح تھا کہ ٹرمپ سنجیدہ تھے، لیکن بات وہی کہ ٹرمپ اورسنجیدہ؟
طرفہ تماشا یہ ہوا کہ ٹرمپ نے ٹویٹ بھی کیا کہ ڈنمارک ایک بہت ہی خوبصورت ملک ہے۔ اس کے لوگ ناقابل یقین حد تک شاندار ہیں تاہم وزیر اعظم میٹی فریڈرکسن کے ریمارکس پر کہ وہ گرین لینڈ کی خریداری پر گفتگو میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں، ٹرمپ نے کہا وہ اپنے دورے پر نظر ثانی کر رہے ہیں ساتھ ہی انھوں نے مرکزی بینک کے سربراہ جے پاول کو دشمن کہدیا۔
ایک اور ٹویٹ میں ٹرمپ فرماتے ہیں کہ میرا سوال صرف یہ ہے کہ ہمارا سب سے بڑا دشمن کون ہے جے پاول یا چیئرمین شی پنگ؟ پھر ٹویٹ در ٹویٹ میں وہ چین پر برستے ہیں کہ چین کے ہاتھوں امریکا لٹ گیا، عشروں سے ہم لوٹے جا رہے ہیں، یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ مبصرین کہتے ہیں کہ ٹرمپ کی باتیں بقول شاعر:
خر عیسیٰ اگر تا مکہ رود
چوں بیاید ہنوز خر باشد
کے مصداق رہیں گی۔ لوگ اب "ٹرمپیات" کے عادی ہوچکے ہیں۔ لیکن مارکیٹس کے رد عمل کوکون روک سکتا ہے۔ چنانچہ فنانشل ٹائمز نے ایک رپورٹ چھاپی جس میں بتایا گیا کہ صدر ٹرمپ کے سخت بیانات سے سرمایہ کاروں کے دل دہل گئے ہیں۔ ایک مبصر نے لکھا کہ آخرکیوں فنانشل مارکیٹ ملک کے ایک شخص کے رحم وکرم پر ہو، اور یہ بھی نہ بھولیں کہ وہ شخص کسی اورکے ملک کو خریدنے پرکمربستہ ہے۔ بات بلاشبہ آگئی ہے امریکی استثنائیت کی، ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا اسے نظر اندازکرے اور اس کی ابتدا صدرکو نظر اندازکرنے سے ہوگی۔
امریکی میڈٖیا کے مطابق ٹرمپ ایک دیوہیکل، تباہ کن اور غیر متوقع مسئلہ کا نام ہے۔ اس سے بھی بڑا مسئلہ سسٹم ہے، جس نے صدرکو بے محابہ طاقت عطا کی ہے اور بے پایاں اختیارات۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک ایسا ورثہ چھوڑ رہے ہیں جس نے ہمیں اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار کرنے والی میکارتھی ازم کی نحوست دی، کساد بازاری " گریٹ ڈپریشن" اور سرد جنگ کا عذاب مسلط کیا، عراق، افغانستان کی تباہی مقدر بنی، اور اب یمن اور لیبیا اس بربادی سے دوچار ہیں۔ فہرست لمبی ہے، سوچیے ہم کہاں کھڑے ہیں، حالات امریکی معیشت کے لیے اچھے نہیں، ہمارے سامنے حقیقی زندگی کے کیس کے مطالعہ کے لیے لاتعداد مواد رکھا ہے، جو اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ ہمیں کچھ کرنا ہے۔
مبصرین نے اہم سوال اٹھایا ہے کہ ٹرمپ نے امریکی استثنائیتExceptionalism کو جنم نہیں دیا۔ مگر پاکستان سمیت دنیا بھر نے ٹرمپ کو سنا کہ امریکا فرسٹ! یہی نعرہ جنرل پرویزمشرف کا تھا کہ پہلے پاکستان۔ مگر ہوا کیا، ہو کیا رہا ہے۔ اس دیوانگی کا جتنا تعلق صدر ٹرمپ سے ہے اس سے زیادہ سرمایہ کاروں اور عالمی رہنماؤں سے ہے جنھوں نے خود کو تماشا بنا لیا ہے اور روز دھمکیوں اور دھونس کی نذر ہورہے ہیں۔ لیکن لکھنے والوں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کو نظرانداز کرنے کی خواہش:
