حکومت کی معاشی کامیابیاں اور بھولے عوام
وزیر اعظم عمران خان نے اپنی ٹیم کو ہدایت کی ہے کہ وہ حکومت کی معاشی کامیابیاں عوام کے سامنے لائے۔ وزیر اعظم کے باتوں سے یہ لگ رہا ہے کہ عوام کو ان کی حکومت کی معاشی کامیابیاں معلوم ہی نہیں ہیں۔ جس کی وجہ سے عوام حکومت کو معاشی میدان میں ناکام سمجھ رہے ہیں۔
ایسا لگ رہا ہے کہ وزیر اعظم اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کی حکومت نے معاشی میدان میں بڑے معرکہ سر کر لیے ہیں اوران کامیابیوں کی گونج عوام تک نہیں پہنچ رہی۔ جب کہ اس کے مقابلے میں اپوزیشن کا پراپیگنڈا عوام تک پہنچ رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کی تشویش بے جا نہیں ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ انھیں اس بات کا احساس ہے کہ معاشی سرگرمیوں کے ثمرات عوام تک پہنچنا ناگزیر ہیں۔ انھیں اس بات کا احساس ہے کہ حکومت کی معاشی کارکردگی عوام میں ان کی مقبولیت میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ انھیں اس بات کا اندازہ ہے کہ معاشی کارکردگی ہی ان کی کامیابی اور ناکامی کا معیار طے کرے گی۔ یہ بات قابل اطمینان ہے کہ عمران خان کو اندازہ ہے کہ معاشی کارکردگی کے بغیر ان کی حکومت کی کامیابی ممکن نہیں۔
جب سے پی ڈی ایم نے مہنگائی اور حکومت کی معا شی ناکامیوں کو ہدف تنقید بنایا ہے۔ تب سے حکومت اور بالخصوص عمران خان کے اندر یہ احساس شدت اختیار کر گیا ہے کہ عوام کو حکومت کی معاشی کامیابیوں سے آگاہ کیا جائے۔ ورنہ اس سے پہلے حکومت کی پالیسی یہ تھی کہ سارا ملبہ گزشتہ حکومتوں پر ڈال کر وقت گزارا جائے اور خود کو بری الذمہ قرار دیا جائے۔
یہ حکمت عملی دو سال تک کامیاب رہی۔ حکومت نے ا چھا ہنی مون گزارا۔ لیکن جیسے ہر چیز کی ایک حد ہوتی ہے اسی طرح حکومت کی اس حکمت عملی کی بھی ایک حد تھی جو ختم ہو گئی ہے۔ لوگ اب حکومت سے ماضی کی حکومت کی کرپشن کہانی نہیں بلکہ اپنی کارکردگی جاننا چاہتے ہیں۔ سوال اب یہ ہے کہ آپ نے کیا کیا ہے؟
وزیر اعظم عمران خا ن کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ معاشی کارکردگی ایسی چیز ہے جسے عوام کو بتانے کی ضرورت نہیں پیش آتی۔ یہ سورج کی روشنی کی طرح سب کو نظر آتی ہے۔ آپ کو اپنا سیاسی بیانیہ بتانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ مخالفین کے عیب بتانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اپنا منشور اور اپنے وعدے بتانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔
لیکن معاشی کارکردگی بتانے کی ضرورت کم ہی پیش آتی ہے۔ یہ لوگ خود بخود محسوس کر لیتے ہیں۔ لوگوں کو اپنی جیب سے حکومت کی معاشی کامیابیوں کااحساس ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ معاشرے میں معاشی خوشحالی حکومت کی معاشی کامیابی کی گواہی دینا شروع کر دیتی ہے۔ روزگار کے مواقع بتاتے ہیں کہ حکومت کتنی کامیاب ہے۔ قوت خرید بتاتی ہے کہ حکومت کی معاشی پالیسیاں کتنی کامیاب ہیں۔
یہ کیسے ممکن ہے کہ حکومت ہر ماہ مسلسل بجلی مہنگی کرتی جائے اور ساتھ ساتھ یہ بھی چاہے کہ لوگ اس کی معاشی پالیسیوں کے گرویدہ بن جائیں۔ ابھی گزشتہ روز پھر بجلی مہنگی کی گئی ہے۔ ہر ماہ فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی مہنگی کی جاتی ہے۔ مہنگی بجلی ہر شہری کے بجٹ کو متاثر کرتی ہے۔ ہر جیب پر اثر ڈالتی ہے۔
