Shadiyon Ka Mausam
شادیوں کا موسم

ہمارے علاقے میں سردیوں کی نرم دھوپ اور بہار کی خوشبو اپنے ساتھ شادیوں کا موسم بھی ساتھ لاتی ہے۔ آجکل بدلتے موسم کے ساتھ ساتھ شادیوں کا موسم گویا بکھرئے ہوئے رشتوں کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کا بہانہ بن جاتا ہے۔ ہمارے صحرائی علاقہ میں لوگ شدید ترین گرمی بھی اسی آس پر جھیلتے ہیں کہ جونہی ٹھنڈا میٹھاموسم آئے گا تو اپنوں کی شادی کی خوشیاں دیکھیں گے اور باہمی میل ملاپ کی گھڑیاں انجوائے کریں گے۔
نومبر کا آغاز شادیوں کے کارڈز اور پیغامات کی نوید لاتا ہے۔ دوسرے علاقوں کی طرح یہاں پورے سال شادی کی تقریب کرنا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ شدت کی گرمی اس علاقے کے موسم کو تقریبات کے لیے مشکل بنا دیتی ہے اور پھر کئی مہینوں بعد ملنے والے دوست، رشتے دار اور بزرگ ایک ہی چھت تلے جمع ہوکر خوشیوں کی وہ خوشبو مہکا دیتے ہیں جو صرف ٹھنڈی راتوں کے خاندانی میلوں میں ہی میسر آسکتی ہے۔
شادی کا دن ہر فرد کے لیے ارمانوں کی تکمیل اور زندگی کا ایک یادگار ترین دن ہوتا ہے۔ ماں باپ کے دیکھے گئے خوابوں کی تعبیر اور حقیقت بننے کا دن بھی ہوتا ہے۔ شادی کا یہ موسم ٹوٹے ہوئے رابطوں کو بحال بھی کرتا ہے روٹھوں کو منانے کا موقع بھی دیتا ہے اور نئے رشتوں کی بنیاد بھی رکھتا ہے۔ میرا گھر بہاولپور میں فیصل باغ جیل روڈ پر واقع ہے یہ علاقہ چاروں جانب سے شادی گھروں میں گھرا ہوا ہے۔ جیل روڈ بہاولپور کا یہ علاقہ شادی کے اس موسم میں عجیب منظر پیش کرتا ہے۔ رش سے جام سڑکوں پر ہر جانب رنگوں اور خوشبوں کی برسات اور خوشی سے سرشار چہرئے دیکھ کر کسی عید کا سماں محسوس ہونے لگتا ہے۔
بازاروں اور گلیوں کی رونقیں دو بالا ہو جاتی ہیں۔ چولہوں کی آنچ، بازاروں میں رش اور گھروں میں گہما گہمی اس موسم کو اور بھی خوبصورت رنگوں میں رنگ دیتی ہے۔ اس موسم کی رونقیں صرف شادی کے گھروں تک محدود نہیں ہوتیں بلکہ گلیوں اور محلوں میں چمکتی لائٹس کا چراغاں، مہندی کے پیلے رنگ، ڈھول کی تھاپ اور آنچلوں پر سجے ستارئے، سرائیکی جھومر، آسمان پر چمکتی آتش بازی، پٹاخوں کا شور، ڈھول تاشے، شہنائی کی مدھ بھری تانیں، یہ سب مل کر پورے ماحول کو اجتماعی خوشیوں سے سرشار کر دیتے ہیں۔ پورے شہر میں لوگوں کی دوڑ دھوپ ایک الگ ہی منظر پیش کرتی ہے۔
بہاولپور کی ثقافت اور روایت بھی اس دوران پوری شان سے دیکھنے کو ملتی ہے۔ لوک گیتوں کی روائتی دھنیں اور سرائیکی جھومر نئی نسلوں کو اپنے ماضی سے جوڑنے کا باعث بنتے ہیں۔ علاقائی لباس، مقامی رسومات، مہندی کی خوشبو اور پھولوں کی لطافت کے یہ تہذیبی رنگ ان شادیوں میں ناصرف نظر آتے ہیں بلکہ نئی نسل تک منتقل بھی ہوتے ہیں۔ سچ تو یہ ہےکہ شادیوں کا یہ موسم صرف خوشیوں کا نہیں تازگی کا موسم ہوتا ہے۔ یہ محبت، معیشت، روایت اور رشتے سب ایک ساتھ کھلنے والے پھولوں کا ہوتا ہے۔
شادیوں کے اس موسم کا سب سے بڑا فائدہ اور مثبت پہلو مقامی معیشت کی بحالی بھی ہوتا ہے۔ ایک شادی درجنوں گھروں کے چولہے ہی نہیں جلاتی بلکہ درزی، سنار، شوز سٹور، باربر سیلون، کپڑے والے، میک آپ آرٹسٹ، فوٹو گرافر، پھول فروش، کاروں کو سجانے والے، ڈھول اور جھومر والوں، بینڈ باجے والوں سے لیکر کیٹرنگ اور پکی پکائی دیگوں والے تک ہر کوئی اپنے حصے کی روزی کمانے کے لیے اسی موسم کے منتظر ہوتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے تو اپنے پورےسال کی روزی اسی دوران پوری کر لیتے ہیں۔ یہ شادیاں بےروزگاری کی اس دھند میں بھی ان کی امیدوں کی شمعیں روشن کردیتی ہیں۔
