Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Athar Rasool Haider
  4. Jab Bhi Dekha Hai Tujhe Aalam e Nao Dekha Hai

Jab Bhi Dekha Hai Tujhe Aalam e Nao Dekha Hai

جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم نو دیکھا ہے

مولانا روم سے کون واقف نہیں۔ اپنے نام کے ایک، صوفیوں میں سالک، شاعروں میں عاشق اور واعظوں میں زاہد۔ جگت استاد آدمی ہیں، جو چاہئے ان کے ہاں سے ملتا ہے۔ ہم انہیں شاعرِ قصہ گو جانتے اور زبان فارسی میں استاد مانتے ہیں۔ ان کی روایت ہے کہ ملکِ خراسان کا ایک آدمی کہ آسائشاتِ دنیا سے مالامال، دین و دنیا سے خوشحال، مجموعہ ہر کمال تھا۔ ہر نعمت جو خدا کے ہاں سے مل سکتی ہے، دولت کدے پر مہیا تھی۔ فرصت کی نفیریاں بجاتا اور نت نئے مشغلوں سے دل بہلاتا تھا۔

ایک دفعہ جو جی میں آئی تو اصطبل میں پالنے کو ایک ہاتھی مہیا کیا۔ یہ جنگوں اور جنگلوں کا جانور، شہر میں کیا کام، ہر کس و ناکس کیلئے تماشہ بن گیا۔ ایک خلقت دیکھنے اُمڈ آئی۔ دن بھر تانتا بندھا رہا۔ ایک جاتا ایک آتا تھا۔ غرض اسی ہیر پھیر میں دن گزرا۔ جیسا کہ داستانوں میں رواج ہے، شہر میں چار درویش بھی تھے۔ آنکھیں بے نور لیکن دل معمور، شام ہوئی تو ان کے بھی جی میں آئی کہ نایاب جانور ہے، چل کر دیکھنا ضرور چاہئے۔ ٹھوکریں کھاتے، دیواریں سہلاتے چلے۔ احاطے میں پہنچ کر جو شے ہاتھ آئی اسے ٹٹولا اور لوٹ آئے۔ اب جو آپس میں صلاح ہوئی تو اس کا نقشہ کچھ یوں کہ جس کا ہاتھ دُم پر پڑا وہ بولا، "ہاتھی عجیب جانور ہے، گویا جانور کیا سانپ کی مانند ایک دراز رسی ہے"۔

دوسرا جس نے ٹانگ ہی سہلائی تھی بولا، "یہ بھی ایک ہی کہی، میاں جو چل کر گئے تھے تو ذرا چھونے کی زحمت بھی کر لی ہوتی۔ بھئی ہاتھی تو ایک بڑا ستون ہے"۔ تیسرا یہ سن کر ہنسا کہ اس نے جانور کے فقط کان ہی ٹٹولے تھے، "لو بھئی اسے کہتے ہیں آنکھوں کے آگے خاک سوجھے کیا خاک۔ میں جانوں کہ ہاتھی تو فقط ایک پنکھے کی مانند ہے"۔ آخری بڑے میاں جو سب سے معتبر گنے جاتے تھے، ان کی جہالت پر زیر لب ہنستے ہوئے یوں گویا ہوئے، "رہے ناں آخر اندھے کے اندھے۔ خدا تکبر سے بچائے لیکن کہتا ہوں کہ ہاتھی اگر کسی نے دیکھا ہے تو اس ناچیز نے ہی دیکھا ہے۔ یہ موٹی اور لمبی نلی ہے کہ بس اژدر ہی سمجھو"۔ یہ حضرت ہاتھی کی سونڈ پر ہاتھ پھیر چکے تھے۔

ملک چین کو اگرچہ پانڈوں کا دیس کہا جاتا ہے لیکن ایک بے چارے جی سے مارے اجنبی کیلئے یہ بھی اس ہاتھی سے کم نہیں۔ ہزار رنگ اور لاکھ انگ ہیں۔ ہم نے چنگدو کی بڑی بڑی سڑکیں اور اونچی عمارتیں دیکھیں تو سمجھا کہ یہ چین ہے۔ پھر گوانگ یوان شہر آئے جو چینی معیار کے مطابق شاید تیسرے درجے میں پڑتا ہے، یہاں کی ویرانی اور ٹھہراؤ دیکھا تو جانا کہ اب ہم چین کی روح کو سمجھے۔ پھر آس پاس کو نکلے تو گاؤں دیہات میں ایک اور ہی عالم دیکھا۔ دل نے کہا اصل چین تو یہ ہے۔ لیکن اس پر کیا بس، کل ہم جس جگہ پہنچے اس کا قصہ سنیے اور آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ اب یہ چین ہے یا وہ سب جو بیان کیا جا چکا۔