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
سے قدرے مختلف ہے تو اس پر سیریس ہوجائیے۔ ٹرمپ پہلے ہی تجارتی کارڈ کھیل چکے، جس کا نتیجہ عالمی کساد بازاری کی شکل میں نکلے گا۔ ٹرمپ چاہتے ہیں کہ چین سے ان کی کشمکش اور محاذ آرائی آیندہ انتخابات میں ان کی فتح کی صورت میں نکلے۔ امریکی میڈیا پنڈتوں کے مطابق چین اگر اپنے مورچے میں ڈٹا رہا، اس کے پائے استقلال میں کوئی جنبش نہ ہوئی تو ٹرمپ یورپ کے ملکوں پر غصہ اتاریں گے۔
اس کا اشارہ وہ فرانس میں جی 7 سربراہ کانفرنس میں دے چکے ہیں۔ وہاں وہ خوب گرجے برسے۔ یورپ کو چین سے بد تر قراردے دیا۔ فرانس کے صدر عمانویل میکرون نے ٹرمپ کی برہمی کا مداوا کرنے کے لیے مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کروایا۔ اس سوال پر میڈیا میں بحث جاری ہے کہ امریکا کی خوشنودی کے لیے دنیا مزید کتنا آگے جائے گی، اس کی آنکھیں کب کھلیں گی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ سرمایہ کار اور بڑی کمپنیاں انکل ٹرمپ کے ٹویٹس پر توجہ نہ دیں جو ہر روز موسم کی طرح بدلتے ہیں۔ صدر ٹرمپ CEOs کو لیکچر دیتے ہیں، ان کی زد میں ان کے قریبی حلیف اور بااعتماد حکام بھی آتے ہیں، برطرفیاں ہوتی رہتی ہیں۔ ان فیصلوں کی بنیاد جامع تجزیہ پر نہیں، نہ معروضی و زمینی حقائق پر۔ لہذا ہمیں یہ طے کرنا پڑے گا کہ بزنس کمیونٹی کو امریکی صدر ڈکٹیشن نہیں دے سکتے۔
ان کے ٹویٹرز بھی یقیناً فعال انگیز نہیں ہونے چاہئیں۔ اسی ہدایت کو لیں جس میں ٹرمپ نے کہا کہ چین سے امریکن سرمایہ کار فاصلہ کرلیں۔ یہ غیر معقول تجویز تھی۔ کیونکہ صدرکوکلی اختیارات حاصل نہیں وہ نیشنل ایمرجنسی میں بھی کسی کمپنی کو حکم نہیں دے سکتے کہ اپنے فنڈزکسی کو منتقل نہ کریں۔
مگرمجھے احساس ہے کہ سرمایہ کار اس حد تک نہیں جا سکتے ہیں، ان کی حب الوطنی مانع آتی ہے، وہ ٹرمپ جیسے ان سائیڈر سے خوب واقف ہیں، ان پرکڑی تنقیدکرنا ان کے لیے ممکن نہیں۔ کیونکہ اس طرح امریکی استثنائیت خطرہ میں پڑ سکتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ استثنائیت مردہ ہوچکی۔
اب معاشی افق پر ماہرین نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ فرض کرلیں سی ای اوز اوربزنس کمیونٹی نے صدر ٹرمپ کی بے تکی باتوں سے منہ موڑ لیا توکیاہوگا، میڈیا بقراطوں کا کہنا ہے کہ سرمایہ کاروں کو بزنس حلقوں کی حمایت ملے گی، ٹرمپ اس طرح ٹویٹ کرکے بزنس کمیونٹی کو تگنی کا ناچ نہیں نچا سکیں گے، ان کی عزت نفس محفوظ رہے گی۔
