کوئی درمیاں نہیں چاہیے

وطنِ عزیز پاکستان کی ایک دُور نمائی نشرگاہ (Television Channel) سے ہر صبح ایک معیاری دینی مذاکرہ نشر ہوتا ہے۔ ایسے ہی ایک مذاکرے کے درمیان، میزبان اور مہمان، دونوں کی زبان سے بار بار "درمیان میں، سن کر تعجب ہوا۔ دونوں صاحبان درست اُردو بولتے ہیں۔ ان کی بولی سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہر دو حضرات فارسی زبان سے بھی خاصی حد تک واقف ہیں۔ کم از کم اتنی واقفیت تو ضرور ہی رکھتے ہیں جتنی ہر وہ شخص رکھتا ہے جو اچھی اُردو بولتا ہے۔
اچھی اُردو بولنے والے اُردو میں رائج فارسی الفاظ کے مطالب سے بخوبی واقف ہوتے ہیں۔ گو ہماری نشرگاہیں اُردو زبان کی حشرگاہیں، بن چکی ہیں اورجو کچھ نشر کیا جاتا ہے اُس میں اُردو کا بُرا حشرکیا جاتا ہے، لیکن اِن نشرگاہوں پرتعینات جو مرد وزن فارسی سے تو کیا اُردو سے بھی واجبی واقفیت تک نہیں رکھتے وہ اگر "درمیان میں " بولیں تو اُنھیں بولنے دیجے۔ لیکن اچھی اُردو بولنے والوں کو تو "درمیان میں " نہیں بولنا چاہیے۔ قواعد و انشا ہی کا نہیں، تہذیب کا تقاضا بھی یہی ہے۔
"درمیان میں" بولنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے "یومِ آزادی کا دن" یا "شبِ قدر کی رات" بولا جائے۔ "درمیان" ایک فارسی ترکیب ہے جو در، اورمیان، پرمشتمل ہے۔ اُردو میں کثرت سے مستعمل ہے۔ اس ترکیب میں موجود لفظ دَر میں، کے معنوں ہی میں بولا جاتا ہے۔
میں، یا اندر، کے معنوں میں دَر، کا استعمال اُردو میں عام ہے۔ مثلاً در اصل، یعنی اصل میں۔ در حقیقت، یعنی حقیقت میں۔ در گور، یعنی قبر میں (کبھی کبھی کسی کسی کو زندہ در گور، بھی کر دیا جاتا ہے)درکار، یعنی کام میں (مراد مطلوب اور ضروری) در پردہ، یعنی آڑ میں یا پردے میں۔ در آمد، اصطلاحاًوہ مال جو ملک کے باہر سے ملک کے اندر آتا ہے۔ در آنا، اندر آجانا یا داخل ہو جانا۔ صباؔ کہتے ہیں:
بے محابا ہے حقیقت میں تصور اُس کا
آنکھ کی راہ سے کیا صاف در آیا دل میں
در جوابِ آں غزلیعنی اُس غزل کے جواب میں۔ قطار در قطار، یعنی صف کے اندر صف۔ جوق در جوق، یعنی گروہ اندر گروہ۔ سُود در سود، یعنی سود کے اندر سود۔ در آں حالے کہ، اس حال میں کہ۔ در اندازی، یعنی کسی کے معاملے میں گھسنا اور بے جا مداخلت کرنا، وغیرہ۔
دراصل، درحقیقت اور در گور کی طرح درمیان، بھی مکمل ترکیب ہےدرمیان، کہنے کے بعد میں میں، کرنے کی بالکل ضرورت نہیں رہتی۔ دَر-میان، کا مطلب ہے بیچ میں یا وسط میں۔ میان، کا مطلب بیچ یا وسط ہے۔ یہی لفظ انگریزی میں پہنچ کر 'Mean'ہوگیا ہے۔ چناں چہ علمِ شماریات کی اصطلاح اوسط، کوانگریزی میں 'Mean' کہا جاتا ہے۔ 'Mean' کو بھی میان، جانیے۔ میان، کا استعمال اُردو میں عام ہے۔ مثلاً "شرکت میانۂ حق و باطل نہ کر قبول"۔ مثلاً "بانگِ درا" میں اقبالؔ مردِ مسلمان سے کہتے ہیں:
