Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Muhammad Aamir Hussaini
  4. 6 Nukaat Aur Markaz, Kuch Nahi Badla

6 Nukaat Aur Markaz, Kuch Nahi Badla

چھے نکات اور مرکز، کچھ نہیں بدلا

"مرکز کو 65 کھرب روپے درکار ہیں۔ اس کے لیے ایف بی آر کو ٹیکسز کو جی ڈی پی کے تناسب سے 10 فیصد سے آگے لیجاکر 15 فیصد کرنا ہوگی اور صوبوں کو اپنے ٹیکسز کی آمدنی جی ڈی کے حساب سے مزید 3 فیصد کرنا ہوگی جو اس صفر اعشاریہ 28 فیصد ہے۔ یہ اضافہ انہیں زرعی آمدنی، سروسز اور پراپرٹی پر ٹیکسز میں اضافہ کرکے کرنا ہوگا۔ مرکز پر بیرونی اور اندرونی قرضوں کی ادائیگی کا بوجھ ناقابل برداشت ہوگیا ہے۔ تجارتی خسارہ 11 ارب 28 کروڑ ڈالر سے بڑھ کر مالی سال 2026ء کی پہلی ششماہی میں 15 ارب 47 کروڑ روپے ہوگیا ہے۔ پاکستان کو مالیاتی طور پر نادھندگی سے بچنےکے لیے اس سال پھر سعودی عرب، چین اور یو اے ای اور دیگر ممالک سے 2021ء میں ایک سال کے لیے لیے گئے قرضوں کو پھر رول بیک کرانے کی ضرورت ہے۔ مالی سال 2025ء میں اسے 22 ارب ڈالر کی ادائیگی کرنا تھی جس میں سے 16 ارب ڈالر رول بیک کرائے گئے تھے جبکہ باقی کے 6 ارب ڈالر سٹیٹ بینک پاکستان نے اوپن مارکیٹ سے ڈالر خرید کر ادا کیے تھے"۔ (سورس روزنامہ ڈان اشاعت 5 دسمبر 2026ء)

"پاکستان کا مالیاتی سال 1965ء کا تجارتی خسارہ 5 کروڑ 88 لاکھ 92 ہزار 223 ڈالر تھا۔ پاکستان کا کل جی ڈی پی 5 ارب 92 کروڑ 90 لاکھ ڈالر تھی۔ پاکستان کا بیرونی قرضہ ایک ارب 21 کروڑ ڈالر تھا"۔

میں نے یہ دو الگ الگ معشیت کے مرکز کے حوالے سے منظر نامے اس لیے پیش کیےہیں کہ ہمیں 60ء کی دہائی کے آخر میں مشرقی بنگال میں عوامی ليگ کے چھے نکات اور بھاشانی، مظفر احمد، پروفیسر عطاء الرحمان خان سمیت بائیں بازو کی طرف سے پیش کیے گئے گیارہ نکات پر مشتمل مشرقی بنگال کی قومی تحریک کی جانب سے خودمختاری کی مانگ کے مطالبے پر مغربی پاکستان بالادست فوجی ہئیت مقتدرہ اور پاکستان کی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں، پاکستان کے مجموعی سرمایہ دار طبقے، زمیندار اشرافیہ اور مغربی پاکستان کی پنجابی اور اردو اسپیکنگ درمیانے طبقے کے ردعمل کو سمجھنے میں آسانی ہو۔