اب بجلی کوئی لگژری نہیں ہے بلکہ بنیادی ضروریات زندگی میں شامل ہے۔ اگر حکومت نے اپنی معاشی کارکردگی کا جائزہ لینا ہے تو اس بات کا جائزہ ہی لے لے کہ اس نے گزشتہ دو سال میں بجلی اورگیس کی قیمتوں میں کس قدر اضافہ کیا ہے۔ ہم مانتے ہیں کہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدوں کی وجہ سے مجبور تھی لیکن عام آدمی کو اس مجبوری نے معاشی طور پر بے حال کر دیا ہے۔ گھریلو بجٹ اپ سیٹ ہوگئے ہیں۔ جب تک بجلی و گیس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، تب تک عام آدمی کو یہ یقین دلانا مشکل ہے کہ حکومت کو معاشی میدان میں کوئی کامیابی ملی ہے۔
حکومت عوام کو لاکھ سمجھائے کہ اس نے تجارتی خسارہ ختم کر دیا ہے۔ لیکن عام آدمی یہ جاننا چاہتا ہے کہ اس کے نتیجے میں اسے براہ راست کیا فائدہ ہواہے۔ یہ درست ہے کہ قومی خزانے کو اس کا بہت فائدہ ہوا ہے۔ تجارتی خسارہ پاکستان کو دیمک کی طرح کھا رہا تھا۔ لیکن عام آدمی تو ان پالیسیوں کے ثمرات اپنے تک پہنچنے کا خواہش مند ہے۔
لوگ روپے کی قدر میں کمی سے متاثر ہوئے ہیں۔ لوگ تجارتی سرگرمیوں میں کمی سے متاثر ہوئے ہیں۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ مارکیٹ میں خوشحالی کیوں غائب ہو گئی ہے۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ کاروبار بڑھنے کے بجائے سکڑ کیوں رہے ہیں۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ روزگار کے مواقع بڑھنے کے بجائے کم کیوں ہو گئے ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ملازمین کیوں نکالے ہیں۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ کئی دہائیوں سے منافع پر چلنے والی کمپنیاں یک دم خسارے میں کیسے چلی گئیں۔ حکومت کو سمجھناہو گا کہ جب کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہے گا، عوام معاشی میدان میں حکومت کو ناکام ہی سمجھیں گے۔
بات صرف گندم اور چینی کی نہیں ہے۔ دودھ، دہی، سبزیاں، دالیں، چائے کی پتی، انڈے، گوشت سمیت ہر چیز مہنگی ہو چکی ہے۔ دو سال حکومت نے اشیاء صرف کی قیمتوں پر کوئی کنٹرول نہیں رکھا ہے۔ جس کی وجہ مارکیٹ میں قیمتوں میں من مانے اضافے کیے گئے ہیں۔ ادویات کی قیمتیں بھی ایک پہلو ہیں جس نے حکومت کی معاشی ساکھ کو بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔ کہیں نہ کہیں حکومت کو اندازہ کرنا ہوگا کہ ادویات کی قیمتوں میں اضافے نے مریضوں اور ان کے لواحقین کے لیے زندگی عذاب کر دی ہے۔
ہم ایک مشترکہ خاندانی نظام میں رہتے ہیں جہاں بوڑھے ماں باپ کی ادویات بھی عام آدمی کے بجٹ کا حصہ ہوتی ہیں۔ اسپتالوں کی صو رتحال اور وہاں بھی مفت علاج کی سہولت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ یہ سب حکومت کی معاشی کامیابیوں کو عوام کے سامنے مثبت چہرہ کے طور پر نہیں آنے دے رہی ہیں۔
حکومت اور بالخصوص عمران خان کو سمجھنا ہو گا کہ جو مشکل بات عوام کو سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وہ انھیں سمجھ نہیں آسکتی۔ عوام اعداد و شمار کو نہیں سمجھتے۔ آپ انھیں لاکھ گراف بنا کر سمجھائیں۔ لوگ نہیں سمجھیں گے۔ ویسے تو یہ بات بھی زبان زد عام ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں قرضوں میں کمی نہیں ہوئی ہے بلکہ قرضے بڑھے ہیں۔
لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ اب جب کرپشن نہیں ہو رہی تو یہ قرضے کہاں خرچ ہوئے ہیں۔ لوگ سعودی عرب کی جانب سے پیسے واپس مانگنے کو بھی حکومت کی ناکامی ہی سمجھ رہے ہیں۔ عوام کو حکومت کی معاشی پالیسیوں کی سمجھ نہیں آ رہی ہیں۔ لوگ پریشان ہیں کہ حکومت انھیں کونسی معاشی کامیابیاں سمجھانے کی کوشش کر رہی ہے۔