دوستوں کی دور دور سے آمد اور مدتوں بعد ملاپ ہی تو شادیوں کیا اصل حسن ہوتا ہے۔ اس موقع پر روٹھوں کو منانے کے لیے جھکنے اور منت کرنے کا بھی عجیب منظر ہوتا ہے۔ خوشی کے ماحول میں انائیں دم توڑ دیتی ہیں۔ ہمارے علاقے میں شادی میں شرکت کو اخلاقی اور ثقافتی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے اور شرکت کو فرض اور لازم تصور کیا جاتا ہے اس لیے ایک ہی دن کئی کئی شادیوں میں حاضری لگوانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ آجکل شادیوں میں قوالی نائٹ اور میوزک شو کا رجحان بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔ جہاں موسیقی کی ایک خوبصورت روایت دیکھنے کو ملتی ہے۔ شادی کی سب سے بڑی خوبصورتی اس دوران یادگار فوٹو گرافی ہوتی ہے۔ اگر میں یہ کہوں کہ شادی کی رونقیں بڑھانے میں فوٹو گرافی اور بیوٹی پارلرز کا رول سب سے اہم ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
آجکل شادیوں کی روشنیوں میں ایک بات نمائیاں دکھائی دیتی ہے کہ بیشتر پرانے اور نئے سیاستدان ہر شادی میں شرکت کرتے نظر آرہے ہیں۔ جن میں بڑے ایوانوں کے موجودہ ممبرز اور ساتھ ہی اگلے الیکشن کے متوقع امیدواران کے ساتھ ساتھ بلدیاتی میدان کے کھلاڑی بھی نمائیاں ہوتے ہیں۔ وہ ہر دلعزیز چہرئے جنہیں دیکھنے کی عام آدمی ہمیشہ بڑی حسرت رکھتا ہے اور ان کی آمد کو اعزاز سمجھتا ہے۔ وہ بڑی آسانی سے نہ صرف گلے مل رہے ہیں بلکہ لوگوں کے ساتھ فوٹو شوٹ بھی ہو رہے ہیں۔
کہتے ہیں کہ درحقیقت عوامی تقریبات خصوصی شادیوں میں سیاست دانوں کی مسلسل آمد اور شرکت آنے والی سیاسی ہلچل کا ابتدائی ارتعاش ہوتی ہے۔ یہ ارتعاش شاید انتخابات کے قریب آنے سے جنم لیتا ہے۔ جونہی وہ شادی ہال میں داخل ہوتے ہیں سب کی نظریں ان کی جانب اٹھ جاتی ہیں۔ سب کے ہاتھ ملنے کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔ ایسا کبھی طاقت کے مراکز میں خاموش تبدیلی کی مہک سے اور کبھی کسی پارٹی کے اندر ہلکی سی بےچینی سے سامنے آتا ہے۔ سیاست دانوں کی شادیوں میں یکا یک آمد کچھ ایسے محسوس ہوتی ہے جیسے گرم موسم کی رات میں اچانک تھنڈی ہوا چل پڑئے۔
درخت خاموش رہتے ہیں مگر پتوں کے کناروں پر نمی اتر آتی ہے۔ پرندئے اپنے گھونسلے سے بے وجہ باہر جھانکنے لگتے ہیں اور دور کہیں آسمان کے اندر کوئی دباؤ بڑا فیصلہ کر رہا ہوتا ہے۔ یہ سیاستدان جب سب شادیوں میں دکھائی دیتے ہیں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ الیکشن کے دن نزدیک ہیں۔ کیونکہ ایسے میں سیاستدان یہ احساس ضرور رکھتے ہیں کہ نظر آنا ہی بقا ہوتی ہے۔ گم ہوجانے کا خوف، میڈیا میں اہمیت کی کمی، اندرونی دباؤ اور مستقبل کے امکانات سب مل کر انہیں ان تقریبات کا لازمی حصہ بنا دیتے ہیں۔ شادیوں میں مبارکباد دئے کر وہ دراصل آنے والے دنوں کے لیے اپنے تعلقات کے دھاگے مضبوط کرتے ہیں۔ یہ دھاگے وہی پل ہوتے ہیں جن پر سیاست کا وزن رکھا جاتا ہے اور جب یہ پل ایک ساتھ بننے لگیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ کہیں نہ کہیں کوئی بڑی تبدیلی، کوئی فیصلہ یا کوئی سیاسی موڑ آنے والا ہے۔
اس لیے آج کل سیاست دانوں کی بڑھتی ہوئی آمد کو صرف سماجی اور ثقافتی سرگرمی ہی نہ سمجھیں بلکہ یہ سیاست کا بدلتا موسم ہو سکتا ہے۔ یہ آمد ورفت دراصل مستقبل کی وہ چاپ ہے جو ابھی دھیمی ہے مگر اتنی واضح کہ سمجھ آنے لگے کہ لگتا ہے سیاست کا موسم بھی بدل رہا ہے۔ بہرحال ان کی بدولت شادیوں کی رونق بڑھ رہی ہے۔ اللہ ہمارے علاقے کی یہ رونق اور خوشیاں ایسے ہی برقرار رکھے آمین!