میانِ شاخساراں، صحبتِ مرغِ چمن کب تک؟
ترے بازو میں ہے پروازِ شاہینِ قہستانی
جب کہ "بالِ جبریل" میں عقل کے غلام فلسفیوں کا حال اور انجام یوں بیان فرماتے ہیں:
تڑپ رہا ہے فلاطوں میانِ غیب و حضور
ازل سے اہلِ خرد کا مقام ہے اعراف
احمد فرازؔ کی ایک مشہور نظم کے بھی دو مصرعے ملاحظہ فرمالیجے:
پھر سے "تو کون ہے؟ میں کون ہوں؟" آپس میں سوال
پھر وہی سوچ میانِ من و تُو پھیلی ہے
مگر بڑے بڑوں کی طرح فرازؔ نے بھی ٹھوکر کھائی ہے۔ وہ بھی "درمیاں میں " استعمال کر گئے:
یہ فاصلہ جو پڑا ہے مرے گماں میں نہ تھا
کہ اب کی بار زمانہ بھی درمیاں میں نہ تھا
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسی مثال اُردو کے اُستاد شاعروں کے ہاں بھی مل جاتی ہے۔ غلام مصطفی ہمدانی مصحفی جو میرتقی میرؔ کے زمانے کے لکھنوی شاعر ہیں، اپنے ایک شعر میں کہتے ہیں:
اوّل تو تھوڑی تھوڑی چاہت تھی درمیاں میں
پھر بات کہتے لکنت آنے لگی زباں میں
مگر کیا بزرگوں سے خطا نہیں ہو سکتی؟ بزرگوں کی خطا کو مضبوطی سے تھامے رکھنا خود خطا ہے کہ "خطائے بزرگاں گرفتن خطا است!"
یوں تو"درمیان میں " استعمال کرنے کی اور مثالیں اور شعرا کے ہاں بھی مل جائیں گی۔ مگر مستند شعرا کی اکثریت اور ماہرینِ قواعد و انشا کے انبوہِ کثیر کے نزدیک "درمیان" کے بعد "میں " کے استعمال کو درست اورجائز نہیں سمجھا گیا۔ مثلاً میر تقی میرؔ کہتے ہیں:
مُنعقِد کاش مجلسِ مُل ہو
درمیاں تُو ہو، سامنے گُل ہو
(مُل، شراب کو کہتے ہیں) محبوب سے کھینچا تانی کے درمیان بھی چچا غالبؔ نے ایک شعر موزوں کر لیا:
غلط ہے جذبِ دل کا شکوہ دیکھو جرم کس کا ہے
نہ کھینچو گر تم اپنے کو، کشاکش درمیاں کیوں ہو
اورمولانا الطاف حسین حالیؔ ہمیں اپنے دریائی تجربات کا حاصل یوں بتاتے ہیں:
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
اقبالؔ بھی ہمالہ کو مخاطب کرکے اُس کو دادِ جوانی دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں
تُو جواں ہے گردشِ شام و سحر کے درمیاں
بہر حال گردشِ شام و سحر کے درمیان یہ فیصلہ تو ہمیں خود کرنا ہے کہ جن اکابر نے درست زبان استعمال کی ہے، ہم اُن کی تقلید کریں یا جن بزرگوں کی بشری لغزشوں کے "درمیان میں " خطا سرزد ہوگئی ہے، ہم مارے محبت و عقیدت کے اُن کی خطا ہی کو سینے سے لگا رکھیں۔
یہ آخری بات کہنے کی ضرورت یوں پڑی کہ احمد فرازؔ، منیرؔ نیازی، جونؔ ایلیا اور سلطان رشکؔ سمیت موجودہ دور کے بہت سے شعرا نے اپنے شعروں کے درمیان بڑے دھڑلّے سے "درمیان میں" استعمال کیا ہے۔ مگر مظفرؔ وارثی بھی تو اسی دور کے ایک شاعر ہو گزرے ہیں جو کہتے ہیں:
طلبِ نمود ہی کیوں نہ ہو، وہ مرا وجود ہی کیوں نہ ہو
ہو مناظرہ جو مرا ترا کوئی درمیاں نہیں چاہیے