کل شام عصر کے ہنگام گھر سے نکلے۔ شہر تو سارا دیکھ چکے، ایک نسبتاً ویران سڑک کہ جس پر فقط ٹرک دوڑتے ہیں، ہمارے قدموں کی پہنچ سے باہر تھی۔ اسی طرف چلے۔ چند قدم نکلے ہوں گے کہ پہلے ایک ایسی جگہ آئی جسے انگریزی میں شینٹی ٹاؤن (Shanty Town) اور اردو میں کوچہ خاک نشیناں کہا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ خاک نشینی بھی ترقی یافتہ دنیا کے معیار کی سمجھئے۔ گلیاں تنگ اور آڑے ترچھے گھر چھوٹے سہی لیکن تمام صاف ستھرے اور پکے ہیں جبکہ ہر گھر کے باہر ایک چھوٹی موٹی گاڑی بھی موجود ہے۔ ہر معاشرہ اپنے مادی ارتقاء کے دوران چند متعین مرحلوں سے گزرتا ہے۔

آج سے سینکڑوں سال پہلے ترقی یافتہ شہروں میں بھی گھوڑا یا بگھی کا مالک ہونا دولت کی نشانی سمجھا جاتا تھا۔ پھر ابھی ستر، اسی سال قبل امریکیوں نے امارت دیکھی تو وہاں گاڑیوں کا سیلاب آگیا۔ اہل چین اسی مرحلے پر ماضی قریب میں پہنچے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا بہترین نظام موجود لیکن ہر شخص کے پاس اپنی گاڑی ہے۔ سماجی مرتبے کے لحاظ سے یہ گاڑیاں چھوٹی بڑی ہو سکتی ہیں لیکن بے انتہا پیداوار کے باعث ان کی قیمتیں اتنی کم ہیں کہ غریب سے غریب آدمی بھی سہولت کے ساتھ خرید سکتا ہے۔ یہ سواری سماجی حیثیت کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ درمیانہ طبقہ جرمن گاڑیوں کو پسند کرتا ہے جبکہ غرباء مقامی کمپنیوں کی تیار کردہ کاروں پر منحصر ہیں۔

اس محلے میں ہمیں گلیوں میں کھیلتے ہوئے بچے بھی دکھائی دیے اور چائے خانوں میں مست تاش کھیلتے ہوئے بزرگ بھی۔ ایک دکان جو خدا جانے چائے خانہ یا جواء خانہ تھی، اس میں داخل ہوئے۔ چاروں طرف میزیں آباد تھیں۔ محلے کے تمام بزرگ خشوع و خضوع کے ساتھ کھیلنے میں مصروف تھے۔ ہم کافی دیر اِدھر اُدھر دیکھتے رہے، پھر ایک میز خالی دیکھ کر بیٹھ گئے۔ کسی نے نہ پوچھا کہ میاں کون ہو، کیا بیچتے ہو یا کیا خریدتے ہو؟ آخر اٹھ کر آگے چلے۔

اُسی سڑک پر آگے بڑھے تو ویرانی کی آغوش میں اترتے چلے گئے۔ اِکا دُکا گاڑیوں کے علاوہ کوئی گزرنے والا نہ تھا۔ آبادی کی بجائے اب دونوں طرف پہاڑ اور ان پر چھائے ہوئے صنوبر کے جنگل تھے۔ سڑک سے جو پگڈنڈی جنگل میں داخل ہوتی اس پر چار، چار فٹ کے لہسن یا دھنیے وغیرہ کے کھیت دکھائی دیتے۔ ہم ایک پگڈنڈی پر چلے اور کچھ دور تک پہاڑ پر چڑھتے گئے۔ ایک مقام پر درخت اس قدر گھنے ہو گئے کہ رات کا گمان ہونے لگا، چنانچہ واپس اتر آئے۔ کچھ آگے چل کر یہی سڑک اس پُر اسرار گاؤں میں داخل ہوتی ہے جس کا ذکر مقصود ہے۔ سڑک کے ساتھ ساتھ ایک پہاڑی نالہ چلتا ہے جو ٹھنڈ کے باعث سوکھ چکا ہے۔ اس پر ایک پُل آیا تو ہم سڑک کو چھوڑ کر اس پر ہو لیے۔ پل کے پار ایک گاؤں آباد تھا اور گاؤں میں داخل ہونے والی راہ کے ایک طرف جنگل اور دوسری طرف پکے مکان تھے۔

