Siasi Behroopiyon Ke Hathon Kab Tak Lut-Te Rahein Ge?
سیاسی بہروپیوں کے ہاتھوں کب تک لٹتے رہیں گے؟

پاکستانی سیاست کا منظر نامہ دیکھیں تو ایسا لگتا ہے جیسے ایک بڑا تھیٹر ہو جہاں روزانہ ایک ہی ڈرامہ کھیلا جا رہا ہے۔ اس ڈرامے کے کردار بدلتے رہتے ہیں لیکن کہانی وہی پرانی ہے عوام کو دھوکہ دینا ان کی جیبوں سے دولت نکالنا اور پھر انہی کو بیوقوف بنا کر اگلے انتخابات کی تیاری کرنا۔ عنوان بھروپیوں کے ہاتھوں کب تک لٹتے رہو گے؟ ایک سوال نہیں بلکہ ایک چیخ ہے ایک جھنجھوڑ ہے جو ہمیں اپنی حالت زار پر غور کرنے پر مجبور کرتی ہے۔
بھروپیا وہ شخص ہوتا ہے جو مختلف روپ دھار کر لوگوں کو فریب دیتا ہے اور ہماری سیاست میں ایسے بھروپیے بہت ہیں جو عوام کے سامنے تو شیر بنتے ہیں مگر پیچھے سے بھیڑیئے ہوتے ہیں۔ یہ تحریر اسی موضوع پر ایک مفصل بحث ہے جہاں ہم سیاستدانوں کے مکر و فریب عوام کی بے شعوری اور اس نظام کی خرابیوں کو کھول کر دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے کہ یہ لوٹ مار کب سے چل رہی ہے کیسے چل رہی ہے اور اس کا خاتمہ کیسے ممکن ہے۔
سب سے پہلے بات کرتے ہیں ان ظاہری اختلافات کی جو سیاستدان عوام کے سامنے پیش کرتے ہیں ٹیلی ویژن پر دیکھیں پارلیمنٹ میں دیکھیں یا سوشل میڈیا پر ہر جگہ یہی لگتا ہے کہ یہ لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں ایک پارٹی دوسری کو کرپٹ کہتی ہے دوسری پہلی کو غدار مگر یہ سب ایک تماشہ ہے۔ ایک اسٹیج ڈرامہ جو صرف عوام کو مطمئن کرنے کے لیے کھیلا جاتا ہے پردے کے پیچھے جب مفادات کی بات آتی ہے تو یہ سب ایک ہو جاتے ہیں۔
مثال کے طور پر کل تک ن لیگ پی پی کو چور اور پی پی ن لیگ کو چور کہتے نہیں تھکتی تھی جب تیسری پارٹی نے سر اٹھایا تو ان دونوں پارٹیوں کو فکر پڑ گئی اب ہمارا کیا بنے گا تو وہی حریف ایک دوسرے کو چور کہنے والے دوست بن گئے اور آج دونوں مل بانٹ کر اقتدار پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔ یہ عوام کے نام پر لڑتے ہیں مگر جب مالِ غنیمت سامنے آتا ہے تو سب بھڑیئے بن کر ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں۔
یہ بات نئی نہیں ہے پاکستان کی تاریخ دیکھیں تو ایوب خان کے دور سے لے کر آج تک، سیاستدانوں نے عوام کو تقسیم کرکے حکومت کی ہے۔ مذہب، فرقہ، زبان اور صوبائی تعصبات کو ہوا دے کر یہ لوگ اپنے مفادات پورے کرتے ہیں ایک سیاستدان عوام کے سامنے تو غریبوں کا مسیحا بنتا ہے مگر اس کی جائیداد دیکھیں تو اربوں روپے کی ہوتی ہے یہ کیسے ممکن ہے؟ سادہ سی بات ہے عوام کے ٹیکسوں سے، سرکاری فنڈز سے اور کرپشن سے۔ یہ بھروپئے عوام کو خواب دکھاتے ہیں روٹی، کپڑا، مکان مگر خود محلات میں رہتے ہیں۔ عوام کی لڑائیاں صرف دکھاوا ہیں اصل سودے ان میزوں پر ہوتے ہیں جہاں عوام کی کوئی کرسی نہیں ہوتی یہاں ہر کوئی اپنی جیب بھرنے کی بولی لگاتا ہے، اصول اور انصاف صرف نعروں تک رہ جاتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ عوام یہ سب دیکھتے ہوئے بھی کیوں ان بھروپیوں کے جال میں پھنستے رہتے ہیں؟ جواب سادہ ہے بے شعوری اور جذباتی پن نسل در نسل غلامی ہم روز یہ تماشا دیکھتے ہیں مگر پھر بھی پردہ گرنے نہیں دیتے یہی وجہ ہے کہ وہ بار بار لوٹتے ہیں اور ہم بار بار لٹتے ہیں۔ سیاستدانوں کا مکر و فریب ہمیشہ سے صاف نظر آ رہا ہوتا ہے مگر عوام سب کچھ جانتے ہوئے بھی ان کے فریب میں آ جاتے ہیں۔ اس جدید دور میں جہاں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے ہر چیز کو کھول کر رکھ دیا ہے پھر بھی لوگ بیوقوف بنتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگ سیاستدانوں کے لیے رحمت سے کم نہیں کیونکہ ایسے لوگ ہی ان کی سیاست کو زندہ رکھتے ہیں۔
عوام کی یہ بے شعوری کیوں ہے ایک وجہ تعلیم کی کمی ہے۔ پاکستان میں خواندگی کی شرح اب بھی کم ہے اور جو پڑھے لکھے ہیں وہ بھی جذباتی نعروں میں بہہ جاتے ہیں۔ دوسری وجہ میڈیا ہے جو سیاستدانوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنا ہوا ہے ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر جھوٹے پروپیگنڈے چلاتے ہیں لوگوں کو تقسیم کرتے ہیں۔ تیسری وجہ غربت ہے غریب آدمی کو ایک تھیلا آٹا دے دیں تو وہ ووٹ دے دیتا ہے بھلے اس کا مستقبل تباہ ہو جائے یہ لوگ زندگی کی ڈگر پر چل رہے ہوتے ہیں مگر فریب میں مبتلا ہو کر شعور کھو بیٹھتے ہیں۔
اے کاش انہیں کبھی عقل آئے کہ یہ بھروپئے گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں، اگر ہم تاریخ کی طرف دیکھیں تو یہ لوٹ مار برصغیر کی تقسیم سے پہلے سے چل رہی ہے۔ برطانوی راج میں بھی نواب اور جاگیردار عوام کو لوٹتے تھے اور آزادی کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا۔ پاکستان بننے کے بعد پہلے ہی دنوں سے کرپشن شروع ہوگئی لیاقت علی خان کے دور میں بھی سکینڈلز تھے اور پھر ایوب خان نے مارشل لا لگا کر سب کچھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سوشلزم کا نعرہ لگایا مگر خود خاندانی سیاست شروع کی ضیا الحق نے اسلام کا نام لے کر لوٹ مار کی اور پھر بینظیر اور نواز شریف کے دور میں کرپشن عروج پر پہنچی۔
مشرف، زرداری، عمران خان سب نے وعدے کیے مگر نتیجہ وہی صفر عوام لٹتے رہے، یہ بھروپئے ہر بار نئی شکل میں آتے ہیں۔ کبھی جمہوریت کا نام لے کر کبھی مذہب کا کبھی تبدیلی کا مگر اصل میں یہ سب ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ جب اقتدار ملتا ہے تو یہ عوام کی بجائے اپنے خاندان اور دوستوں کو نوازتے ہیں۔ سرکاری نوکریاں، ٹھیکے لائسنس سب کچھ اپنوں کو عوام کو ملتا ہے تو بس وعدے اور جھوٹے خواب یہ نظام ایسا ہے جہاں امیر امیر تر ہوتا جاتا ہے اور غریب غریب تر۔ یہ لوٹ مار صرف مالی نہیں بلکہ معاشرتی بھی ہے۔ جب سیاستدان عوام کو لوٹتے ہیں تو معاشرہ تقسیم ہو جاتا ہے غربت بڑھتی ہے۔ جرائم بڑھتے ہیں تعلیم اور صحت کا نظام تباہ ہو جاتا ہے بچے سکول نہیں جا پاتے ہسپتالوں میں دوائیں نہیں ملتیں یہ بھروپئے عوام کے پیسے سے اپنے بچوں کو بیرون ملک پڑھاتے ہیں مگر یہاں کے سکولوں کو تباہ کر دیتے ہیں نتیجہ یہ ہے کہ ایک پوری نسل تباہ ہو رہی ہے۔
