Jawan Dimagh Ka Raz
جوان دماغ کا راز

چائے کی بھاپ ابھی تک اٹھ رہی تھی جب پروفیسر رشید صاحب نے مسکرا کر کہا، "بیٹا، زبان صرف بولنے کا ہنر نہیں، جینے کا ہنر ہے"۔ میں چونک گیا۔ سامنے وہی بوڑھے استاد بیٹھے تھے جنہیں ریٹائر ہوئے بیس برس گزر چکے تھے مگر دماغ اب بھی تیز، یادداشت مضبوط اور باتوں میں وہی جوانی کی چمک تھی۔ میں نے پوچھا، "سر! آخر آپ کا راز کیا ہے؟" وہ ہنسے، کپ نیچے رکھا اور بولے، "میں روز نئی زبان سیکھتا ہوں۔ کبھی الفاظ، کبھی محاورے، کبھی لہجے۔ بیٹا، انسان جب نئی زبان بولتا ہے تو وہ دراصل اپنے دماغ کو جوان رکھتا ہے"۔ اُس دن میں نے سوچا، شاید یہ کوئی شاعرانہ جملہ ہے، لیکن برسوں بعد سائنس نے ثابت کر دیا کہ رشید صاحب ٹھیک کہتے تھے۔
حالیہ دنوں میں نیچر نامی مشہور جریدے میں ایک حیران کن تحقیق شائع ہوئی۔ اس میں بتایا گیا کہ جو لوگ دو یا دو سے زیادہ زبانیں بولتے ہیں، ان کے دماغ کا بڑھاپا آہستہ آتا ہے۔ یورپ کے ستائیس ممالک میں اکانوے ہزار سے زیادہ افراد پر تحقیق کی گئی۔ ان کی عمریں اکاون سے نوّے برس کے درمیان تھیں۔ نتائج حیران کن تھے، جو صرف ایک زبان جانتے تھے ان کے دماغ میں عمر رسیدگی کے آثار تیزی سے ظاہر ہو رہے تھے، جبکہ جو دو یا زیادہ زبانیں بولتے تھے، ان کا دماغ چالیس سے پچاس فیصد تک زیادہ جوان پایا گیا۔ یعنی وقت سب کے لیے ایک ہی رفتار سے گزرتا ہے مگر دماغ کے کیلنڈر میں فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ زبانوں کے متوالے وقت کو شکست دے دیتے ہیں۔
یہ بات محض الفاظ کی بازیگری نہیں بلکہ حیاتیاتی حقیقت ہے۔ جب انسان نئی زبان سیکھتا ہے تو دماغ کے وہ حصے فعال ہو جاتے ہیں جو تجسس، توجہ، یادداشت اور فیصلے سے متعلق ہیں۔ گویا ہر نیا لفظ دماغ کی ورزش بن جاتا ہے۔ آپ جتنا نئی زبان میں غوطہ لگاتے ہیں، اتنا ہی دماغ کے نیوران جاگ اٹھتے ہیں۔ اس عمل کو ماہرین "کوگنیٹیو ری ریزرو" کہتے ہیں، یعنی دماغ کی وہ پوشیدہ توانائی جو اسے الزائمر، بھولنے کی بیماری اور ذہنی سستی سے بچاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، زبان سیکھنا دماغ کے لیے ویسا ہی ہے جیسے واک دل کے لیے۔ جو روز تھوڑا سا چلتا ہے وہ دل کے دورے سے بچ جاتا ہے، جو روز تھوڑا سا نیا لفظ سیکھتا ہے وہ دماغ کے زوال سے محفوظ رہتا ہے۔
یورپ کے لوگ اب اس تحقیق کے بعد بچوں کو تین تین زبانیں سکھانے لگے ہیں۔ اسکینڈینیوین ممالک جیسے سویڈن، ناروے اور فن لینڈ میں تو صورتحال یہ ہے کہ بچے پیدائش کے چند سال بعد ہی دو زبانوں میں بات چیت شروع کر دیتے ہیں۔ وہاں کا معاشرہ مان چکا ہے کہ زبان سیکھنا صرف روزگار کی ضرورت نہیں بلکہ ذہنی صحت کا ٹانک ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں زبانوں کو اب بھی قوم پرستی یا تفاخر کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ ہم اردو اور انگریزی کے درمیان جنگ لڑتے رہتے ہیں، حالانکہ دونوں ہمارے لیے سرمایہ ہیں۔ جو بچہ ان دونوں کے ساتھ کسی تیسری زبان، عربی، چینی، یا ترکی، سے بھی آشنا ہو جائے، وہ نہ صرف ذہنی طور پر چست رہے گا بلکہ اس کی سوچ کی وسعت بھی کئی گنا بڑھ جائے گی۔
میں اکثر سوچتا ہوں، زبان دراصل آئینہ ہے۔ جس قدر آپ زبانوں کو جانتے ہیں، اتنی ہی مختلف تہذیبیں آپ کے اندر آباد ہو جاتی ہیں۔ آپ ایک زبان جانتے ہیں تو ایک دنیا دیکھتے ہیں، دو زبانیں جانتے ہیں تو دو دنیائیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو شخص زبانوں سے محبت کرتا ہے وہ تعصب سے دور اور انسانیت کے قریب ہوتا ہے۔ زبان ہمیں سکھاتی ہے کہ دنیا صرف ایک زاویے سے نہیں دیکھی جاتی۔ ایک لفظ بدلنے سے معنی بدل جاتے ہیں اور کبھی ایک مفہوم بدلنے سے زندگی بدل جاتی ہے۔ یہ سمجھ آ جائے تو انسان دوسرے کو برداشت کرنا سیکھ جاتا ہے اور یہی برداشت، یہی وسعتِ نظر، انسان کو ذہنی طور پر جوان رکھتی ہے۔
پروفیسر رشید اکثر کہا کرتے تھے، "جس دن تم نے سیکھنا چھوڑ دیا، تم نے جینا چھوڑ دیا"۔ آج مجھے ان کا مفہوم سمجھ آیا۔ زبان سیکھنا دراصل زندگی سے مکالمہ کرنا ہے۔ آپ جب کسی نئی زبان میں بات کرتے ہیں تو اپنے اندر کے نئے گوشے دریافت کرتے ہیں۔ شاید اسی لیے قرآن نے بھی انسانوں کے مختلف قبیلوں اور زبانوں کو نشانی کہا، "ومن آیاته اختلاف ألسنتکم وألوانکم"، یعنی تمہاری زبانوں اور رنگوں کا فرق بھی اس کی نشانیوں میں سے ہے۔ خدا خود سکھا رہا ہے کہ زبان کا تنوع اس کی تخلیق کا حسن ہے اور جو اس حسن کو سمجھ لے، وہ بوڑھا ہو ہی نہیں سکتا۔
چائے ختم ہوگئی، بات مکمل ہوئی اور پروفیسر رشید کی مسکراہٹ ذہن میں نقش ہوگئی۔ میں نے دل ہی دل میں فیصلہ کیا کہ اگلے ہفتے سے ایک نئی زبان سیکھوں گا۔ چاہے چند الفاظ روز ہی کیوں نہ ہوں، مگر کچھ نیا ضرور۔ کیونکہ اب میں جان چکا ہوں، عمر بڑھنے سے نہیں، سیکھنا چھوڑنے سے بڑھاپا آتا ہے اور جو سیکھتا رہتا ہے، وہ جوان رہتا ہے۔ یہی ہے جوان دماغ کا راز۔