یہ مکان عین اسی طرز کے تھے جو بچپن میں ہم نے جاپانی اور چینی فلموں میں دیکھے تھے۔ ہایاؤ میازاکی (Hayao Miyazaki) جاپان کا وہ نابغہ آرٹسٹ اور فلم میکر ہے جس کے فکشن کی دنیا کئی سالوں سے ہمارے دل میں آباد تھی۔ کہتے ہیں کہ حقیقت کے خلاف فنکارانہ اظہار فکشن کہلاتا ہے۔ آرٹسٹ حقیقی دنیا کے ساتھ بغاوت کرتے ہوئے اپنی مرضی کے مطابق ایک دنیا تخلیق کرتا ہے۔ چنانچہ ہایاؤ میازاکی کی بنائی ہوئی دنیا بھی حقیقت سے کوسوں دور تھی اور اسی لیے چین آتے ہوئے ہمارے دل میں اسے یوں اپنے سامنے دیکھنے کا کوئی تجسس نہیں تھا۔

یہ بات عین مصلحت بھی تھی کہ جب سے ہم یہاں پہنچے تھے فقط سینکڑوں منزلہ اونچی عمارتیں اور بڑی بڑی سڑکیں ہی دیکھی تھیں۔ چین کا وہ خیالی امیج جو ہمارے ذہن میں تھا، آج سے پہلے یوں آنکھوں کے پردے پر نہیں اُترا تھا اور اتربھی نہیں سکتا تھا کہ یہ جگہ شہر سے اتنی دور اور اتنی غیر اہم تھی کہ کسی سیاح کے قدم یہاں نہیں پڑ سکتے۔ راہ میں کئی دفعہ کملیش نے ہمیں ٹوکا کہ اب واپس چلو آگے کچھ بھی نہ ہوگا۔ لیکن اب وہ بھی آوارہ گردی کی برکتوں کا معترف ہوگیا تھا اور بار بار تشکر آمیز نظروں سے ہمیں دیکھ رہا تھا۔ جنگلوں میں بھی راستے تو ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک راہ جو کسی طرف جاتی ہو، اس پر کچھ بھی نہ ہو۔ یہاں نہ سہی تو چند میل اور سہی۔

گاؤں میں ہم داخل ہوئے تو ایک بوڑھی عورت دکھائی دی۔ جو سڑک پر بکھرے سنہری پتوں کو اپنے آہستہ قدموں سے روندتی جا رہی تھی۔ اس کے علاوہ ایک اور دو منزلہ مکانوں میں مکمل خاموشی کا راج تھا۔ ہر مکان کے آس پاس اگر کوئی ہاتھ بھر بھی جگہ تھی تو اس پر کچھ نہ کچھ کاشت کر رکھا تھا۔ چھوٹے چھوٹے پودوں پر سورج کی سنہری روشنی میں چمکتی ہوئی مرچیں اور زمین سے جھانکتے شدید سرخ رنگ کے شلجم انتہائی خوبصورت دکھائی دیتے تھے۔ مرغیوں کے ڈربے اور ان میں کڑکڑاتی مرغیوں کا شور سکوت کو توڑنے والی واحد آواز تھی۔ کسی کسی گھر کے باہر خواتین کچھ بکھیرتی یا سمیٹتی دکھائی دیتیں اور ہمیں اپنے گھر کی یاد آ جاتی۔ درمیانی عمر کی عورتیں سب ماؤں کی طرح دکھائی دیتی ہیں۔ کملیش ہمیں کچھ سوچتا ہوا دیکھ کر بولا، "کیا سوچ رہے ہیں نواب صاحب؟" پھر جواب سنے بغیر خود ہی بولا "ہمارے ہاں بنگالی میں ایک محاورہ ہے کہ مائیں سب ایک جیسی ہوتی ہیں"۔