پاکستان کی متحدہ اپوزیشن اتحاد۔ سی او ڈی نے اعلان تاشقند پر دو روزہ "قومی کانفرنس" کا اعلان کیا۔ 5 اور 6 فروری 1966ء کو یہ کانفرنس لاہور میں منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں شرکت کے لیے شیخ مجیب الرحمان ایک وفد کے ہمراہ 4 فروری کو لاہور پہنچے۔ 5 فروری 1966ء شیخ مجیب الرحمان نے کانفرنس کی سبجیکٹ کمیٹی کے سامنے مشرقی پاکستان کے قومی سوال (آئینی و معاشی خودمختاری) کو چھے نکات کی شکل میں پیش کیا۔ انہوں نے اسے کانفرنس کے ایجنڈے کا حصّہ بنانے کا مطالبہ کیا۔ سبجیکٹ کمیٹی میں خود نوابزادہ نصراللہ خان جو عوامی لیگ کے مرکزی صدر تھے انہوں نے اس کو مسترد کردیا۔ جبکہ متحدہ اپوزیشن میں شامل نیپ (ولی خان) کے علاوہ تمام مسلم لیگی دھڑوں، مذہبی سیاسی جماعتوں (جے یو آئی، جماعت اسلامی، جے یو پی وغیرہ) نے اسے "انتہائی اشتعال انگیز" اور پاکستان کو ٹکڑے کرنے کی سازش قرار دے کر مسترد کردیا۔ اسے قومی کانفرنس کے ایجنڈے کا حصّہ بنانے سے انکار کیا۔ شیخ مجیب الرحمان اور ان کے ساتھ آئے وفد نے اس قومی کانفرنس کا بائیکاٹ کردیا اور وہ قومی کانفرنس میں شریک نہ ہوئے۔

چھے فروری 1966ء کو مغربی پاکستان کے تمام اردو اور انگریزی اخبارت نے شیخ مجیب الرحمان کے چھے نکات کے حوالے سے جو خبریں، تجزیے اور اداریے لکھے ان کا لب لباب یہ تھا کہ یہ پروگرام پاکستان کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی سازش ہے اور شیخ مجیب الرحمان کو علیحدگی پسند سیاست دان قرار دیا گیا۔

دس فروری 1966ء کو شیخ مجیب الرحمان نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس کی۔ چھے نکات کو پیش کیا اور انہیں مشرقی بنگال اور اس کی عوام کے لیے انہیں زندگی اور موت کا سوال قرار دیا۔ اس پریس کانفرنس کے دوران وہاں پر موجود رپورٹروں کی اکثریت کا رویہ شیخ مجیب الرحمان کی طرف انتہائی معاندانہ تھا۔ ان پر ملک توڑنے کی سازش کا الزام لگایا گیا۔

شیخ مجیب الرحمان نے ڈھاکہ واپسی پر 21 فروری 1966ء کو عوامی لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں 6 نکات پیش کیے اور کمیٹی نے انہیں منظور کرلیا۔

18 مارچ 1966ء کو "ہمارے بقا کا مطالبہ: 6 نکاتی پروگرام" کے عنوان سے عوامی لیگ نے ایک کتابچہ تیار کیا اور یہ کتابچہ انگریزی اور بنگلہ دونوں زبانوں میں لاکھوں کی تعداد میں شایی ہوکر پورے مشرقی بنگال میں تقسیم ہوا۔ اس کے بعد عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں 6 نکاتی پروگرام کے حق میں بہت بڑے پیمانے پر عوامی احتجاجی تحریک شروع کردی۔ جون میں صدر ایوب خان نے 6 نکات کو پاکستان کے خلاف سازش قرار دیا تو اس کے بعد یہ تحریک اور تیز ہوگئی اور 7 جون 1966ء کو عوامی لیگ نے مشرقی بنگال میں عام ہڑتال کی کال دی جو زیردست کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ اس دوران شیخ مجیب الرحمان کو دو بار گرفتار کیا گیا۔

مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ، نیپ بھاشانی، پروگریسو نیشنل پارٹی، بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی طلباء و مزدور تنظیمیں، پروفیشنل باڈیز سب کے سب مضبوط مرکز اور اس کے پاس اختیارات کے وسیع دائرے کو ختم کرکے داخلی خودمختاری کا مطالبہ کر رہے تھے۔ ان کا بنیادی موقف تھا کہ مرکزی حکومت اور صوبہ مغربی پاکستان مشرقی پاکستان کا زبردست استحصال کر رہا تھا۔ وہ مشرق پاکستان سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ کو مشرقی پاکستان میں خرچ کرنے کا مطالبہ بھی کر رہے تھے۔ وہ ٹیکسشن اور ریونیو کے اختیارات مکمل طور پر صوبوں کو منتقل کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کی الگ الگ کرنسی کے اجراء کا مطالبہ کر رہے تھے۔ وہ وفاق کے پاس دفاع، خارجہ اور مواصلات رکھنا چاہتے تھے۔

