Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Asif Masood
  4. Michelangelo

Michelangelo

مائیکل آنجلو

مائیکل آنجلو کا نام سنتے ہی ذہن میں ایک ایسا آدمی ابھرتا ہے جس کے ہاتھ میں چھینی اور ہتھوڑی ہو، آنکھوں میں دیوانگی کی چمک ہو اور دل میں ایک ایسی آگ دہک رہی ہو جو عام انسان کے بس کی بات نہ تھی۔ وہ صرف ایک مجسمہ ساز نہیں تھا، نہ صرف ایک مصور، نہ ہی محض ایک معمار، وہ ایک ایسا تخلیقی طوفان تھا جو پندرھویں صدی کی تہذیب، آرٹ، مذہب، روحانیت اور انسانیت کے دھارے بدل دینے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ دنیا میں ہزاروں فنکار آئے، ہزاروں گئے، لیکن پانچ سو برس گزر جانے کے باوجود اگر کسی کا فن آج بھی سانس لیتا محسوس ہوتا ہے تو وہ مائیکل آنجلو ہے۔ اس کا وجود فنون لطیفہ کی تاریخ کا وہ دراز باب ہے جسے بند کرنا ناممکن ہے۔ وہ ایک ایسا شخص تھا جس نے پتھر کو جان دی، دیواروں کو آسمان بنایا اور انسانی جسم کو اس کمال کے ساتھ سمجھا گویا اپنی روح کو تراش رہا ہو۔

فلورنس کی گلیوں سے اُٹھنے والا یہ دبلا پتلا سا لڑکا ابتدا میں شاید دنیا کو صرف ایک عام بچہ نظر آتا ہو، مگر قدرت نے اس کے اندر ایک ایسا کائناتی شور رکھ دیا تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ تخلیق کے عظیم دھماکے میں بدلنے والا تھا۔ اسے تعلیم سے کوئی خاص دلچسپی نہ تھی، گھر والے اسے ادب، فلسفہ یا کلاسیکی علوم پڑھانے کی کوشش کرتے رہے مگر وہ بھاگ کر قبرستانوں کے قریب بیٹھ جاتا، وہیں سے انسانی جسم کی ساخت، اس کی گہرائی، اس کے راز اور وہ بیان نہ ہونے والی حقیقتیں سیکھتا جو بعد میں مجسمہ سازی میں اس کی سب سے بڑی طاقت بنیں۔ اس نے پتھر کو کبھی پتھر نہیں سمجھا، وہ اسے ایک بند قید روح سمجھتا تھا جسے آزاد کرنا اس کا مقدس فرض تھا۔ اسی سوچ نے سترہ برس کی عمر میں اسے "پیٹا" جیسے شاہکار تک پہنچایا، یعنی وہ مجسمہ جس میں حضرت مریمؑ اپنے مقتول بیٹے حضرت عیسیٰؑ کو گود میں لیے بیٹھی ہیں اور پوری انسانی تاریخ میں کوئی انسان اس منظر کو اس شدت کے ساتھ کبھی کَھود نہیں سکا۔ لوگ آج بھی کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے جیسے سنگِ مرمر کے اندر خون دوڑ رہا ہو۔

پھر دنیا نے دیکھا کہ ایک عام سا لڑکا کیسے طاقتور ترین بادشاہوں، پوپوں، فلسفیوں اور دانشوروں کا مرکزِ نگاہ بن گیا۔ اس نے جب "ڈیوڈ" تراشا تو پورا اٹلی دہل اٹھا۔ یہ صرف ایک مجسمہ نہ تھا، یہ انسان کی اُس قوتِ ارادی کا اعلان تھا جو کمزوریوں، خوف اور ناکامیوں کو چیر کر روشنی کی طرف اُبھرتی ہے۔ چھ دن نہیں، چھ مہینے نہیں، بلکہ برسوں کی محنت اس خاموش پتھر میں جاگتی دکھائی دیتی ہے۔ اس کے بعد تو اسے وہ کام دیے جانے لگے جو کسی عام فنکار کے وہم و گمان میں بھی نہ آ سکتے تھے۔ روم کی سسٹین چیپل کی بلند چھت اس کے ہاتھوں زندہ ہوئی۔ اس نے رنگوں اور تصویروں سے کائنات کی وہ داستان لکھ دی جسے دیکھ کر انسان آج بھی اپنا سر جھکا لیتا ہے۔ یہ صرف مصوری نہ تھی، یہ ایک ایسی جنگ تھی جو وہ اپنے آپ سے کر رہا تھا، جسم تھک چکا تھا، ہاتھ کانپتے تھے، رنگ ٹپکتے تھے، چھت اسے کچلنے کے قریب محسوس ہوتی تھی، مگر ہمتوں کے اس دیوانے نے کبھی ہتھیار نہ ڈالے۔ چار برس تک الٹا لیٹ کر، ٹانگیں پھسلا کر، کمر توڑ دینے والی اذیت میں اس نے دنیا کا وہ روحانی نقشہ بنایا جو شاید اس کے بعد دوبارہ ممکن نہ ہو۔