ان کے اعتبار میں اضافہ ہوگا، کیونکہ صدرکی طاقت ان کی باتیں سننے میں ہے، آپ نہ سنیں تو اس کی یہ طاقت برف کی طرح پگھلے گی۔ ہوسکتا ہے کہ آپکا ردعمل یہ ہو یا نہ ہو کہ صدر امریکا ایک بلند مرتبہ شخصیت کے حامل ہیں، بلاشبہ دنیاکے بلاشرکت غیرے طاقتور ترین سربراہ حکومت، لہذا ضروری ہے کہ اہم فیصلے کرتے ہوئے وہ صدر کے نکات اور اقدامات کو پیش نظر رکھیں چاہے وہ کتنے ہی مضحکہ خیز، احمقانہ اور مضرت رساں کیوں نہ ہوں۔ لیکن صورتحال اگر ایسی ہی ہے تو پھر ہمارے لیے ایک مسئلہ اور پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کے اقتصادی نظام کا انحصار کسی ایک شخص کے کندھے پر کیوں ہو جو دیگر صدور، وزرائے اعظم اور پالیسی لیڈرز کی آوازوں کو دبا لیتا ہے۔
میڈیا پنڈتوں نے پھر کہا کہ صدر ٹرمپ کے طنز، طعنوں، ملامتوں اور الزام تراشیوں کی وجہ امریکی استثنائیت کے مائنڈ سیٹ میں مضمر ہے۔ صدر سوچتے ہیں کہ کوئی طاقت امریکا کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے لیکن سوچنے کی ضرورت ہے اسی سوچ نے برس ہا برس سے دنیا کو مسائل کے گرداب میں پھنسا دیا ہے۔
وقت یہی ہے اسے کوئی کالنگ آؤٹ یا فریزنگ آؤٹ کا لمحہ سمجھے۔ صدر ٹرمپ ایک کالعدم انتظامی مشینری کی مزاحمت کی آخری امید ہیں جس نے انھیں معاملات کو پہلے مرحلہ میں ہاتھ میں لینے کی اجازت دی۔ اگر ٹرمپ کی دھونس دھمکیاں اس وقت ناکام ہوگئیں تو امریکی صدر اور ان کے مشیروں کے ٹول بکس میں کیا باقی رہ جائے گا۔
منظر نامہ کی جزیات کا میڈیا ماہرین نے یہ تجزیہ کیا ہے کہ امریکی انتظامیہ فورس استعمال کرنے کی دھمکی دیگی اور دوسری قوتوں کی جارحیت کا عذر بھی پیش کریگی، اقتصادی دباؤ ڈالے گی، "فائر اور فیوری" والا جنگی ماحول مختلف اسباب کو بنیاد بنا کر پیدا کیا جا سکتا ہے، سیاسی، نظریاتی حربے بھی استعمال ہونگے، مگر محسوس ہوتا ہے کہ اس سب ڈھول تماشوں کے باوجود ٹرمپ اعلان جنگ نہیں کرینگے، اور یہی امریکا اور باقی دنیا کے حق میں مثبت پیش رفت ہوگی۔
ایران اور کوریا اس چیز سے آگاہ ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ ایران کے حوالہ سے بظاہر یہ تاثر بلڈ اپ کرچکی ہے کہ ملٹری آپریشن ہوسکتا ہے، اور ٹیکٹیکلی اس نے سعودی عرب کے اس دعوے کو تسلیم بھی کرلیا ہے کہ ایران خطے میں موجودہ بحران کا ذمے دار ہے۔ عالمی میڈیا کے ذمے داروں کا خیال ہے کہ ٹرمپ کو عالمی گھوسٹ بنا کر پیش کیا جا رہا ہے، جرمنی ٹرمپ کی دھمکی میں نہیں آنے والا۔ شمالی کوریا پیچھے ہٹ رہا ہے، سنگا پور جیسے چھوٹے ملک درمیانی راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ ایک چیز تسلیم کی جانیوالی ہے کہ امریکا اب دنیا کا بہی خواہ اور مائی باپ نہیں رہا۔