کوئی جواب تو دے
حضرت جوشؔ ملیح آبادی کے کچھ روح پرور اشعار نے مابعدا لطبیعات کی دنیا میں بھیج دیا۔ یہ وہ دن تھے جب میدان صحافت کھلا ہوا تھا، نیاز فتح پوری کا "نگار" خانہ ہر اتوار کو آباد رہتا تھا۔ ان ہی دنوں جوشؔؔ مرحوم کی غزل کے یہ چند اشعار سامنے آئے۔ شعرملاحظہ ہوں۔
ادائے فقر میں عالم جہاں پناہوں کا
ترے گدائوں پر دھوکہ ہے بادشاہوں کا
ہزار شکر کہ اب ہے رہین پائے بتاں
وہ سر کہ جس پہ تسلط تھا سجدہ گاہوں کا
ہر ایک ذرۂ انجم سے چھن رہا ہے لہو
دراز سلسلہ کتنا ہے قتل گاہوں کا
زمیں سے تابہ فلک ایک موج ِ دجلۂ آہ
کہاں کہاں ہے تصرف تری نگاہوں کا
عناں کشیدہ گزر ایک خدیو کشورِ ناز
قدم قدم پہ ہے اک شہر داد خواہوں کا
سچ پوچھئے اس آخری شعر نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ سوچنے لگا کہ کہ یہ کون سے گدا ہیں جن کی قلندری کچھ کم سکندری سے نہیں، پوری غزل فلسفہ سے سیاست دوراں کی اجڑی محفل میں آگئی، بقول اس فلمی گیت کے، آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آگئے۔
یاد پڑتا ہے 70ء کی دہائی تھی، اور جوشؔ کی مابعد طبیعاتی منظر کشی لاجواب، غربت، بے انصافی اور لاچاری کے جلوس رسوائی تھے اور اہل اقتدار اپنے کانوائے کے ساتھ، جوشؔؔ کے ہاں تو تلاطم لفظ وبیاں کے کیا کہنے، مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ پوری غزل عہد حاضر کا سیاسی سیاق و سباق لیے ہوئے ہے، جہاں شاعر انقلاب نے فقیروں کی ادائے دلبری کا ذکر کیا، وہاں فقیرانہ حکمرانی میں مضمر قلندری کا تڑکا بھی لگا دیا، اور پھر کہا کہ جس سر پہ سجدہ گاہوں کا تسلط تھا اسے بتان وہم وگماں کے آستانے پر منتظر پایا۔ غالبؔ نے بھی اپنی یاد دلائی :
پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں
سر زیر بارِ منتِ درباں کیے ہوئے
بعد کے دو شعر کائنات کے اسرار و رموز سے لبریز اور ان گنت قتل گاہوں کے دراز سلسلے کے راز داں اور فطرت کی ان دیکھی جدلیات میں گم۔ آخری شعر میں حکمراں اور فریاد کناں عوام کے درمیان ایک جوش جیسی جوشیلی للکار کہ خبردار، گھوڑے کی لگام روک لو، قدم قدم پر عوام فریادی ہیں۔ اس انتباہ کی ڈور نہیں ٹوٹی، فریادی ختم نہیں ہوئے، 71 سال گزر گئے، جوشؔ کی اپنی زندگی کا دی اینڈ ہو گیا، حکومتوں کی آنیاں اور جانیاں لگی رہیں، جمہوری اور آمرانہ نظام، بنیادی جمہوریتیں، پارلیمنٹ کی بالادستی کا عزم، پی پی کا سدا بہار نعرہ مانگ رہا ہے ہر انسان روٹی کپڑا اور مکان، زمان و مکان بدل گئے، ملک دو نیم ہوا، کس کی غلطی سے ہوا، نکتہ وروں سے سوال حل نہ ہوا، کئی بار عابدہ پروین کی آواز گونجی ارے لوگو تہمارا کیا میں جانوں میرا خدا جانے۔
دو قومی نظریہ، مسلم قومیت پر خاموش سی گفتگو، اقتدار کی غلام گردشوں میں سرگوشیاں، آزادی صحافت، مگر کوئی احساس زیاں نہیں، سیاست اور جمہوریت کو تابڑ توڑ تین تین بار زور دار تھپڑ پڑے، پرویز مشرف کی آٹو کریسی آئی، آئین پامال ہوا، ہنگامی حالت نافذ ہوئی، زرداری اور نواز شریف برسر اقتدار آئے، پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی، جمہوریت کو استقامت دینے کی کمٹمنٹ ہوئی، اشرافیہ کا بال تک بیکا نہ ہوا، پھر عمران خان آئے۔ ابتدا ایسی تھی کہ آئے کچھ ابر کچھ کچھ شراب آئے، لیکن عوام کی تقدیر میں آئی مہنگائی، بیروزگاری اور بہیمانہ قتل و غارت، زمیں سے تا بہ فلک ایک موج دجلہ آہ! ٹماٹر جسی شریف، مرنجان مرنج اور بے ضرر سبزی قتالہ عالم بنی۔
مہنگائی کا9 سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا، لیکن بات یہاں تک محدود نہیں، سوال 22 کروڑ اہل وطن کا ہے، نئی نسل کے علمی فکری اور معاشی مستقبل کا ہے، ایک ایسی طرز حکمرانی کی ابتدا کا مسئلہ ہے جس کی سیاسی مرکزیت عوام اور غریب عوام ان کی زندگی میں تبدیلی یعنی محض سیاسی صورتحال کی کمنٹری نہیں، ایک محشر خیال ہے، بھٹو کو پھانسی، بے نظیر کے سر میں گولی، نواب بگٹی کا قتل، اس دنیا کی پاور پالیٹکس، سیاسی جوڑ توڑ، مالیاتی گٹھ جوڑ، دہشتگردی، جرائم، قتل و غارت کا روزنامچہ نہیں، بلکہ مسئلہ قتل گاہوں، اور ذرہ انجم سے لہو چھننے کا ہے، شاعر کی فکر سیاسی گلیوں میں الجھنے والی نہیں، اس میں نہ کسی این آر اوکا دخل، نہ احتساب کی باتیں، جب تصرف کسی اور کی نگاہوں کا ہو، وہاں ایگزٹ کنٹرول لسٹ کہاں، کون سا ایف بی آر، یا آئی ایم ایف کا پروگرام مانع۔ یہ تو تخیل وتصور اور وجدان میں اس سماج ِ نا پرساں کی بات ہو رہی ہے جو داد خواہوں سے بھرا ہوا ہے۔
ہر طرف غربت زدہ اور دل زدگاں، ہجوم در ہجوم، جہاں انسانوں کے لبوں پر انصاف کی دہائی ہو اور اس کو صرف ایک آواز سنائی دے رہی ہو کہ انصاف کرو، چاہے آسمان ٹوٹ پڑے۔ شعروں کی زبانی حالات حاضرہ کی کہانی بیان کی گئی، یہ منطق، دلیل کی وہ شفاف سرزمین ہے جہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی، جرنلزم، کتب اور رسائل جوشؔ کے روبرو حاضر ہیں، خود جوشؔؔ موجود نہیں مگر ان کے خیالات جاگ رہے ہیں، ایک غزل میں پوری کائنات کی اقبالیات کو سمو دیا ہے۔
لفظ ایف آئی آر بن رہے ہیں، ہر ایک ذرہ انجم کی بات ہو رہی ہے، لہو سے زمین سرخ ہو گئی ہے، کوئی دیوار سی گری ہے ابھی، شعر لفظ کی چھلنی سے آتے ہیں، ان کی شفافیت ہر عہد کے مزاحمت کاروں سے ستیزہ کار رہتی ہے، سنا ہے لفظوں کو موت نہیں آتی، جو تہذیب کی روح ہوتے ہیں۔ انسان اور لفظ میں قدر مشترک دائمیت کی ہے، "اقراء" کی الہیاتی گونج ابد الآباد تک، زمان و مکاں پر محیط، ہر سیاسی عہد اور ہر پولیٹیکل سسٹم میں مرتعش رہے گی، تاہم قتل گاہوں کے دراز سلسلے کیا کہانی سناتے ہیں، یہ ہماری آج کی کہانی ہے:
زخموں سے چور چور ہیں اشجار کے بدن
ہے پھر ہوا کے ہاتھ میں خنجر کھلا ہوا
ذرا غور کریں تو ان لفظوں کے آئینے میں معاشرے میں جنون، پاگل پن کیسا ہے؟ جاری قتل وغارت کا تسلسل کہاں تک جائے گا، کہیں تھر کے بچے مررہے ہیں، کہیں ڈینگی کے وار سے مریض موت کی نیند سو رہے ہیں، پھول سے بچوں کے بدن آوارہ کتے بھنبھوڑ رہے ہیں، کوئی ویکسین نہیں، کہیں نقیب اللہ، کہیں لاہور کا گھرانہ گولیوں سے چھلنی، نوجوان لڑکیوں، بچیوں، کمسن لڑکوں کو جنسی تشدد کے بعد بیدردی سے قتل کر کے ان کی لاشیں کھیتوں، نہروں یاکچرے کی کنڈیوں پر پھنک دی جاتی ہیں، نمرا ماری گئی، گل سماں زمیں میں گاڑ دی گئی یا اسے پہاڑی سے گرا کر مار دیا گیا، راہ چلتے دعا منگی شہر قائد کے پوش علاقے سے دن دہاڑے اغوا۔ جیو فینسنگ، ٹریکنگ، فرانزک، سراغ رسانی اور تحقیقات میں پیشرفت، اہم معلومات، ملزم بچ کے نہیں جا سکتے، بریک تھرو مل گیا۔ مگر مسئلہ فقط جرم و سزا کا نہیں، سسٹم میں مضمر وائرس کا ہے، خرابی کی درد انگیزی سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کی فرسودگی میں ہے، ہم بے حس ہو گئے ہیں، ہمارے احساس مروت کو آلات نے کچل دیا۔
اسکول، جامعات، خاندان، سماج، ماحول، سیاست، میڈیا، گلیمر سب حرص و ہوس۔ تیرے چہرے سے نظرہٹتی نہیں، کیا ہم کریں؟ اس درد کا درماں کسی حکمراں کے بس کی بات نہیں، یہ اس مردہ کتے کی old very old کہانی ہے جو سسٹم کے کنویں میں 71 سال سے پڑا ہوا ہے، ہر دور کی وفاقی کابینہ اور بیوروکریسی کنواں خالی کرتی جاتی ہے اور پانی پھر سے اس میں بھرتا جاتا ہے۔ میڈیا پر شور برپا ہے۔ ہم اکیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں، ایٹمی طاقت ہیں، ہمیں اللہ نے ساری نعمتیں عطا کی ہیں مگر ہم ناشکرے ہیں۔ پارلیمنٹ کی بالادستی سوالیہ نشان؟ عوام کے لیے کوئی معاشی ریلیف؟ سیاسی کشیدگی اور محاذآرائی کا کوئی دی اینڈ بھی ہے؟ کوئی محمد شاہ رنگیلا جواب تو دے۔
یہی وہ شاعر انقلاب جوشؔؔ تھے جب انھوں نے شہر قائد کی فضائوں میں گھبرا کر کہا کہ :
زمیں و زماں تیرگی تیرگی
ارے روشنی روشنی روشنی
قفس بستہ کو حکم پرواز دے
کوئی ہے تو ککلہ آواز دے
کسی نے شاید ان کی آواز نہیں سنی، اور روشنی جو اتنے بڑے صنعتی انقلاب کا ہراول دستہ ہے، جو اندھیرے کو جگر پاش شکست سے دوچار کرتی رہی ہے، جن سے تہذیب و تمدن کو جلا ملی، پرنٹنگ مشین، انسانیت کا چہرہ گل رنگ ہوا، بلب روشن ہوئے، پہیہ چلا، خلائوں کی تسخیر کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا، انسان چاند پر پہنچا، جرنلزم، سیاست، حکومت، ڈپلومیسی، ریاست اس کے چار ستون ایستادہ ہوئے، غلامی کا طوق اتارا گیا، میڈیا اور فلم انڈسٹری نے دنیا کے کلچر کو اپنے دام میں پھنسا لیا، امن سرینڈر ہوا، بڑی طاقتوں نے رعونت کی نئی تاریخ لکھی، جنگی ہتھیاروں نے انسانیت کے سینے پر چڑھ کر امن، آئین، انسان دوستی اور آزادی کے ایک ڈرائونی سیاسی حقیقت نے جنگ عظٰیم اول و دوم کا شعلہ بھڑکایا، انسانیت نے شعلوں کا کفن پہن لیا۔ آج وطن کی بے منزل سیاست پر دنیا بھر کے اقتصادی گیدڑ ہنس رہے ہیں۔ ڈپلومیٹک لومڑیاں ہمارا مذاق اڑا رہی ہیں۔