"ہمارے ادھر بھی یہ محاورہ تو ہے، لیکن تھوڑا فرق ہے۔ ہمارے ہاں کہتے ہیں کہ مائیں سانجھی ہوتی ہیں"۔ ہم نے جواب دیا۔

"سہی کہتے ہیں۔ اس خاتون کو دیکھئے"۔ اس نے سامنے صحن میں بکھری مرچیں سمیٹتی ہوئی خاتون کی طرف اشارہ کیا۔ "یہ ابھی مرچیں سمیٹے گی اور پھر گھر کی پچھلی جانب جو کپڑے سوکھ رہے ہیں انہیں اتارنے جائے گی۔ اس کے بعد سبزی کاٹنے بیٹھے گی۔ اس کا بچہ جو ابھی اسکول جاتا ہے، ایک کمرے میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا ہے اور اس کا شوہر ابھی شہر سے نہیں لوٹا"۔

ہم نے دیکھا کہ کملیش اپنے بچپن میں پہنچ چکا تھا۔ اسے خبر نہ تھی کہ ٹی وی پر کارٹون دیکھنے والی نسل کب کی بچپن کی حدوں کو پار کر چکی ہے اور ٹی وی خود قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ ٹراؤزر شرٹ پہنے اور سر پر رومال باندھے مرچیں چننے والی یہ خاتون اسے ساڑھی میں لپٹی اپنی ماں دکھائی دے رہی تھی۔ گوانگ یوان کا یہ محلہ دیناج پور کے کسی محلے میں تبدیل ہو چکا تھا اور اس مکان کے باہر گلاب کے پودے پر لگے سیر سیر بھر کے گلاب نیلوفر بن چکے تھے۔

اونچی نیچی گلیوں پر چلتے ہوئے گاؤں کے تقریباً وسط میں پہنچے تو ایک چھوٹا سا پارک دکھائی دیا جس میں ورزش کے آلات دستیاب تھے۔ یہ پارک بھی اسی ویرانی سے دوچار تھا جو بقیہ گاؤں کا مقدر تھی۔ وہ چند عورتیں دکھائی نہ دیتیں تو ہم یہی سمجھتے کہ لوگ منگولوں کی آمد کا سن کر گھر چھوڑ چکے ہیں۔ جاپان میں کچھ برس ادھر ایک زلزلے کے بعد ایٹمی ری ایکٹر تباہ ہوا تو تابکاری کے خدشے سے پورا شہر خالی کروانا پڑا۔ لوگ جیسے بیٹھے تھے ویسے ہی نکل کر چل دیے۔ گھروں میں سب سامان یونہی پڑا ہے جیسے جانے والے ابھی لوٹ آئیں گے۔ کسی بچے کی کاپی میز پر دھری ہے اور کسی کا لباس آدھا استری شدہ میز پر انتظار کر رہا ہے۔ اہل پنجاب اس تجربے سے نامانوس نہیں ہیں جن کی چوتھی نسل اپنے ڈی۔ این۔ اے میں اس تجربے کو لے کر بڑھ رہی ہے۔

ایک بوڑھا جو ورزش تو درکنار ہر قسم کی حرکت کے مرحلوں سے گزر چکا تھا پارک کی کنارے بیٹھا ہمیں بے تعلقی سے دیکھ رہا تھا۔ اس کے کھُلے ہوئے منہ اور مدھم ہوتی ہوئی آنکھوں میں اس حیرت کا کوئی رنگ نہیں تھا جو ہمیں دیکھ کر اکثر لوگوں کے چہروں پر در آتی ہے۔ ہم اس کے مخالف سمت بیٹھ کر خود کو یقین دلانے کی کوشش کرتے رہے کہ ہم واقعی اس دنیا کا حصہ ہیں اور پھر اُٹھ کر چل دیے۔ بطخوں کا ایک غول ہمیں دیکھتے ہوئے کہیں سے آ نکلا تھا۔ سورج کا سنہرا پن سرخی میں بدلنے لگا تھا اور ہم گھر سے کافی دور تھے۔

Check Also

Michelangelo

By Asif Masood