مغربی پاکستان کا پریس، سیاسی جماعتیں (سوائے نیپ ولی خان اور نیپ بھاشانی کو چھوڑ کر)، فوجی جنتا، سرمایہ دار، جاگیردار، بیوروکریسی اور درمیانے شہری طبقے کی اکثریت مرکز کے اختیارات میں کمی، ٹیکسشن اور ریونیو کے اختیارات کی صوبوں کو منتقلی کی شدید مخالفت کر رہے تھے۔ وہ مشرقی پاکستان کی قومی اور آئینی خودمختاری کے حامیوں کی طرف سے مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان ميں واضح سماجی۔ معاشی فرق، مرکزی حکومت، انتظامیہ، عدلیہ، سرمایہ دار، مڈل کلاس اور ریاستی ڈھانچے میں پائے جانے والے پنجابی۔ اردو اسپیکنگ ایتھنک غلبے پر پیش کردہ اعداد و شمار اور حقائق کو یکسر رد کر رہے تھے۔ ایوب خان کی حکومت نے سرکاری پریس اور مغربی پاکستان کے اخبارات میں بڑے منظم انداز سے سرکاری اعداد و شمار سے یہ دکھانے کی کوشش کی کہ اس نے مشرقی پاکستان پر گزشتہ پانچ سالوں میں اسکی آبادی کی نسبت زیادہ ترقیاتی فنڈز خرچ کیے ہیں۔ یہ بیانیہ یہ تسلیم کرنے سے انکاری تھا کہ مشرقی بنگال میں پائی جانے والی احساس محرومی کوئی سماجی، معاشی اور سماجی۔ سیاسی بنیادیں موجود تھیں اور مشرقی بنگال کو ایک کالونی کے طور پر نہیں چلایا جا رہا تھا۔

مغربی پاکستان کے لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں بیٹھے ماہرین معشیت کا ایک ہی موقف تھا کہ مرکز پر بیرونی اور داخلی قرضوں کا بھاری بوجھ ہے۔ تجارتی خسارہ بہت زیادہ ہے، سندھ، خیبرپختون خوا اور مرکز کے ماتحت علاقے، خاص طور پر مشرقی بنگال انتظامی، دفاعی اور دیگر اخراجات کے حوالے سے بوچھ ہے وہ خود اتنے ٹیکسز اور ریونیو اکٹھا نہیں کرتا، دوسرا مرکز کا موقف تھا کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان صوبہ کی انتظامیہ ميں اتنی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ ٹیکسز اور ریونیو میں خودمختاری کو سنبھال پائیں گے۔

مغربی پاکستان خاص طور پر پنجابی اور اردو اسپیکنگ انٹیلجنٹسیا کی بہت بھاری تعداد کی نظر میں مضبوط مرکز سے ہٹ کر کم اختیارات کا مالک مرکز اور زیادہ اختیارات کے مالک صوبے پاکستان کی سالمیت، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہندوستان کی سازش ہے اور یوں شیخ مجیب الرحمان کے چھے نکات پاکستان اور اسلام کے خلاف ہندوستان کی گہری اور منظم سازش قرار پائے۔ اس معاملے میں ان کی نظر میں سوویت یونین اور اس کا اتحادی کمیونسٹ بلاک ہندوستان کی مدد کر رہا تھا۔ بعد ازاں اس منصوبے میں انہیں پورا مغربی عالمی پریس اور حکومتیں بھی اس سازش میں شریک نظر آئیں۔

اگر ہم اس زمانے میں مغربی پاکستان کے چین نواز بائیں بازو کی گروپوں کو دیکھیں جن کی نظریاتی رہنمائی زیادہ تر پنجاب کے شہری مراکز اور کراچی کے درمیانے طبقے کے دانشور کر رہے تھے ان کی نظر میں عوامی لیگ، مشرقی پاکستان کے ماسکو نواز بائیں بازو کے گروپ، طلباء و مزدور تنظیموں کی قیادت اور کمیونسٹ پارٹی مشرقی بنگال سب کےسب "سوشل سامراج" سوویت یونین اور "ہندو بورژوازی کے مفادات" کی ترجمان سامراجی توسیع پسند بھارتی حکومت کے ایجنٹ تھے۔ مشرقی پاکستان کی قومی خودمختاری کی تحریک کو بھی سازش کےنکتہ نظر سے دیکھ رہے تھے۔