علاوہ ازیں یہ لوٹ مار اعتماد کو ختم کر دیتی ہے لوگ حکومت پر بھروسہ نہیں کرتے قانون پر یقین نہیں رکھتے۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر کوئی اپنے مفاد میں لگ جاتا ہے چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو۔ یہ زہر پورے معاشرے میں پھیلتا ہے اور ملک کی ترقی روک دیتا ہے۔ پاکستان جیسا ملک جو قدرتی وسائل سے مالا مال ہے آج بھی قرضوں میں ڈوبا ہوا ہے کیوں؟ کیونکہ یہ بھروپئے سب کچھ لوٹ کر بیرون ملک بھجوا دیتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ اس لوٹ مار کا خاتمہ کیسے ہو سب سے پہلے عوام کو جاگنا ہوگا تعلیم حاصل کریں میڈیا کو تنقیدی نظر سے دیکھیں جذباتی نعروں میں نہ بہیں ووٹ دیتے وقت سوچیں کہ یہ شخص کیا کر چکا ہے نہ کہ کیا وعدہ کر رہا ہے دوسرا اداروں کو مضبوط بنائیں۔ نیب، ایف آئی اے جیسے اداروں کو آزاد کریں تاکہ کرپشن روکی جا سکے۔ تیسرا انتخابی اصلاحات لائیں خاندانی سیاست ختم کریں امیدواروں کی جائیداد چیک کریں چوتھا سوشل میڈیا اور سول سوسائٹی کو استعمال کریں لوگ متحد ہو کر احتجاج کریں ان بھروپیوں کو بے نقاب کریں۔
اگر ہم ایسا نہ کریں تو یہ لوٹ مار جاری رہے گی ہمارے بچے بھی لٹتے رہیں گے ہماری نسلیں تباہ ہوتی رہیں گی۔ اے عوام! جاگو یہ بھروپئے گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہیں انہیں پہچانو اور عبرت کا نشانہ بناؤ تبھی ہم ایک بہتر پاکستان بنا سکتے ہیں۔ قارئین کرام انکا ظاہری اختلافات دراصل ایک تماشہ ہوتے ہیں محض اسٹیج پر لڑی جانے والی وہ جنگ جو صرف عوام کو دھوکہ دینے کے لیے کھیلی جاتی ہے، پردے کے پیچھے مفادات کی ایک ہی جھولی ہے اور جب مالِ غنیمت سامنے آتا ہے تو سب کے سب ڈرے ہوئے دشمن نہیں بلکہ بھڑئے بن کر ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ عوام کے نام پر ہونے والی یہ لڑائیاں صرف دکھاوا ہیں اصل سودے ان میزوں پر ہوتے ہیں جہاں عوام کی کوئی کرسی نہیں رکھی جاتی یہاں ہر کوئی اپنے مفاد اپنی جیب اور اپنے مستقبل کی بولی لگاتا ہے۔ علاقے کی ترقی عوام کا بھلا انصاف اور اصول یہ سب صرف نعروں کی حد تک رہ جاتے ہیں ہم روز یہ تماشا دیکھتے ہیں، مگر پھر بھی پردہ گرنے نہیں دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بار بار لوٹتے ہیں اور ہم بار بار لٹتے ہیں
یہ تحریر ایک یاد دہانی ہے کہ وقت آ گیا ہے بدلنے کا کب تک لٹتے رہیں گے؟ اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے گلگت بلتستان والو اس انتخابات میں سوچ سمجھ کر ووٹ دیں بلخصوص لوٹوں کو ذہن میں رکھیں اور انہیں عبرت کا نشانہ بنائیں یہ لوٹے ہمارے اصل دشمن ہیں اور ہمارے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔

