رد الفساد کے عالمی ثمرات
ردا لفساد کی کامیابی کے مختلف زاویے ہیں۔ اگر کراچی کو ہی دیکھ لیں تو کراچی پاکستان کی معاشی شہ رگ ہے۔ 2014میں جرائم اور Crime Indexپر کراچی دنیا میں چھٹے نمبر پر تھا۔ اور آج رد الفساد کی وجہ سے 106نمبر پر آگیا ہے۔ یہ کوئی چھوٹی کامیابی نہیں ہے۔ اسی لیے رد الفساد کو کسی علاقہ تک محدود نہیں کیا گیا تھا۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو اندازہ تھا کہ حقیقی امن وہی ہو گا جو پورے ملک میں یکساں ہو گا۔ امن کے جزیرے نہیں بنائے جا سکتے۔ کراچی کا امن ہی پاکستان کا امن ہے۔ کراچی کی ترقی پاکستان کی ترقی ہے۔ اسی لیے رد الفساد میں کراچی کو خصوصی اہمیت دی گئی۔
دہشت گردی سے سیاحت تک کا سفر دراصل رد الفساد کی کامیابی کا سفر ہے۔ آج ہم ملک میں سیاحت کے فروغ کی بات کر رہے ہیں۔ حکومت اس قابل ہوئی ہے کہ پاکستان کی سیاحت کے فروغ کے لیے کام کر سکے۔ شمالی علاقہ جات میں سیاحت رد الفساد کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی ہے۔ ورنہ دہشت گردوں نے ان علاقوں کو نو گو ایریا بنا دیاتھا۔
رد الفساد میں خاص بات یہ بھی رہی ہے کہ اس میں آپریشنز سے زیادہ انٹیلی جنس آپریشنز پر توجہ دی گئی۔ انٹیلی ایجنسیز کی انتھک محنت اور قربانیوں کی وجہ سے دہشت گردی کے بڑے بڑے نیٹ ورک ختم ہوئے۔ ان میں عنصر شرئیہ کراچی۔ JUA کرم چیپٹر۔ ٹی ٹی ایس لاہور چیپٹر۔ ٹی ٹی ایس صوابی چیپٹر۔ انتقام وزیر ستان چیپٹر۔ ٹی ٹی ایس دیر چیپٹر۔ ٹی ٹی ایس سوات چیپٹر۔ رد الفساد کے ان چار سالوں میں خفیہ اداروں نے پانچ ہزار سے زائد تھریٹ الرٹس جاری کیے۔ ان میں سے اکثر کو ناکام بنایا گیا۔
میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ ملک میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے فوجی عدالتوں نے بہت اچھا کام کیا۔ اگر فوجی عدالتوں کے اعداد وشمار کا ہی جائزہ لیا جائے تو 717کیسز فوجی عدالتوں میں ریفر کیے گئے۔ ان میں 344دہشت گردوں کو سزائے موت دی گئی۔ ان میں سے 58دہشت گردوں کی سزاؤں پر عمل ہو چکا ہے۔ اسی طرح 106دہشت گردوں کو عمر قیداور 195 کو دیگر قید کی سزائیں دی گئیں۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ فوجی عدالتوں نے سب کو سزا ہی سنا دی ہے۔ لوگ فوجی عدالتوں سے بری بھی ہوئے ہیں۔
فوجی عدالتوں نے پاکستان میں دہشت گردی کے خاتمہ میں قابل قدر کام کیا ہے۔ لیکن پھر بھی ہم اپنے مخصوص سیاسی حالات کی وجہ سے اس کو سراہتے نہیں ہیں۔ میری رائے میں پاکستان کو اب بھی فوجی عدالتوں کی ضرورت ہے۔ فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع نہ کرکے بظاہر تو سیاسی جماعتوں نے اسٹبلشمنت سے اسکور بر ا بر کرنے کی کوشش کی ہے۔ تا ہم میری رائے میں انھوں نے پاکستان کا نقصان کیا ہے۔
فوجی عدالتوں کے دور میں پاکستان کی عدلیہ نے بھی اپنے اندر ایسی اصلاحات نہیں کیں کہ وہ فوجی عدالتوں کا کام سنبھال سکیں۔ آج بھی ہماری عدالتیں جیٹ بلیک دہشت گردوں کے مقدمات سننے کی صلاحیت نہیں رکھتی ہیں۔ عام عدالتوں میں نظام انصاف اس قدر پیچیدہ اور تاخیر کا شکار ہے کہ دہشت گرد بچ جاتے ہیں۔
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اگر ایک دہشت گرد بھی نظام انصاف سے بچ جاتا ہے تواس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ ایک دہشت گرد کو پکڑنے کے لیے کتنی محنت ہوتی ہے۔ اور جب وہ نظام انصاف کی خامیوں کی وجہ سے بچ جاتا ہے تو ریاست کا کس قدر نقصان ہوتا ہے۔ رد الفساد سے پہلے فوجی آپریشنز کو فوجی عدالتوں کی مدد حاصل تھی۔ تاہم رد الفساد نے مشکل حالات اور بالخصوص فوجی عدالتوں کے بغیر نتائج دیے ہیں جو اپنی جگہ منفردہے۔
ا س سے پہلے آپریشنز میں دہشت گردی کے خلاف ایک سیاسی اتفاق رائے موجود تھا۔ لیکن موجودہ حکومت کی سیاسی تنہائی کی وجہ سے نہ تو فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع ہو سکی اور نہ ہی سیاسی قومی اتفاق رائے بن سکا۔ بہر حال پاکستان کو آج بھی فوجی عدالتوں کی ضرورت ہے۔ ملک دشمن عناصر کے قلع قمع کے لیے فوجی عدالتیں ناگزیر ہیں۔ یہ رد الفساد کی ہی کامیابی ہے کہ پاکستان کے جوعلاقے دہشت گردی کی وجہ سے جانے جاتے تھے۔ وہاں اب معاشی سرگرمیاں شروع ہر چکی ہیں۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستان کی عالمی تنہائی ختم کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ جس کی وجہ سے جنرل باجوہ کی عالمی ساکھ میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان میں امن کے لیے پاک فوج کے کردار کو آج دنیا قدر کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔ یہ درست ہے کہ میری ہمیشہ سے ذاتی رائے رہی ہے کہ پاکستان کو افغانستان کے معاملات میں کم سے کم حصہ لینا چاہیے۔ ہمیں افغانستان سے کبھی نیک نامی نہیں ملی ہے۔ تا ہم یہ بات بھی حقیقت ہے کہ عالمی ذمے داریوں کہ وجہ سے ہم افغانستان کے امن عمل سے خود کو علیحدہ نہیں رکھ سکتے۔
لیکن امریکا اور طالبان کے درمیان توازن رکھنا عملی طور پر ایک نا ممکن کام تھا۔ ماضی میں بھی ہم یاتو مکمل طورپر امریکا کی گود میں بیٹھتے رہے یا مکمل طور پر طالبان کے ساتھ کھڑے ہو جاتے رہے ہیں۔ لیکن اس بار جنرل باجوہ نے ایک حسین توازن رکھا ہے۔ ابھی تک ہم نے امریکا کے مفادات کا بھی خیال رکھا ہے لیکن ساتھ ساتھ طالبان کے اعتماد کو بھی قائم رکھا ہے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ ماضی میں بھی افغانستان کے انھی مسائل کی وجہ سے پاکستان نے کافی نقصان اٹھایا ہے۔ لیکن ایک امید ہے کہ جنرل باجوہ کی دانشمندی اور حکمت عملی کی وجہ سے ہم اس بار کسی نقصان سے بچ جائیں گے۔
افغانستان کی طرح پاکستان کے ایران کے ساتھ تعلقات بھی پیچیدہ رہے ہیں۔ جنرل باجوہ نے ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو بہتر کرنے کے لیے بھی بہت کام کیا ہے۔ اس ضمن میں پاک ایران سرحد پر بارڈر مینجمنٹ شروع کی گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ پاک افغان سرحد پر بارڈر مینجمنٹ کا کام 84فیصد مکمل ہو چکا ہے۔ لیکن ساتھ ساتھ ایران کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ کا کام بھی 48فیصد مکمل ہو گیا ہے۔ ایران کے ساتھ سرحد پر باڑ سے پاک ایران تعلقات میں بہت بہتری آئی ہے۔ جنرل باجوہ کی خصوصی کاوشوں سے ایران اور پاکستان کے درمیان بد اعتمادی کی فضا ختم ہوئی ہے۔
اور اب دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی ایک فضا موجود ہے۔ سب جانتے ہیں گزشتہ سال پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے تھے۔ لیکن جنرل باجوہ نے بروقت سعودی عرب کا دورہ کیا اور تعلقات کو بگڑنے سے بچایا۔ جنرل باجوہ کی بروقت ڈپلومیسی نے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی کو ختم کیا۔ اور آج پاک سعودی عرب کے درمیان تعلقات دوبارہ بہترین نظر آرہے ہیں۔ اسی طرح بحرین اور متحدہ عرب امارات سے تعلقات کو بحال رکھنے میں جنرل باجوہ کا کردار کوئی خفیہ نہیں ہے۔ جنرل باجوہ نے سفارتی محاز پر حکومت کی جس قدر مدد کی ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔
ردالفساد کو آج بھی بلوچستان میں چیلنجز کا سامنا ہے۔ سی پیک کی وجہ سے بلوچستان کو جو اسٹرٹیجک اہمیت حاصل ہو گئی ہے۔ اس کی وجہ سے دشمن کا فوکس بھی بلوچستان ہے۔ لیکن یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آج گوادر میں جس طرح کھیل کے میدان آباد ہو رہے ہیں۔ وہ رد الفساد کی ہی کامیابی ہے۔
گوادر میں معاشی سرگرمیوں کا آغاز۔ کوئی چھوٹی کامیابی نہیں ہے۔ ورنہ دشمن کی توکوشش تھی کہ کسی نہ کسی طرح گوادر کو فعال ہونے سے روکا جا سکے۔ جیسے جیسے گوادر میں معاشی سرگرمیاں بڑھیں گے۔ ویسے ویسے دشمن کی ناکامیاں بڑھیں گی اور رد الفساد کی کامیابیوں کے جھنڈے لہرائیں گے۔ جنرل باجوہ پاکستان کے آرمی چیف کے ساتھ ساتھ ایک اسٹیٹس مین کے طور پر بھی سامنے آئے ہیں۔ انھوں نے عالمی منظر نامہ میں اپنے کردار سے ایک منفرد مقام بنایا ہے۔ جس سے پاکستان کے عزت و وقار میں اضافہ ہوا ہے۔
آئی ایس پی آر نے بھی رد الفساد کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کی ہے۔ بالخصوص نئے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے آکر پالیسی میں واضح تبدیلی ہے۔ جس کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ آئی ایس پی آر نے انتہا پسندی کے خلاف قومی بیانیہ کو آگے بڑھانے اور قومی ہم آہنگی پیدا کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