مائیکل آنجلو کی زندگی میں شہرت بھی تھی، عزت بھی، دولت بھی، مگر سکون شاید کبھی نہ تھا۔ اس کی روح مسلسل خواہشوں میں جلتی رہتی۔ وہ اپنے ہر کام کو نامکمل سمجھتا، ہر فن پارے میں کوئی کمی ڈھونڈ لیتا اور کسی تعریف کو قبول نہ کرتا۔ شاید اسی اندرونی بے قراری نے اسے عظمت کے اُس مقام تک پہنچایا جہاں صرف وہی لوگ پہنچتے ہیں جنہیں قدرت تخلیق کے راز عطا کرتی ہے۔ وہ کہتا تھا: "میں پتھر کو نہیں کاٹتا، میں تو صرف اس حصے کو ہٹا دیتا ہوں جو اندر چھپی ہوئی روح کو آزاد ہونے سے روکتا ہے"۔ یہ الفاظ اس کے فن کی اصل روح ہیں: تخلیق دراصل چھپے ہوئے حسن کو آزاد کرنے کا نام ہے، خواہ وہ پتھر میں ہو، انسان میں ہو یا دنیا میں۔ اس کی ساری زندگی اسی تلاش میں گزری۔ وہ خدا کا ذکر کثرت سے کرتا، اس کے فن میں گہری مذہبیت تھی، مگر ایک ایسا مذہب جس میں سوال کرنے کی جگہ تھی، روشنی تلاش کرنے کی جگہ تھی اور انسان کی عظمت کو تسلیم کرنے کا حوصلہ تھا۔

صدیاں گزر گئیں، سلطنتیں مٹ گئیں، زبانیں بدل گئیں، معاشرے نئے سانچوں میں ڈھل گئے، مگر مائیکل آنجلو آج بھی زندہ ہے۔ لوگ صرف اس کے فن کو نہیں دیکھتے، اس کی کہانی کو بھی پڑھتے ہیں کہ عظمت کیسے جنم لیتی ہے۔ ایک معمولی انسان کیسے خداداد صلاحیت کو پہچان کر اسے آسمانوں تک لے جاتا ہے۔ وہ ہمارے لیے یہ سبق چھوڑ گیا کہ دنیا کا سب سے بڑا فنکار وہ نہیں جو خوبصورت چیز بنائے، بلکہ وہ ہے جو اپنے اندر کے شور کو پہچان لے اور اسے دنیا کی خدمت کے لیے استعمال کرے۔ مائیکل آنجلو کی زندگی ہمیں بتاتی ہے کہ کمال اتفاق سے نہیں ملتا، جنون، محنت، درد، مسلسل مزاحمت اور اپنے آپ سے لڑنے کے نتیجے میں ملتا ہے۔ وہ کہتا تھا: "ایک آدمی کا بہترین شاہکار اس کی اپنی زندگی ہوتی ہے، باقی سب صرف مشقیں ہیں"۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا نام صرف فنون لطیفہ کی تاریخ میں نہیں، انسانیت کے دلوں میں کندہ ہے۔

مائیکل آنجلو دراصل ایک سبق ہے، خود کو دریافت کرنے کا، اپنے اندر چھپی ہوئی عظمت کو تراشنے کا اور دنیا کو ایسے چھوڑ جانے کا کہ صدیوں بعد بھی لوگ حیرت سے پکار اٹھیں: "یہ کون تھا؟" اس نے مرمر میں جان ڈالی، چھتوں میں آسمان اتارا، انسانی جسم کو روح کے آئینے میں بدلا اور فن کے نام پر ایک ایسا تہذیبی سفر شروع کیا جو آج بھی جاری ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ اگر ارادہ مضبوط ہو اور دل میں روشنی ہو تو انسان بے جان پتھروں کو بھی داستان بنا سکتا ہے۔ مائیکل آنجلو صرف ایک انسان نہ تھا، وہ خدا کی دی ہوئی صلاحیت کا وہ جیتا جاگتا ثبوت تھا جس کے سامنے زمانہ آج بھی خاموش کھڑا ہے۔ یہی اس کا معجزہ ہے، یہی اس کی جاودانگی اور شاید یہی وہ طاقت ہے جسے دنیا فن کہتی ہے اور ہم تقدیر۔

Check Also

Pyas Ke Bohran Se Do Char Iran

By Wusat Ullah Khan