جب کہ دوسری جانب مشرقی بنگال کا بایاں بازو چاہے وہ ماسکو نواز تھا یا چین نواز اور ان کے اس وقت کے تین بڑے نمایاں لیڈر کامریڈ مظفر احمد، پدوفیسر عطاء الرحمان اور مولانا عبدالحمید بھاشانی یہ نہ صرف مشرقی بنگال کی قومی خودمختاری کی حمایت کر رہے تھے بلکہ اس سے آگے یہ چھے کی بجائے تیرہ نکات پر مبنی پروگرام پیش کر رہے تھے اور جب 22 اور 23 مارچ 1971ء کو پاکستان آرمی نے مشرقی بنگال میں فوجی ایکشن شروع کیا تو مشرقی بنگال میں زیر زمین گوریلا جنگ میں بائیں بازو کے چین نواز ماؤاسٹ سب سے زیادہ سرگرم تھے۔

چین نواز مشرقی بنگال کے گوریلا لیڈروں نے مغربی بنگال میں جاکر وہاں ایک عرصے سے چل رہی نکسلائٹ تحریک سے روابط پیدا کیے۔ مولانا عبدالحمید بھاشانی کلکتہ پہنچے تو کمیونسٹ پارٹی آف مارکسسٹ (چین نواز دھڑے) اور کمیونسٹ پارٹی انڈیا ماؤسٹ (زیر زمین اور نکسلائٹ تحریک کی رہنماء) نے ان کا زبردست سواگت کیا۔ اس سے خود اندرا گاندھی حکومت بھی پریشان ہوگئی۔ انہیں خطرہ ہوا کہ کہیں مشرقی بنگال کی تحریک آزادی متحدہ سوشلسٹ ری پبلک آف بنگال کے قیام کی گوریلا جنگ ميں نہ بدل جائے۔ بھارت کی مشرقی پاکستان میں براہ راست مداخلت اور مکتی باہنی کو عسکری لحاظ سے مضبوط کرنے میں اس فیکٹر کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔

آج پاکستان کو بلوچ اکثریتی علاقوں میں پوری طاقت سے ویسی قومی خودمختاری کی ایک مضبوط ترین تحریک کا سامنا ہے۔ اس تحریک میں ایک سیکشن مکمل آزادی کی بات کر رہا ہے تو دوسرا سیکشن فی الحال مرکز کے پاس دفاع، خارجہ اور مواصلات رکھ کر باقی سب اختیارات صوبوں کو منتقل کرنے کی مانگ کر رہا ہے۔ جب کہ دوسری طرف سندھ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں پارلیمانی راستے پر چلنے والے قوم پرست اور پاکستان پیپلزپارٹی جیسی سیاسی جماعتیں اٹھارویں ترمیم پر من و عن عمل کرتے ہوئے مرکز سے قریب قریب سو ڈیپارٹمنٹ کو تحلیل کرنے کی مانگ کر رہے ہیں۔

پنجاب اور مرکز خود پاکستان تحریک انصاف کی پنجاب سے تعلق رکھنے والی قیادت مضبوط مرکز کے حق میں ہے اور وہ پاکستان کے کل قرضوں کا جی ڈی پی کے 56 فیصد ہونے، بڑے تجارتی خسارے کو لیکر نہ صرف ایف بی آر کے دائرہ اختیار میں موجود ٹیکسز جی ڈی پی کی 15 فیصد شرح تک لیجانے اورصوبوں کے دائرہ اختیار میں موجود ٹیکسز کو جی ڈی پی کی 3 فیصد شرح تک لیجانے کی مانگ کر رہا ہے۔ اس اٹھارویں ترمیم کو وہ شیخ مجیب الرحمان کے 6 نکات سے کہیں زیادہ خطرناک قراردے رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پنجاب اور مرکز آج بھی فروری 1966ء کی پوزیشن پر کھڑے ہیں۔

Check Also

Bohat Deir Ka Di Meharban Aate Aate

By Dr. Ijaz Ahmad