Bohat Deir Ka Di Meharban Aate Aate
بہت دیر کر دی مہرباں آتے آتے

پچھلے چند برسوں سے ملک کے اندر ایک خاص قسم کی یاسیت، مایوسی، گھٹن، فرسٹریشن اپنے عروج پر نظر آئی۔ ملک میں فنون لطیفہ کو ایک جرم بنا دیا گیا۔ معاشرے میں کوئی مثبت رحجان نظر نہیں آ رہا تھا۔ نوجوان نسل کے پاس کوئی بھی ایسی جسمانی ایکٹیویٹی نہ تھی سوائے اک موبائل کے۔
ہاکی کے زوال کے بعد کرکٹ کے کھیل کو بھی ہمارے دشمن ہمسائےنے چالیں چل کے دیس نکالا جیسا کر دیا تھا۔۔ ایسے میں آج کی خبروں میں پنجاب حکومت کا یہ بڑا اقدام کہ پتنگ بازی کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اس فیصلے کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ جب اس پتنگ بازی پر پابندی لگائی گئی تھی اس وقت کے کرتا دھرتا کی اپنی ایک سطحی سوچ تھی۔ جس کا خمیازہ پوری قوم کو برداشت کرنا پڑا۔ پتنگ بازی کو خونی کھیل بنانے والوں کی گرفت کرنے کی بجائے یہ آسان حل پیش کر دیا گیا کہ اس پورے نظام کو ہی لپیٹ دیا گیا۔
اس کے مثبت پہلوؤں سے صرف نظر کی گئی۔ اس کو ایک خاص مذہب قوم کے ساتھ منسلک کر دیا گیا۔ جب کہ حقیقت میں ہمارے دو مذہبی تہوار عیدین کے بعد یہ بسنت موقع دیتی تھی کہ خاندان عزیزو اقارب اکٹھے ہو جاتے تھے۔ کھانے پینے ہنسنے کھیلنے کا موقع ملتا تھا۔ بہت سے غریب لوگوں کا روزگار اس سے وابستہ تھا۔ جو سب ایک غلط فیصلے کی بھینٹ چڑھ گیا۔ ملک میں پتنگ ایک کھیل نہیں پوری انڈسٹری کی شکل اختیار کر گئی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ پوری دنیا سے سیاح آپ کے ملک آنا شروع ہو گئے تھے۔ جب بسنت کا تہوار ہوتا تھا تو ہوٹل انڈسٹری اپنے جوبن پر ہوتی تھی اور پوری دنیا میں اس تہوار کی وجہ سے آپ کے ملک کا نام ایک سوفٹ سٹیٹ میں ہونے لگا تھا۔
یہ رائے بھی مسترد کرنے والی نہیں کہ جانی نقصان بہت زیادہ ہونے لگا تھا۔ اس کا ایک سادہ حل ایک قانون تھا کہ ہر موٹر سائیکل کے اوپر راڈ لگانا لازم کر دیا جاتا۔ زیادہ اموات موٹرسائیکل چلانے والوں کے گلے پر دھاتی ڈور کا کٹاؤ تھا۔ یقیننا یہ قابل گرفت ہے اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے۔ دھاتی ڈور بنانا بیچنا اور استعمال کرنے والوں پر سزائے موت کا قانون لاگو ہونا چاہئے۔
حکومت پنجاب کے بارے میں عوام کے دل میں جو بھی سوچ ہو پر اس ایک فیصلے سے عوام کے دل میں ضرور کہیں نہ کہیں اچھے جذ بات امڈ آئیں گے۔ جس کے لا محالہ آنے والے دنوں میں سیاسی حکومت کو فائدہ ہوگا۔ ایسا فیصلہ بہت پہلے ہو جانا چاہئے تھا۔ لیکن پھر بھی کہتے ہیں کہ دیر آید درست آید
معاشرہ میں جو خوف اور گھٹن کی فضا بن رہی تھی اس میں یقیننا پتنگ بازی کا فیصلہ ہوا کا ایک تازہ اور خوشگوار جھونکا محسوس ہو رہا ہے۔ اب اس فیصلے کو چند بیورو کریٹ کے تنگ نظری کے سبب واپس نہیں ہونا چاہئے۔ اس میں جو بھی بری قباحتیں ہیں ان پر قانون کے مطابق عمل ہونا چاہئے دھاتی ڈور، اسلحہ کا بے دریغ استعمال، جواء جیسی لعنتوں پر زیرو ٹالرینس والی پالیسی اپنا کر بسنت کو اپنی اصل روح کے مطابق ہمیشہ جاری و ساری رہنا چاہئے۔
ہم صرف اس ایک ایونٹ کی مناسب تشہیر کرکے پوری دنیا کے سیاحوں کو اپنے ملک کی طرف راغب کر سکتے ہیں۔ یاد رہے بہت سے ممالک صرف سیاحت کی بنیاد پر اپنا وجود بنائے ہوئے ہیں۔ سیاحت انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکی ہے اور ہمیں دنیا سے اس میں سے اپنا حصہ وصول کرنا ہے۔ بسنت یا پتنگ بازی اس کے لئے ایک اچھا ذریعہ بن سکتی ہے۔

